آج پاکستانی حکومت کی طرف سے کرتار پور راہداری کا سنگِ
بنیاد رکھ دیا گیا ۔
مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی مثال اور اچھا قدم ہے ۔ بحیثئیت
مسلمان ہم پر یہ لازم ہے کہ غیر مسلموں کو اپنے ملک میں ان کے طریقے پر
عبادت کرنے کی اجازت دیں اور سہولیات فراہم کریں۔ لہٰذا اس معاملے میں وزیر
اعظم جناب عمران خان مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
آج کی تقریب میں انڈیا کے سابق کرکٹر اور وزیر جناب نوجوت سنگھ سدھو نے بھی
خطاب کیا ۔ ان کی خوشی دیدنی تھی ۔انہوں نے دل کھول کر عمران خان ,
پاکستانی حکومت اور بھارتی حکومت کے اس قدم کو سراہا ۔ انہوں نے کہا کہ
عمران خان نے وعدہ نبھایا اور دوستی کا حق ادا کیا ۔ اب جب بھی گرونانک کی
تاریخ لکھی جائے گی اس میں عمران خان کا نام پہلے پنے پر ہو گا ۔
ان کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے بھی اپنے خیالات کا
اظہار کیا اور کہا کہ میں آج سکھوں کے چہروں پر وہ خوشی دیکھ رہا ہوں جو
مسلمانوں کے لیئے ایسے ہے جیسے انہیں کسی پابندی کے بعد اچانک مدینے کی
زیارت کی اجازت سے حاصل ہو ۔
اس معاملے پر پاکستانی آراء دو قسم کی ہیں ۔
ایک وہ ہیں جو عمران خان کے مخالف ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ سکھوں کی آڑ میں
درحقیقت قادیانیوں کو راستہ فراہم کیا گیا ہے ۔
دوسرے وہ ہیں جو عمران خان کے حامی ہیں ۔ ان کو لگتا ہے کہ خان صاحب نے
کرتار پور راہداری کا نہیں بلکہ خالصتان کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے ۔
میں بدقسمتی سے ان دونوں آراء سے متفق نہیں ۔
میری رائے میں یہ ایک احسن قدم ہے جو ایک دوست نے دوسرے دوست کے لیئے
اٹھایا ہے ۔ نہ تو اس کا مقصد قادیانیوں کو راستہ فراہم کرنا ہے نہ ہی اس
سے خالصتانی تحریک کو کوئی مدد ملنے کا امکان ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستان کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان ۔ تو میرے
نزدیک اس سے پاکستان کو نفع تو ہرگز ہرگز کوئی پہنچنے کا امکان نہیں ہے ۔
ہاں نقصان کا امکان البتہ موجود ہے ۔
پہلے تو یہ سن لیں کہ انڈیا کی ایک وزیر نے اس معاملے میں کہا ہے کہ اس
راہداری پر ویزے کی شرط ہو گی یا نہیں یہ بات ابھی طے ہونا باقی ہے ۔ لیکن
میں فرض کر لیتا ہوں کہ انڈیا اس معاملے میں ویزہ فری کی شرط پر مان جاتا
ہے ۔ لیکن اس میں فائدہ کس کو ہے اور نقصان کس کو ؟
مثال کے طور پر جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس راہداری کا مقصد
انڈیا کے سکھوں کی کرتار پور تک بآسانی رسائی ہے تو ویزے کی شرط پر سمجھوتہ
پاکستان کو کرنا پڑے گا ۔ ہر سکھ کو یہ اجازت دینی ہو گی کہ وہ بغیر ویزے
کے اس راہداری کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو جائے ۔ اس معاملے میں یہ بات
حل طلب ہے کہ کوئی انڈین دہشت گرد اگر سکھ بن کر پاکستان میں داخل ہو تو اس
کے لیئے پاکستانی حکومت کے پاس کیا انتظام ہو گا ؟
پھر اس بات کا کیا انتظام ہو گا کہ جو سکھ اس راستے سے پاکستان میں داخل
ہوا ہے وہ بس گرونانک کے مزار تک محدود رہے گا ؟ یا اسے اس راستے سے پورے
پاکستان میں گھومنے پھرنے کی آزادی ہو گی ؟
اگر ہو گی تو کیوں اور اگر نہیں ہو گی تو کیسے ؟
دوسری طرف اگر اسی راستے سے کوئی پاکستانی انڈیا جانے کا ویزہ مانگے گا تو
اس کے پاس ویزہ مانگنے کی وجہ کیا ہو گی ؟ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ
راہداری محض سکھوں کی سہولت کے لیئے بنائی جا رہی ہے ۔ یعنی یہ ایک طرح سے
ایک طرفہ راہداری ہو گی جس سے صرف انڈیا کے لوگ پاکستان آسکیں گے ۔
پاکستانیوں کے اس راستے سے انڈیا جانے کی کوئی منطق مجھے تو سمجھ نہیں آتی
۔
پھر یہ بات بھی حل طلب ہے کہ اس راہداری پر جو لاگت اٹھے گی وہ رقم کہاں سے
آئے گی ؟
کیا یہ راہداری پاکستانیوں کے ٹیکس سے بنے گی یا اس کے لیئے سکھ برادری سے
چندہ وصول کیا جائے گا ؟
اگر تو پاکستانیوں کے ٹیکس سے بنے گی تو پاکستانیوں کا اس میں فائدہ کیا ہے
؟ اور اگر اس کے لیئے چندہ سکھ برادری دے گی تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا
؟
یہاں ایک ذیلی بات عرض کرتا چلوں کہ لاہور میں ایک پہلے سے زیر تعمیر میٹرو
ٹرین صرف اس بناء پر تعطل کا شکار ہے کہ اسے عمران خان کے حریف حکمران نے
شروع کروایا تھا ۔ اس میں اربوں روپیہ کس ملک کی عوام کا استعمال ہو چکا ہے
اس سے خان صاحب کو کوئی دلچسپی نہیں ۔
لہٰذا یہ سوال ازخوذ جنم لیتا ہے کہ اگر خدانخواستہ اس راہداری پر بھی نوے
فیصد اخراجات کر لینے کے بعد اگر خان صاحب کی حکومت چلی گئی اور میاں صاحب
کی حکومت آگئی تو کیا یہ راہداری مکمل ہو گی یا اگلا حکمران بھی خان صاحب
کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا ذاتی بدلہ پوری عوام سے لے گا ؟
اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج سے پہلے سکھ برادری کے گرونانک کے
مزار پر پابندی عائد تھی اور اس راہداری کے ذریعے یہ پابندی ختم کی جا رہی
ہے ؟
یہ سوال اس لیئے پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب نے اپنے خطاب میں مدینے کی مثال
کچھ اسی قسم کی دی ہے کہ میں سکھوں کے چہروں پر آج ایسی خوشی دیکھ رہا ہوں
کہ جیسے مسلمان مدینہ کے بارڈر پر ہوں اور داخلے پر پابندی ہو ۔ پھر اچانک
انہیں داخلے کی اجازت مل جائے ۔
جی نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ سکھ ہر سال پاکستان آتے ہی ہیں لیکن اس سے
پہلے انہیں دو مشکلات تھیں ۔
ایک تو یہ کہ انہیں گرونانک کے مزار پر آنے کے لیئے پاکستان سے ویزہ لینا
پڑتا تھا ویسے ہی جیسے پاکستانی مسلمانوں کو مدینے جانے کے لیئے ویزہ لینا
پڑتا ہے ۔ خان صاحب کو تو ہم سے پہلے یہ بات معلوم ہونی چاہیئے تھی کہ وہ
ننگے پاؤں مدینے جانے کے عادی ہیں ۔ پتہ نہیں ان کو ویزہ لینا پڑا تھا یا
نہیں لیکن عام پاکستانی کو بہرحال ویزہ ضرور لینا پڑتا ہے ۔ دینی وابستگی
اپنی جگہ ۔ ملک کی حفاظت اپنی جگہ ۔
دوسری مشکل سکھوں کو یہ تھی کہ انہیں لمبا راستہ طے کر کے واہگہ بارڈر کے
راستے پہلے لاہور آنا پڑتا تھا ۔ پھر وہاں سے کرتار پور ۔
جن دنوں یہ سکھ لاہور آتے ہیں لاہور کی منڈیوں میں عید کا سا سماں ہوتا ہے
۔ خصوصاً میڈیسن مارکیٹ میں آپ کو ہر طرف سکھ ہی سکھ گھومتے نظر آتے ہیں ۔
یہ اپنے سفری اخراجات ایسے ہی پورے کرتے ہیں ۔ لاہور سے خریداری کرتے ہیں
اور پھر یہاں سے خریدا سامان انڈیا میں واپس جا کر مہنگے داموں بیچ دیتے
ہیں ۔
لاہور والوں کو بھی ان دنوں بہت فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا مال بھی بکتا ہے
اور انڈیا کا روپیہ بھی پاکستان آتا ہے ۔
مگر اب ایسا نہیں ہو گا ۔ کیوں یہ راہداری بنائی ہی اس مقصد کے لیئے جا رہی
ہے کہ سکھوں کو لاہور نہ آنا پڑے ۔
اس پر اگر کوئی یہ تاویل کرے کہ سکھ اب بھی لاہور آسکتے ہیں اور اب بھی
وہاں سے خریداری کر سکتے ہیں تو اس منصوبے کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے ۔
کیوں کہ اگر سکھوں نے بہرحال لاہور آنا ہی ہے تو پھر ان کے لیئے یہ راہداری
بنانے کی وجہ کیا ہے ؟
یہ میں نے وہ نکات بیان کیئے ہیں جن کی وضاحت خان صاحب کی آج کی تقریر میں
ہونی چاہیئے تھی ۔ سدھو تو خوش تھے لہٰذا ان کی تقریر ان کے جذبات کی
ترجمانی کر رہی تھی ۔ ہمیں اس راہداری سے کیا ملے گا یہ بات خان صاحب کے
واضح کرنے والی تھی جو نہیں کی گئی ۔ اگر محض اتنا کہا جائے کہ انڈیا سے
تعلقات مضبوط ہوں گے تو اس قسم کی کوششیں تو میاں صاحب پہلے کر چکے ہیں جن
کی بنیاد پر خان صاحب کی جماعت نے انہیں مودی کا یار اور غدار قرار دیا تھا
۔
باقی رہی خالصتان بننے والی بات تو اس کی منطق مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ
کیا راہداری بننے کی خوشی میں سکھ پاکستان سے اپنے الحاق کا اعلان کر دیں
گے یا انہیں اس بارڈر سے حکومت پاکستان کی کوئی مدد مل جائے گی اور وہ الگ
ریاست کا اعلان کر دیں گے ؟
کیسے ؟
جبکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ ایک یک طرفہ راہداری ہو گی جس سے وہ تو
یہاں آسکتے ہیں ۔
ہم وہاں نہیں جا سکتے ۔
|