انسان فضاؤں اورخلاؤں میں، شاہراہوں پریاچاردیواری کے
اندر جہاں بھی ہٹ دھرمی ،ڈھٹائی، بے اختیاطی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ
کرے گاوہاں اس کے ساتھ حادثہ ہونااٹل ہے۔حادثات اور آفات کو انسان کی قسمت
سے منسوب نہیں کیاجاسکتا۔ جاپان کیخلاف امریکہ کی ایٹمی جارحیت غفلت نہیں
بلکہ بدترین فرعونیت تھی،اس سانحہ میں جاپانیوں کی قسمت کاکوئی دخل نہیں
تھا،ایک عالمی ولن نے''ہیروشیما'' پر شب خون ماراتھا ۔ہمارے ملک میں ہربرس
آنیوالے سیلاب آفات کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ جو ریاست بروقت سیلاب سے
بچاؤکی تدبیر نہیں کرے گی یقینااس کے شہروں اورشہریوں کوبڑے پیمانے پراملاک
کی بربادی اوراموات کاسامنا کرناپڑے گا۔بیشترواقعات میں کسی ایک انسان کی
غفلت کاخمیازہ بیسیوں ،سینکڑوں یاہزاروں انسانوں کوبھگتناپڑتا ہے ۔ کہاجاتا
ہے اگرکسی قوم کامزاج سمجھناہوتووہاں کی شاہراہوں پر گاڑیوں کے نظام
آمدورفت کوسمجھ لیاجائے ،ہمارے ہاں بھی زیادہ ترشہریوں کی گاڑیاں یاسواریاں
شاہراہوں پردوڑتی نہیں بلکہ دندناتی اوردوسروں کوروندتی ہیں کیونکہ وارڈنز
کوٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ چالان کرنے کا جنون ہے،
شہرلاہور سمیت مختلف شہروں میں وارڈنز جان بوجھ کرچھپ کرکھڑے ہوتے ہیں ،انہیں
شہریوں کی طرف سے قوانین کی خلاف ورزی کاانتظار رہتاہے ۔اگروارڈنزسگنل کے
بالکل پاس اورنمایاں اندازسے ڈیوٹی دیں تویقیناقوانین کی خلاف ورزی
اورحادثات میں نمایاں کمی آئے گی۔ شاہراہوں پرباوردی اہلکارتعینات کرنے
کامقصدشہریوں میں سزاکا ''ڈر'' پیداکرنااور اس ڈر کے زور پرقوانین کی
پاسداری یقینی بناناہوتا ہے ۔اگرواقعی شہریوں کی زندگیاں بچانا مقصود ہے
توارباب اختیار اپنی نیت درست ، شاہراہوں کو مرمت کریں اورانہیں رات کوروشن
رکھیں جبکہ وارڈنز سے وہ کام لیاجائے جس کی انہیں تنخواہ دی جاتی ہے ۔
اداروں کے قیام اورقوانین کابنیادی مقصدشہریوں کو ذہنی اذیت نہیں سہولیات
دینا ہوتا ہے،تاہم قوانین کا مذہبی ومعاشرتی اقداراورانسانوں کی نفسیات سے
مطابقت رکھنا ازبس ضروری ہے۔ایک طرف safe cityکے نام شہرلاہورمیں سی سی ٹی
وی کیمروں کی تنصیب کیلئے اربوں روپے صرف کئے گئے ہیں ، یقینا ان کامقصد
شرپسندعناصر کوشناخت کرنااوردہشت گردی روکنا ہے ،دوسری طرف گاڑیوں میں
سوارشہریوں کی شناخت یقینی بنانے کیلئے سیاہ پیپر لگانے کی اجازت نہیں
ہے۔پاکستان مسلسل کئی برسوں سے حالت جنگ میں ہے اور ہم نے ہزاروں شہیدوں کے
جنازے اٹھائے ہیں۔سماج دشمن عناصر کی سرگرمیاں مانیٹرجبکہ خدانخواستہ خطرات
سے بروقت نبردآزماہونے کیلئے شاہراہوں پر ہزاروں کیمرے نصب کئے گئے ہیں ،ماضی
میں بھی ہیلمٹ شناخت چھپانے کیلئے استعمال ہوتارہا ہے جبکہ اب توموٹرسائیکل
پرسواردونوں افراد کیلئے ہیلمٹ کی پابندی ضروری قراردے دی گئی ہے ،گویاشرپسندوں
کو اپناچہرہ چھپا نے کاقانونی جوازفراہم کردیاگیا ۔پاکستان ایک اسلامی
مگرپسماندہ اورناخواندہ ریاست ہے ،اس ملک میں یورپ کے قوانین رائج نہیں کئے
جاسکتے ۔ ارباب اقتدارواختیاریادرکھیں ''مغرب ــ''کے قوانین ''مشرق ''میں
کامیاب نہیں ہوسکتے۔یورپی ملکوں اورپاکستان کے نظام ٹریفک میں زمین وآسمان
کافرق ہے،ہیلمٹ کے حامی اس مصیبت کے نقصانات سے آگہی کیلئے شہرلاہورکی
شاہراہوں پردوچاردن بالخصوص رات کے وقت ہیلمٹ کے ساتھ موٹرسائیکل
پرڈرائیوکرکے دیکھیں انہیں سمجھ آجائے گی،میں وثوق سے کہتاہوں غیرمعیاری
ہیلمٹ استعمال کرنے کے نتیجہ میں زیادہ حادثات ہوں گے ۔موٹرسائیکل
سوارمردحضرات کے پیچھے بیٹھنے والی باپردہ خواتین کیلئے ہیلمٹ کی پابندی
اسلامی اقدار کے ساتھ ایک بھونڈامذاق ہے۔ہماری فضامیں گروغبار یعنی آلودگی
ہے اوربیشترلوگ سانس کے مسائل سے دوچار ہیں ان کیلئے ہیلمٹ الٹا مسائل
پیداکرے گا ۔ہمارے ہاں زیادہ تر شہری اپنی اپنی موٹرسائیکل پراپنے دو،تین
یا چاربچوں کوتعلیمی اداروں اورچھٹی کے بعدواپس گھروں تک چھوڑ تے ہیں،کوئی
بعید نہیں چندروزبعد ان کیلئے بھی ہیلمٹ پہنناضروری قراردے دیاجائے۔ہمارے
معاشرے میں وہ لوگ بھی ہیں جوکئی کئی عیدوں پربھی نیالباس نہیں بنواتے
اوراپنا وجودکپڑانما چیتھڑوں میں چھپائے پھرتے ہیں مگر ان کیلئے ہزاروں
روپے کاہیلمٹ ناگزیرقراردے دیاگیا ہے۔کیاصرف ہیلمٹ زندگی کی حفاظت کیلئے
ناگزیر ہے ،کبھی ارباب اقتدارواختیار نے موٹرسائیکل سوارسے پوچھا اس نے پیٹ
بھر کھانابھی کھایاہے یانہیں،بیماری کی صورت میں دواکی قیمت اداکرنے کی سکت
ہے اس میں۔جس معاشرے میں بھوک ،افلاس،ظلم وزیادتی اورناانصافی کے سبب اپنے
ہاتھوں سے اپنی بیش قیمت زندگی ختم کرنے کارجحان بڑھ رہاہووہاں ہیلمٹ کسی
کی جان کیاخاک بچائے گا۔جوزندگی کوایک بوجھ سمجھتا ہو اس کو ہیلمٹ میں کیا
دلچسپی ہوسکتی ہے ۔
ہمارے ہاں زیادہ تر حادثات شہریوں کی مجرمانہ غفلت اورقوانین سے عدم واقفیت
یاان کی عدم پاسداری کے نتیجہ میں رونماہوتے ہیں لہٰذاء موٹرسائیکل سواروں
کی زندگیاں بچانے کیلئے ہیلمٹ سے زیادہ قوانین کی پابندی ناگزیر ہے۔وارڈنز
قوانین کی پاسداری یقینی بنانے سے زیادہ شہریوں کے چالان کرنے پرزوردے رہے
ہیں۔ ایک طرف شہری ہزاروں روپے صرف کرکے غیرمعیاری ہیلمٹ پہن رہے ہیں
اوردوسری طرف جولوگ بوجوہ ہیلمٹ نہیں پہن رہے وہ بھی ہزاروں روپے کے چالان
برداشت کررہے ہیں یعنی دونوں صورتوں میں پیسہ شہریوں کی جیبوں سے نکل
کرمخصوص تجوریوں میں جارہا ہے۔ہیلمٹ کی فروخت کامقصد شہریوں کی زندگی
بچانانہیں بلکہ چین سے ناقص ہیلمٹ کی امپورٹ سے وابستہ مخصوص افرادکومالی
فائدہ پہنچانا ہے ۔دنیا کے مہذب ومتمدن ملک اپنے ہاں ہونیوالے حادثات
اورسانحات کی منظم اندازسے تحقیقات اورمستقبل میں ان سے بچاؤ کی موثر
منصوبہ بندی کرتے ہیں،تاہم دنیا کی کوئی ریاست سوفیصد حادثات نہیں روک سکتی
۔محض شاہراہوں پر حادثات رونمانہیں ہوتے بلکہ شہریوں کے ساتھ چادرچاردیواری
کے اندربھی دلخراش حادثہ پیش آجاتا ہے۔ حادثات اورسانحات دریاؤں، سمندروں
اور فضاؤں میں بھی ابن آدم کاتعاقب کرتے ہیں،تاہم زمینی یعنی شاہراہوں
پرہونیوالے حادثات میں اموات کے اعدادوشمار آسمانی حادثات کے مقابلے میں
بہت زیادہ ہیں۔اگرحادثات اوران کے نتیجہ میں ہونیوالی اموات کے
اعدادوشمارکابغورجائزہ لیا جائے تواس میں موٹرسائیکل سوار فوت شدگان کی
گنتی برائے نام ہے اوران میں بھی زیادہ سے زیادہ دو فیصد شہری اپنے سرمیں
شدید چوٹ لگنے سے جاں بحق ہوتے ہیں ،زیادہ تر بڑی گاڑیوں کی ٹکر لگنے یاان
کے نیچے کچلے جانے سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ،فورویلر گاڑیوں کے
درمیان حادثات زیادہ اموات کاسبب بن رہے ہیں۔ہیلمٹ ایک حفاظتی تدبیر ہے مگر
ناگزیر نہیں،جس قسم کے ہیلمٹ ان دنوں شہریوں کے زیراستعمال ہیں وہ ان کی
جان نہیں بچاسکتے بلکہ وہ الٹا خطرہ بن رہے ہیں ،موٹرسائیکل سوار کے ساتھ
حادثہ پیش آنے کے خطرے یاامکان سے انکار نہیں کیاجاسکتا لیکن یہ
سوفیصدیقینی نہیں ہوتا۔دوسری طرف جہاں سوفیصد موت یقینی ہے وہاں اس کام
کیلئے مخصوص ریاستی ادارے پوری طرح خاموش ہیں۔منشیات کے عادی پل پل یقینی
موت کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ان کی زندگیاں بچانے کیلئے ریاست کے پاس کوئی
نظام یا پروگرام نہیں ہے،یہ بیش قیمت''جہاز''کرپش نہ ہوں اس کیلئے سرکاری
سطح پر بحالی مراکزکاقیام ناگزیر ہے ۔کیامنشیات استعمال کرنیوالے انسان
نہیں ،کیاان کیلئے ریاست ماں کی مانند نہیں ہے ،کیاانہیں بچانے کیلئے ریاست
کے پاس کوئی رستہ نہیں۔پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران جعلی ادویات کی تیاری
اورفروخت نے منفعت بخش تجارت کاروپ دھارلیا ہے ، ہمارے کچھ پیارے اپنی
زندگی بچانے کیلئے جعلی ادویات استعمال کر کے بے موت مارے جاتے ہیں ،قوم
کوبتایاجائے ان اموات کوروکنے کیلئے ریاست اورعدالت نے کیا اقدام کیا
ہے۔عطائی اورنیم حکیم بھی سرعام انسانی زندگی سے کھلواڑکررہے ہیں۔شیرخوار
بچوں اورخواتین سمیت ہرعمرکے شہری جانے انجانے میں مصنوعی یعنی جعلی دودھ
استعمال کررہے ہیں جوزہرقاتل ہے ،کیا ریاست جعلی دودھ کی تیاری ،فروخت
اوراس کے نقصانات سے انکار کرسکتی ہے۔کیامرداراورحرام جانوروں کا گوشت
شہریوں کیلئے موت کاسبب نہیں بنتا۔ غلاظت سے آلودہ پانی زہرکی طرح شہریوں
کی رگ رگ میں سرائیت کررہا ہے اور ہمارے پیارے آدم خوریرقان کی خوراک بن
رہے ہیں ۔ شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ ہمدردی صرف ہیلمٹ کی پابندی تک
محدودکیوں ہے۔موٹرسائیکل پرتوہرکوئی سوارہوکرشاہراہوں کارخ نہیں کرتامگر
جعلی دودھ،جعلی ادویات اورملاوٹ زدہ اجناس سے توہرکسی کاواسطہ پڑتاہے۔جس
تخت لاہورمیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اندر جعلی ادویات نے 480
قیمتی جانیں لی ہوں اورآج تک اس قومی سانحہ میں ملوث کسی کردارکوسزانہ ملی
ہو ،جس پنجاب میں متعدد معصوم بچے وینٹی لیٹراور مناسب طبی سہولیات دستیاب
نہ ہونے کے سبب لقمہ اجل بنے ہوں ،جس شہرلاہور کے واحدچلڈرن ہسپتال میں
نامناسب طبی سہولیات کے نتیجہ میں روزانہ کی بنیادپر130سے 150بچوں کاانتقال
ہو جائے ،جس شہر میں جناح ہسپتال کے سواکسی سرکاری ہسپتال میں برن یونٹ نہ
ہو وہاں انسا نی جان کی پرواہ کادعویٰ جھوٹ ہے۔ ہیلمٹ کی پابندی پر''زور''
شہریوں کی جان بچانے کیلئے نہیں بلکہ ان سے'' زر''ہتھیانے کیلئے ہے۔ شہریوں
کیلئے آسانی کاراستہ قانون کی حکمرانی سے ہوکرجاتا ہے،قانون کی حاکمیت ہوگی
تویقینا لاہورسمیت مختلف شہریوں میں شہریوں کاقتل عام ہوگا اورنہ شاہراہوں
پربے ہنگم ٹریفک کے سبب حادثات ہوں گے۔
شاہراہوں پرہونیوالے دلخراش حادثات کا تدارک یقیناریاستی اداروں کافرض ہے،
شہریوں کی بیش قیمت زندگیاں بچانے کی نیت سے لاہورہائیکورٹ نے شہرلاہورسمیت
پنجاب بھر میں ہیلمٹ کی پابندی یقینی بنانے کاحکم صادرکیاجوفوری نافذالعمل
ہو گیاجبکہ پچھلے کئی برسوں سے توہین عدالت کی کارروائی کاڈرہوتے ہوئے بھی
ہزاروں احکامات ہنوز تعمیل کے منتظر ہیں۔ انسانی جانوں کی قدروقیمت سے
انکار نہیں لیکن ہیلمٹ کی پابندی پر''زور''کے پیچھے'' زر'' ہے۔''عدالت کا
صرف ہیلمٹ پرزورکیوں ہے'' ،یہ وہ سوال ہے جو شہری ایک دوسرے سے پوچھ رہے
ہیں ۔عدلیہ کی شہریوں سے ہمدردی خوش آئند ہے، تاہم جہاں منچلے دھڑلے سے
قاتل پتنگیں اڑا تے ہوں ، دس بیس روپے کیلئے زندہ انسانوں کو قتل کیاجاتاہو
،معصوم بچے اغواء ہوتے ہوں،اماں حوا کی بیٹیوں کاتقدس پامال ہوتا ہو،جہاں
بیمار انسانوں کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں بیڈ دستیاب نہ ہوں اورہرطرف موت
کاکاروبار ہووہاں شہریوں کی زندگیاں بچانے کیلئے انتظامیہ کوصرف ہیلمٹ کی
پابندی یقینی بنا نے کا ٹاسک ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔شہریوں کوزبردستی ہیلمٹ
پہننے پرمجبورکردیاگیا ہے جبکہ شاہراہوں پر آدم خور گڑھے''Potholes'' جوں
کے توں برقرار ہیں۔نیلے پیلے ہیلمٹ کاسٹاک فروخت کرنے کی آڑ میں انہیں''
بلیک'' کیا گیاجوشہری یہ ہیلمٹ پہنتا ہے وہ رات کے اندھیرے میں مخالف سمت
سے آنیوالی گاڑیوں کی تیز روشنی کے سبب عارضی طورپردیکھنے کی صلاحیت سے
محروم ہوجاتا ہے اوراس کے نتیجہ میں حادثات رونماہورہے ہیں۔ہیلمٹ سٹنٹ سے
پریشان حال عوام اپنے انسان دوست اور انصاف پسندمنصف اعلیٰ میاں ثاقب نثار
کومداخلت کی دہائی دے رہے ہیں۔
|