پانی احتیاط سے استعمال نہیں کیا

پانی زندگی ہے ایسا ہم بچپن سے سن رہے ہیں مگر آتا کہاں سے ہے اور کتنا ضروری ہے، یہ ہم نے شاید کبھی نہیں سوچا۔ پانی کو کبھی بھی احتیاط سے استعمال کرنے کا نہیں سوچا بلکہ ہمیشہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پانی ٹینک میں بھرلیں جس کی وجہ سے پانی اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا جیسے استعمال ہونا چاہیے۔

پانی زندگی ہے ایسا ہم بچپن سے سن رہے ہیں مگر آتا کہاں سے ہے اور کتنا ضروری ہے، یہ ہم نے شاید کبھی نہیں سوچا۔ پانی کو کبھی بھی احتیاط سے استعمال کرنے کا نہیں سوچا بلکہ ہمیشہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پانی ٹینک میں بھرلیں جس کی وجہ سے پانی اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا جیسے استعمال ہونا چاہیے۔ بارشوں سے یہ پانی ہمارے پاس آتا ہے جو کہ گلیشئر سے ہوتا ہوا کراچی جیسے شہر میں پہنچتا ہے اور گلیشئر بنتے ہیں برف باری سے۔۔ کچھ لوگ خاص کر واٹر کمپنیاں زمین سے پانی نکالتے ہیں جسے بورنگ کہتے ہیں جو صرف کراچی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں گھروں میں بھی کروائی جاتی ہے۔ زمین کا حقیقت میں اپنا کوئی پانی نہیں ہوتا بلکہ بارش اور نہروں کا پانی زمین جذب کرتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پانی ہمارے لئے کافی ہے جو کہ ہمارے پاس موجود ہے، تو جواب یقیناً یہی ہوگا کے نہیں۔ چیف جسٹس کا ڈیم کے حوالے سے اقدام واقعی بہت اچھا ہے جس سے پانی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔

بلوچستان میں تقریباً 13 دریا ہیں جو صرف بارشوں کے دوران ہی رواں ہوتے ہیں، اگر بارشوں کے دوران دریاؤں میں پانی جمع کر لیا جائے تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات کیے گئے نہ حکومت نے ایسے اقدامات کرنے کی حامی بھری کہ جس سے بلوچستان میں پانی کا مسئلہ حل ہو پائے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ پانی جمع تو کرتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث بڑے پیمانے پر پانی جمع نہیں کر پاتے۔ ایک ڈیم جو کہ میرانی کے نام سے مشرف صاحب کے دور میں بنایا گیا اور ایک بڑا ڈیم نال میں ڈاکٹر مالک صاحب کے دور میں بنایا گیا تھا مگر یہ ڈیمز بارشوں سے ہی بھرے جاسکتے ہیں اور بارشوں کے لئے درختوں کی اشد ضرورت ہے۔

بلوچستان کے لوگ روز مرہ کی زندگی کے لئے بورنگ سے گزارا کرتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کافی حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے سالانہ 10 سینٹی میٹر زمین دھنس رہی ہے۔ واسا حکام کے مطابق صرف کوئٹہ شہر اور اطراف میں پانی کی ضرورت 5 کروڑ گیلن روزانہ ہے۔ کوئٹہ میں واسا کے 417 ٹیوب ویلز ہیں جن میں سے لگ بھگ 100 کے قریب خراب ہیں۔

ماہرینِ آب کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت جو پانی استعمال کیا جا رہا ہے وہ آئندہ نسلوں کے حصے کا پانی ہے۔

قلت آب کے باعث صوبے سے لوگوں کی ہجرت روکنے کے لیے حکومت کو ڈیمز اور ری چارجنگ پوائنٹس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک جامع آبی پالیسی بھی نافذ کرنا ہوگی۔

شاید ہمارے حکمران اس اہم مسئلہ کو اتنی سنجدگی سے نہیں لے رہے۔ حالیہ دنوں سماء کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے ناگ باڑی میں پانی کی شدید قلت کے باعث لوگ ایک ہی تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہیں جہاں سے جانور اور انسان ایک ساتھ پانی پی رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان سب مسئلوں کا حل کیسے نکالا جائے؟ ٹھیک ہے کہ شاید حکومت اس مسئلے کو فوری حل نہ کرسکے مگر درخت لگانا ایک اہم اور ضروری عمل ہے جس سے اس طرح کے مسائل کا حل فوری طور پر نکالا جاسکتا۔ بلوچستان کے بہت سے اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں کئی سالوں سے موسلا دھار بارش نہیں ہوئی جس کی وجہ صرف درختوں کی کمی اور کچھ نہیں۔ بہت سے ایسے درخت موجود ہیں جن کا خیال رکھنا زیادہ مشکل بھی نہیں۔ اگر بلوچستان کے عوام کو پانی جیسی نعمت کا استعمال زندگی بھر کے لئے مہیا کرنا ہے تو حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر پورے بلوچستان میں ہزاروں درخت لگانے کی ضرورت ہے تاکہ بارشیں ہوں اور اس خشک زمین کو پانی سے تر کیا جاسکے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Waqar Siddiq
About the Author: Waqar Siddiq Read More Articles by Waqar Siddiq: 7 Articles with 8702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.