سلام اس ماں کو جس نے اپنے بچے کو مسلمان بنایا

انیس سو چھیاسی کی بات ہے کہ میرا جہاز ارجنٹا ئنا کی پورٹ بیونس آئرس میں لگا تھا ہم ایک مہینے کے سفر سے گزر کر آئے تھے کوئی ظہر کا وقت تھا کہ جہاز پورٹ پر باندھ دیا گیا تھا کام سے فارغ ہوتے ہوتے عصر کا وقت ہو گیا تھا۔

میں عصر کی نماز پڑھ کر جا نماز ا ٹھانے ہی والا تھا کہ ایک شخص میرے کمرے کے کھلے دروازے کی وجہ سے اندر آ گیا اور کہنے لگا کہ جا نماز نہ اٹھائیے میں وضو سے ہوں میں بھی نماز پڑھ لوں گا میں بڑا حیران ہوا مگر کیا بول سکتا تھا میں نے جانماز کو اسی حالت میں چھوڑ دیا اور بعد میں وہ آدمی نماز میں کھڑا ہو گیا میں اسے عجیب تجسس سے دیکھ رہا تھا اس کے بال کسی سکھ کی طرح بڑھے ہوئے تھے اگرچہ پگڑی نہیں تھی مگر ہاتھ میں کڑا بھی تھا میں سوچنے لگا کہ شاید یہ آدمی سکھ ہےپھر نماز کیوں میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اس نے نماز سے سلام پھیر دیا اور کھڑا ہو گیا اس نے بڑی محبت سے سلام کیا اور حال چال پوچھنے لگا ابھی میں کچھ بولتاکہ میرے سلام کے جواب میں اس نے اپنا تعارف بھی شروع کردیا میرا جہاز آج صبح ہی آیا ہے میرا ریڈیو افسر آج سائن آف کرکے پاکستان چلا گیا وہ ڈھائی سال سے جہاز پر تھا اور میرا اس کا ساتھ سال بھر سے تھا ہم دونوں ساتھ ہی باہر جاتے تھے اس کے جانے کے بعد میں بہت غمزدہ اور تنہا ہو گیا ہوں میری جہاز میں سارے یونانی ہیں ان کے ساتھ باہر نہیں جا سکتا تھا میں نے سوچا شاید کوئی پاکستانی اس جہاز پر ہو تو کسی سے پوچھا تو ایک آدمی نے بتایا کہ ریڈیو افسر پاکستانی ہے میں بہت خوش ہوا اور چلاآیا میں نے پوچھا تمہارا ریڈیوافسر پاکستان سے تھا اس کا نام کیا تھا اس کا نام اصغررضا تھا مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ و ہ بےچارہ میرا شاگرد رشید تھا اور واقعی ڈھائی سال سے وہ جہاز پر تھا کیوں کہ اس کو ملازمت کوئی دو سال بعد ملی تھی میں نے اس آدمی سے دوسرا سوال یہ کیا کہ میں تو تمہیں سکھ سمجھا تھا مگر تم نے نماز پڑھنے کو کہا تو میں بہت کنفیوز ہو گیا اس نے جواب دیا میں سکھ ہوںگردوارےبھی جاتا ہوں اور مسجد بھی جاتا ہوں یہ بات سنتے ہی میں اس تذبذب میں تھا کہ سکھ نماز کیوں پڑھنے لگا کہ اس کی آواز آئی کی میری ماں مسلمان ہے میرا باپ سکھ ہے یہ سنتے ہی میری حس جاگ گئی اور میں نے نتیجہ اخذ کر لیا کہ سلام ہو اس ماں پر جس نے ہر مجبوری کے باوجود اپنے اولاد کو مسلمان بنایا اور باپ کی وجہ سےسکھ کی شناخت بھی رکھتا ہے مگر میں نے یہ نہ پوچھا کہ ایسا کیوں کیونکہ یہ میری ہی عمر کا تھا تو اندازہ یہ تھا کہ اس دور میں کوئی مسلمان اپنی بیٹی کی سکھ سے شادی نہیں کرسکتا تھا یقینا تقسیم ہند کے وقت جب پاکستان وجود میں آیا تو سکھوں کے مظالم کی داستان میں سے یہ بھی ایک داستان کا حصہ ہے اپنے اندازے اور چشم تصور کے نتیجے کو جانچنے کے لئے میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم دونوں مذاہب کو مانتے ہو اس نے کہا کہ اس کا باپ ایک شریف النفس اور درد دل رکھنے والا انسان ہے اس لئےاس نےاپنی مسلمان بیوی سے مزاحمت نہیں کی بجائے اس کے کہ گھر کا سکون برباد ہوتا دونوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا کیونکہ جب میری ماں میرے باپ کو ملی تھی وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ زندہ بھی ہیں یا نہیں اور اگر وہ مل بھی جاتے تو اپنی لڑکی کو قبول نہ کرتے یہی وجہ تھی کہ امی نے باپ کے ساتھ شادی ہونے پر اطمینان کا سانس لیا میں ان کی بڑی اولاد ہوں اور میرے دل میں دونوں طرف کے لوگوں کے لئے محبت اور احترام ہے نفرت کیا ہوتی ہے مجھے نہیں معلوم بلکہ مسلمانوں اور اسلام کے لئے مجھے بڑا احترام ہے اور میں سکھ ہونے کے باوجود سچا مسلمان بھی ہوں۔ آج 2018 میں کرتار پور کی راہداری کھولنے کے موقع پر مجھے رنبیر سنگھ یاد آگیا اور مجھے نجوت سنگھ سدھو کی محبت پر اعتبار کرنے کو جی چاہا اور اس برادری میں بھی انسانیت کی قدریں موجود ہیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی نفرت کسی کے لئے نہیں محبت سب کے لیے -

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 79 Articles with 82603 views Since 1964 in the Electronics communication Engineering, all bands including Satellite.
Writing since school completed my Masters in 2005 from Karach
.. View More