نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ باشعور اور
مہذب اقوام نوجوانوں کو اپنا مستقبل تصور کرتی ہیں۔ برسرروزگار، تعلیم
یافتہ اور ہنرمند نوجوان ہی کسی ملک اور قوم کی داخلی معیشت اوروقار کے
استحکام کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وسائل، تعلیم،
ذرائع اور ٹیکنالوجی کی بے تحاشا ترقیکے باوجود دنیا بھرمیں پندرہ سے چوبیس
کی عمر کے6.58 فیصد یعنی 7کروڑ سے نوجوان بیروزگاری سے دوچار ہیں۔ اتنی بڑی
تعداد میں نوجوانوں کا بیروگاری سے دوچار ہونا اس امر کا جیتا جاگتا ثبوت
ہے کہ دنیاکے اکثر ممالک میں وسائل و ذرائع چند مراعات یافتہ مخصوص طبقات
کے افراد کے ہاتھوں مرتکز ہو چکے ہیں۔ بیروزگاری کسی بھی سطح پر ہو، یہ
اولاد آدم اوربنات حوا کا استحصال ہوتی ہے۔ استحصال اسی شکل میں تولد پذیر
ہوتاہے جب ذرائع پیداوار مخصوص طبقات کی یرغمالی مٹھی میں بند ہو کر رہ
جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کے اکثر ممالک کی
آزادی کی تحریکوں کو نوجوان طبقات ہی نے آگے بڑھایا تھا۔ ایشیا اور افریقہ
کے بیشتر ممالک کی تحاریک آزادی میں نوجوانوں کی قربانیاں ایک ناقابل
فراموش باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم تحریک قیام پاکستان کے
مختلف ادوار کا مرحلہ وار جائزہ لیں تو حالات و حقائق اس امر کی نشاندہی
کرتے ہیں کہ اسلامیان برصغیر کی نوجوان نسل نے اس آگے بڑھانے اور منزل
مقصودسے ہمکنار کرنے میں کلیدی کرداراداکیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان
قائداعظم محمد علی جناحؒ نوجوانوں سے بالعموم اور تعلیم یافتہ اور ہنرمند
نوجوانوں سے بالخصوص بے پناہ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ وہ
برصغیر کی نوجوان نسل کو پاکستان کی خالق جماعت پاکستان مسلم لیگ کی ریڑھ
کی ہڈی سے تشبیہ دیکر ان کی دل آسائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ قیام
پاکستان کے فوری بعد قائداعظمؒ نے اسلامیہ کالج پشاور کے نوجوان طالب علموں
سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا تھا، بین السطور اس کا مفہوم یہی تھاکہ یہ
نوزائیدہ مملکت نوجوان نسل کو زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کے لامحدود
مواقع فراہم کرے گی۔
آج ہمیں آزادی کے شرف سے بہرہ یاب ہوئے7عشرے گزر چکے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ
ان عشروں میں پاکستان کے منتخب جمہوری حکومتوںاور کھربوں پتی وزیر اعظموں
اور اربوں پتی ارکان پارلیمان نے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور انکے
مستقبل کے تحفظ کے لیے مثبت و مفید اقدامات کرنے سے ہمیشہ جان بوجھ کر صرف
نظر اورمجرمانہ چشم پوشی کی۔ کیا پیپلز پارٹی ، کیا ن لیگ دونوں کو جب ا
قتدار ملا تو انہوں نے صرف اور صرف اپنی آل اولاد اور قریبی چمچوں کھڑچوں
کو ملکی خزانہ لوٹنےکے لیے فری ہینڈ دیا ۔ اس حمام میں دونوں جماعتوں کا ہر
سر بر آوردہ رہنما فطری لباس میں دکھائی دیتا ہے۔ اس ملک میں بلاول،
بختاور، آصفہ ، حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز امیر سے امیر تر اور عام
گھرانوں سے تلق رکھنے والے نوجوان غریب سے غریب تر ہوتے جائیں اور فاقوں
اور بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کے ارتکاب کا دنیا کا مشکل اور ناخوشگوار
ترین فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجائیں ، وہاں جمہوریت ایک دشنام بن کر رہ جاتی
ہے۔ ایسے میں عام اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والا تعلیم یافتہ اور
باشعور نوجوان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہمیں جو حکمران بھی روٹی
روزگار اور ملازمت فراہم کرے گا ، بھلے سے وہ غیر منتخب حکمران ہی کیوں نہ
ہو، وہی ہمارا محسن اور نجات دہندہ ہوگا۔ جس مملکت اور معاشرےکے منتخب
جمہوری حکمران بھی اپنی نوجوان نسلکے مسائل حل کرنے کی کوششوں سے گریز کریں
، وہاں فوجی ڈکٹیٹروں سے کیونکر شکوہ کیا جائے۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ نواز شریف
، بینظیر، یوسف رضا گیلانی اورشاہد خاقان عباسی کے دور میں ان ستم رسیدہ
بیروزگار نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کسی نے بھی موثر، مربوط اور جامع
حکمت عملی تک وضع کرنے سے بھی ’’اجتناب‘‘ برتتے رہے، وہاں اگر یہ نوجواں
نسل کج روی، بے راہ روی ، جرائم ، دہشت گردی اور گمرہی جیسے جرائم کے چنگل
میں پھنس جائے جائے تو اس پر حیرت کیسی؟۔۔۔ یہ بات انتہائی حیرتناک ہے کہ
ماضی کی کئی منتخب و غیر منتخب حکومتوں نے نوجوانوں کی وزارت تک قائم کرنے
کا بھی تکلف گوارا نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ جن ادوار حکومت میں نوجوانوں کی
فلاح و بہبود کیلئے وزارتیں قائم کی گئیں، ان ادوار میں بھی نوجوان شاکی
رہے۔ بحمدللہ پاکستان ہمہ جہتی وسائل کے لحاظ سے ایک امیر ترین ملک ہے لیکن
اس امارت کے افادے کو عام شہری تک پہنچنے کے راستے میں ہر دور میں دخلی و
خارجی دباؤکے تحت رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ اس وقت وطن عزیز میں پندرہ سے
چوبیس سال کی عمر کے 2کروڑ 90لاکھ نوجوان ہیں۔ ان کا 13.3فیصد یعنی 28 لاکھ
96 ہزار نوجوان بیروزگار ہیں۔ 28 لاکھ 96 ہزار نوجوانوں کی یہ بیروزگاری
ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ چیلنج دراصل ہمارے مقتدر طبقات کی نسل نو
کےمعاملات و مسائل سے عدم دلحسپی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ بیروزگاری عمومی طور پر پوری دنیا میں ایک وبائی لہر کی شکل میں سر
اٹھائے ہوئے ہے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا تو ذکر ہی کیا، یہاں تو
عالم یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس مسئلہ سے دوچار ہیں اور اٹلی جیسے
ملک میں بھی 20سے 24سال کی عمر کے 30فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ اس تقابلی
موازنہ کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ پاکستان میں بیروزگاری کی جینوئن وجوہات
موجود ہیں۔ یہاں اقرباء پروری، ناقص منصوبہ بندی اورتعلیم و ٹیکنالوجی کے
شعبوں سے حکومتوں کی مجرمانہ غفلت اس کا بڑا سبب بنی ہیں۔ اگر نواز اور
زرداری کی منتخب حکومت کے ارباب اختیار اس مسئلہ اوربحران کا سنجیدگی سے
نوٹس لیتے ہوئے نوجوانوں کیلئے ملازمت اور روزگار کے نئے ذرائع تخلیق کرنے
کیلئے جامع منصوبہ بندی کر تے تو اس بحران کو مزید عمیق ہونے سے نہ روکا جا
سکتا تھا۔ خاص طور پر اب جبکہ قومی احتساب بیورو ایسا فعال اور متحرک ادارہ
موجود ہے، نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے اسے بھی اپنے فرائض منصبی
ایک نئے رخ پر ادا کرنا ہوں گے۔ 1997ء میں نواز شریف کے دوسرے عہد حکومت
میں یوتھ انویسٹمنٹ سکیم کے عنوان سے نوجوانوں کوروزگار فراہم کرنے کیلئے
ایک پروگرام آغاز کیا گیا تھا، لیکن بعد میں اس قسم کی خبریں بھی منظر عام
پر آئیں کہ اس مد میں مختص اربوں کی رقم جمہوریحکومت کے چہیتوں اور اس دور
کے احد چیموں اور فواد حسن فوادوں نے خرد برد کر لی ۔ اس خرد برد پر تبصرہ
کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کے اس دور کے ایک سابق گورنر نے کہا تھا کہ ’’بہتر
ہوتا کہ حکومت یہ رقم ہوائی جہاز سے نیچے پھینک دیتی، شاید اس طرح معدودے
چند مستحق نوجوانوں کے ہاتھ بھی کوئی رقم لگ جاتی‘‘۔ ایون فیلڈ کیس کا
دلیرانہ فیصلہ کرنے والی فعال نیب کے ذمہ داران اس قومی فراڈ کےمرتکبین کو
بھی احتساب کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کریں اوران سے ہضم شدہ قومی دولت کی
بازیابی کروا لیں تو ممکن ہے کہ کئی لاکھ نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا
ہونے کے مواقع مل سکیں۔
|