"امی آج میں سکول نہیں جاؤں گا۔"
اس نے کمبل میں منہ چھپا لیا، حوریہ مسکرائی،اس نے بیٹے کو گدگدایا اور
رسان سے بولی:
"میرے شہزادے اسکول تو جانا پڑے گا ، بابا کی طرح بڑا آدمی جو بننا ہے
،پڑھو گے نہیں تو کیسے بڑا آدمی بنو گے ؟ چلو شاباش اٹھو۔"
وہ مجبورا" اٹھ کر تیار ہوکر نیچے آگیا۔
حوریہ اس کو اسکول بھیج کر گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔دوپہر کے قریب
دروازے کی گھنٹی بجی ،وہ اس امید پر دروازے پر گئی کہ اس کا جگر گوشہ اسکول
سے واپس آیا ہوگا۔اس نے دروازہ کھولا،اس کے سامنے اس کا میاں، آنکھوں میں
آنسو لئے ایک خون آلود بستہ پکڑے کھڑا تھا ، وہ اس بستے کو لاکھوں کے ہجوم
میں بھی پہچان لیتی ،اسی بستے کو وہ روز سیٹ کرتی تھی ،اسی بستے کو اس کا
جگر گوشہ روز اسکول لے کر جاتا تھا ،اس کے کانوں میں معصوم آواز گونجی:
"امی ! آج میں اسکول نہیں جاو گا۔"
اس نے سوچا:
"یا اللہ کیا نفرت کا عفریت میرے بیٹے کو درسگاہ میں بھی نگل گیا؟
اب کون سی جگہ محفوظ ہے؟"
اس نے میاں کا گریبان ہکڑا اور چیخی:
"کیوں میری گود اجڑ گئی؟"
اس کا میاں ہولے سے بولا:
"کیونکہ وہ فوجی کا بیٹا تھا۔"
وہ دل تھام کر زمین پر گر گئی۔ دہشت گردی اور نفرت کا بھوت دانت نکوسے
ہنستا ،بدھائیاں بانٹتا پھر رہا تھا۔ |