مشرقی پاکستان کے زخم اور ففتھ جنریشن وار

 پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غور نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا میڈیا ہی ففتھ جنریشن وار کی دفاعی لائن ہے ۔دشمن کی ہر چال کوناکام بنانے کے لیے میڈیا کو مثبت رپورٹنگ کرنا ہوگی ۔ دشمن ہمارے اندرونی مسائل اوراختلافات کو ہوا دے کر ہماری قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ ریاست کی محافظ ہے ۔ حکومت بنانا اور ہٹانا عوام کا کام ہے فوج کو سیاست میں ملوث کرنے والے ملک کے دوست نہیں ۔ فوج کے ترجمان نے جس دردمندانہ انداز سے بات کی ہے اس کا اثر ہر محب پاکستانی کے رویے پر ضرور ہونا چاہیئے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے جو پاکستان دیا تھا وہ ہماری اپنی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نذر ہوکر دو لخت ہوچکا ہے ۔ یہ منحوس لمحہ آج سے 47 سال پہلے آیا تھا جب ہمارے حکمران اقتدار کی جنگ میں اس قدر مصروف تھے کہ انہوں نے قومی سا لمیت اور یکجہتی کوپہنچنے والے نقصان کو بھی مدنظر نہ رکھا ۔میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن ان حالات کی ایک جھلک یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ موجودہ نسل بھی اپنے سیاسی قائدین کی حریصانہ سیاست کا ایک رخ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ جنرل ٹکا خاں جو جنرل اے کے نیاز ی سے پہلے مشرقی کمانڈ کے کمانڈانچیف تھے انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ فوجی آپریشن کے وقت مشرقی پاکستان کے 54 ہزار مربع میل علاقے میں سے بمشکل 20 ہزار مربع میل پر پاکستانی فوج قابض تھی ۔ ایسٹ پاکستان رائفل ٗ پولیس اور انصار جس میں زیادہ تر بنگالی شامل تھے ‘ انہوں نے پاک فوج کے خلاف دفاعی مورچے قائم کرلیے تھے ‘ بنگال رجمنٹ کے بیشر عناصر بھی ساتھ مل چکے تھے‘ مغربی پاکستان کی فوج کی تعداد بمشکل 12 ہزار تھی بلکہ لڑنے والی نفری اس سے بھی کم تھی۔ ہمارے مقابلے میں پونے دو لاکھ مسلح بنگالی تھے جن کے پاس جدید ترین بھارتی اسلحہ تھا ۔ علاوہ ازیں بھارتی فوج مختلف مقامات سے بہت دور تک اندر چلی آئی تھیں ہمارا مقابلہ بعض مقامات پر ایک ایک انچ پر ہوا ۔ چٹاگانگ میں زبردست معرکے ہوئے ‘نواکھلی میں کتنے ہی آپریشن کرنے پڑے۔ سلہٹ کے ضلع میں ہمارا ٹکراؤ براہ راست بھارتی فوج سے ہوا ۔ بہت مشکل سے سہلٹ شہر کا قبضہ واپس لیا گیا ۔جیسور اور اس کے سرحد ی علاقوں میں خونریز جنگیں ہوئی اور راجشاہی میں دشمن نے اپنے پنجے اس طرح گاڑلیے تھے کہ ہمارا وہاں تک پہنچنا بظاہر ناممکن ہوچکا تھا دریا کے کنارے کنارے دشمن نے زبردست جنگی تیاریاں کررکھی تھیں ۔ رنگ پور اور دیناج پور میں تو ہمیں بھارتی تخریب کاروں کا قدم قدم پر مقابلہ کرنا پڑا ۔ تخریب کار عوام کے اندر اس طرح چھپ گئے تھے کہ ان کا سراغ لگانا مشکل ہوچکا تھا ۔ عوامی لیگ کے رضا کار مکتی باہنی سے مل کر اردو بولنے والے "بہاریوں" کی بستیوں کو آگ لگا رہے تھے ۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں اور بہاریوں کے سوا پاکستانی فوج کو اورکہیں سے سپورٹ میسر نہ تھی ۔پاکستانی فوجیوں کے لیے کھانے پینے اور دیگر اشیائے خورد نوش کی رسد مکمل طور پر بند ہوچکی تھی ۔ پاکستانی پرچم جگہ جگہ جلائے جارہے تھے ۔ان حالات میں جبکہ پاک فوج کے لیے مشرقی پاکستان میں نقل و حرکت بھی ناممکن ہوچکی تھی فوجی آپریشن کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا ۔ اس آپریشن میں فوج کے افسروں اور جوانوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن فوجی آپریشن کے بعدکسی حد تک نظم و نسق میں بہتری آگئی تھی اگر بھارت پاکستان پر براہ راست حملہ نہ کرتا تو مشرقی پاکستان کو کسی بھی صورت علیحدہ نہیں کیاجاسکتا تھا ۔عسکری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنگ عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی لیکن پاکستان کے ناعاقبت اندیش سیاست دانوں اور نااہل جرنیلوں نے کچھ ایسے ناخوشگوار اقدامات سرزمین مشرقی پاکستان میں اٹھائے کہ مقامی طور پر وہ اپنے ہی ملک میں عوام کی ہمدردیاں کھو بیٹھے۔ ان کے ذہن میں شاید یہ بات تھی کہ وہ انسانی جذبوں اور محبتوں کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر تبدیل کرسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 16 دسمبر 1971ء کوہتھیار ڈالنے کا باعث بنی ۔ جس کے بعد مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش نے لے لی اور مغربی پاکستان ہی پاکستان کہلایا۔یہ ان خون آشام واقعات کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کا آدھا حصہ گنوانے کے بعد آج بھی ہمارے سیاست قائدین ماضی کی طرح ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں ‘ قومی یکجہتی کی بنیادوں کو ایک بار پھر کھوکھلا کیاجارہاہے ۔جن کو اقتدار مل جاتا ہے وہ اقتدار بچانے کے لیے اور جن کو اقتدار نہیں ملتا ‘ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے اقتدار حاصل کرنے کی جستجو میں کچھ اس طرح مصروف ہوجاتے ہیں کہ قومی سالمیت ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہر سیاست دان ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگل رہا ہے ۔فوج کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا کر وطن دشمنی کے جذبوں کو ہوا دی جا رہی ہے ۔میجر جنرل آصف غور نے اپنی پریس کانفرنس میں اسی بات کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ فوج کسی ایک جماعت کی حامی نہیں بلکہ ریاست کے دفاع کی ذمہ دار ہے اور اس نے دنیاکی مشکل ترین جنگ (چھپے ہوئے دشمن کے خلاف )میں کچھ اسطرح کامیابی حاصل کی ہے کہ امریکہ سمیت بڑی طاقتیں حیران و ششدر ہیں ۔ کیونکہ ایسی ہی جنگ میں جدید ترین اسلحے سے آراستہ امریکہ سمیت نیٹو افواج کو واضح شکست کا سامناکرنا پڑا ۔ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی باتیں انتہائی تکلیف دہ ہیں جو قومی یکجہتی کو شدید نقصان پہنچارہی ہیں۔ احتجاج سب کا حق ہے لیکن احتجاج کو قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہرگز نہیں ٹکرانا چاہیئے ۔جہاں تک پاک فوج کے ترجمان کی تشویش کا تعلق ہے انہیں بھی ایسے تاثر سے گریز کرنا چاہیئے جس سے فوج کاوزن کسی ایک جماعت کے پلڑے میں نظر آئے۔ اس کے باوجود کہ پوری قوم پاک فوج سے محبت کرتی ہے اور ملک و قوم کے دفاع کے حوالے سے فوج کی قربانیوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن کچھ لوگ فوج کا وزن کسی ایک جماعت کے پلڑے میں دیکھ کر اپنی سیاسی جماعت سے وفاداری نبھاتے ہوئے تنقید کرنے لگتے ہیں ۔اعتماد کے رشتے جب خراب ہوتے ہیں تو دونوں جانب سے ہی تعلقات میں دراڑ آنے لگتی ہے۔اسی دراڑ کا دشمن طاقتیں فائدہ اٹھاتی ہیں ۔

اس منحوس لمحے کے بعد قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان دو الگ الگ خود مختار حصوں میں تقسیم ہوگیا ایک کانام بنگلہ دیش جبکہ مغربی پاکستان کا نام "پاکستان"ہو گیا ۔90 ہزار فوجی اور سویلین قیدیوں کو بھارت اور بنگلہ دیش کی قید میں جن شرمناک حالات اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اس کا ذکر خون کے آنسو رلا دیتا ہے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھنے کی بجائے پاکستانی حکمرانوں نے اپنے طور طریقے تبدیل نہیں کیے بلکہ مسلسل غلط اورناروا پالیسیوں کے ذریعے باقی ماندہ پاکستان کے رہنے والوں پر بھی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنانے کا عمل جاری رکھا۔وہ فوجی ٹولہ جو شراب کے نشے میں دھت ایوان اقتدار سے رخصت ہوا تو اس کی جگہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے بطور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا جو اگر چاہتے تو پاکستان کودنیا کا عظیم ترین ملک بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے باقی ماندہ پاکستان میں جمہوری قدروں کو فروغ دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے تو کچھ نہ کیا لیکن وہ سب کچھ کرنے میں تمام اخلاقی اور قانونی حدیں پھلانگ گئے جو ان کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ضروری تھیں۔شاید متحدہ پاکستان کے مشرقی حصے میں اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار نہ دینے کی وجوہات بھی یہی تھیں ۔بھٹو صاحب صرف پنجاب اور سندھ میں جزوی اکثریت رکھنے کی بنا پر خودکو سارے پاکستان کا واحد مالک اور حکمران تصور کربیٹھے تھے ۔اس لمحے وہ بھول گئے تھے کہ جمہوریت میں اکثریت حاصل کرنے والوں کی رائے کا احترام بھی کیا جاتا ہے لیکن بھٹو صاحب کو یہ سب کچھ منظور نہ تھا بلکہ وہ تو ہر صورت خود کو پاکستان کابلاشرکت غیرے حکمران تصور کر بیٹھے تھے اور اس کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو پاؤں کی ٹھوکر سے ہٹانے میں مصروف تھے ۔ جبکہ اس وقت کے صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحیی خاں کی شکل میں ایک بدکردار اور شرابی شخص کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں نفرت مسلسل بڑھ رہی ہے اور وہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے مقتل گاہ کا روپ دھار چکی تھی وہ تو ایوان صدر میں شراب کے نشے میں مدہوش تھے ۔ جنرل محمد موسی خاں ہفت روزہ " تکبیر " میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ جب چند جرنیل اکٹھے ہوکر جنرل محمد یحیی خاں کے پاس گئے اور مشرقی پاکستان کی حد سے بگڑتی ہوئی صورت حال کے بارے میں راست اقدام کرنے کے لیے کہا ۔ اس وقت یحیی خاں نے ان تمام جرنیلوں کو یہ کہتے ہوئے خاموش کروا دیا کہ مشرقی پاکستان کو چھوڑو ابھی اس پروگرام کے بعد نورجہاں کا گانا نشر ہونے والا ہے۔

گویا عورتوں کے رسیا حکمرانوں کو نہ تو پاکستان کے دو لخت ہونے کا کوئی غم تھااور نہ انہیں مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی جان و مال کی فکر تھی کہ شکست کے بعد وہاں ان کے ساتھ کیا مذموم کھیل کھیلا جانے والا ہے ۔ جسٹس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں جن فوجی جرنیلوں کو سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ان کو صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیاگیا ہے کہ ان میں سے کچھ تو انتقال کرچکے ہیں اور باقی فوج سے ریٹائر ہوچکے ہیں ۔میں سمجھتاہوں کہ مجرم صرف مجرم ہوتے ہیں وہ زندہ ہوں یا فوت ہوجائیں ان کو ہر حال میں سزا ملنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعد میں آنے والے ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور وطن عزیز کو حکمرانوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان سے محفوظ بنایا جاسکے۔ملک توڑنا کم جرم نہیں ہے میری نظر میں اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کے مجرموں کو سزا نہ ملنے کی بنا پر بعد میں برسراقتدار آنے والے پاکستانی حکمرانوں کے نہ تو طور طریقے بدلے اور نہ ہی عوام کے خلاف ان کی سازشوں کا زور ٹوٹا ۔ پاکستان میں رہنے والے لوگ بدترین حالات کاسامنا کرتے ہوئے مسائل و آلام کی ایسی دلدل میں اترتے جارہے ہیں جہاں نجات کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آرہی ۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم تو بحیثیت پاکستانی اپنے زخموں کو بھول چکے ہیں اور مجرموں کو وقت کی دھول میں فراموش کرچکے ہیں لیکن قدرت کلمے کے نام پر 27 رمضان کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے پاکستان کو توڑنے والوں سے انتقام لینا نہیں بھولی ۔سیاسی مبصرین کی اکثریت بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی ٗ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کو سقوط ڈھاکہ کے اہم کردار گردانتی ہے لیکن یہ تینوں کردار قدرت کے انتقام سے نہیں بچ سکے ۔اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں 31 اکتوبر 1984ء کو قتل ہوئی ٗ ذوالفقار علی بھٹو ٗ قتل کے ایک مقدمے میں 4 اپریل 1979ء کو پھانسی کے تختے پر جھول گئے جبکہ شیخ مجیب الرحمان اپنے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ایک انقلاب میں اس طرح مارے گئے کہ ان کی لاشیں کئی روز تک بے گورو کفن پڑی رہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیخ مجیب الرحمان نے ڈھاکہ کی گراؤنڈ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے اﷲ کو گواہ بنا کر کہا تھا کہ اگر ان کی نیت میں فتور ہو اور وہ پاکستان کی تقسیم چاہتے ہوں تو مرنے کے بعد ان کی لاش اٹھانے والا کوئی نہ ہو ۔اﷲ معاف کرے بالکل ایسے ہی ہوا۔گویا پاکستان کو تقسیم کرنے کا انتقام قدرت نے ان سے لے لیا لیکن پاکستان کے بدکار فوجی حکمران شاید اب بھی اپنی اپنی قبروں میں آرام سے لیٹے ہوئے ہیں ۔ ان کے جرم کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی نعشوں کو قبروں سے نکال کر عوام کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جانا چاہیئے تھا۔

بہرکیف جس طرح شہیدوں کے زخموں سے خون تاقیامت رستا رہے گااسی طرح مشرقی پاکستان کے زخم بھی کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔ یہ ایسے زخم ہیں جو ہمیشہ رستے رہیں گے ۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان توڑا نہیں گیا بلکہ اسے شہید کردیاگیا ہے اور باقی ماندہ جسم بھی بعد میں آنے والے مکرو فریب کے منبع حکمرانوں کی عوام اور ملک دشمن پالیسیوں کی بدولت تباہی کی طرف گامزن ہے اﷲ نہ کرے پاکستان کو مزید کوئی صدمہ پہنچے ۔

ان دنوں (مارچ 2013ء) شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں انہوں نے اپنے اس دور حکومت میں جہاں پاکستان کے وفا داروں اور پاک فوج کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے خلاف عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے وہاں بطور خاص جماعت اسلامی کے سابق اور موجودہ قائدین کو ایک نام نہاد جنگی ٹربیونل کی جانب سے سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔یہ ٹربیونل ایسا ہے جس کے جج اور دیگر کی ہمدردیاں واضح طور پر بھارت اور عوامی لیگ کے ساتھ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سارے بنگلہ دیش میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور 1971ء کے بعد ایک بار پھر بنگلہ دیش دو حصوں میں تقسیم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ایک جانب و ہ لوگ ہیں جو جماعت اسلامی کے حمایتی ہیں وہ اپنے قائدین کے خلاف ٹربیونل کی اعلان کردہ سزاؤں کے خلاف پر تشدد احتجاج کررہے ہیں درجنوں ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں لوگ اب تک زخمی بھی ہوچکے ہیں لیکن یہ سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جارہا ہے ۔دوسری جانب عوامی لیگ کے حمایتی وہ بنگالی ہیں جو جماعت اسلامی پر نہ صرف پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ ٹربیونل کی سزاؤں پر جلد عمل درآمد بھی ہے ۔

ان حالات میں جہاں حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہ ہونا بھی ایک لمحہ فکریہ پیداکرتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف جماعت اسلامی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان سے وفاداری اور محبت کا ہے ۔ اگر حکومت پاکستان چاہے تو سعودی عرب ایران اور ترکی کو درمیان میں لاکر بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت یافتہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے لیکن نہ جانے کیوں پاکستانی حکمران بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے پاکستان کے حمایت یافتہ رہنماؤں اور طبقوں کے خلاف کارروائی پر اب تک خاموش ہیں ۔حالانکہ 1973ء میں بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرتے وقت پاکستان کی عبوری حکومت اور بنگلہ دیشی حکومت کے مابین طے پایا تھا کہ آئندہ دونوں اسلامی ملک اچھے ہمسایوں کی طرح باہمی محبت اور اخوت کے رشتے قائم رکھیں گے لیکن 40 سال بعد بنگلہ دیش کی بھارت نواز عوامی لیگ کی حکومت نے حسینہ واجد کی سربراہی میں ایک ایسے مذموم کھیل کا آغاز شروع کردیا ہے جس کا بظاہر توکوئی فائدہ نہیں لیکن ایک بار پھر پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تعلقات کو اس نہج پر لانے کی کوشش ضرور کہا جاسکتا ہے جس سے دشمنی کی خلیج وسیع سے وسیع ہوجائے گی ۔

وزیر اعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد نے ٹربیونل کے ساتھ ساتھ ایک اور ڈھونگ بھی رچاکر محب وطن پاکستانی حلقوں میں طوفان پیدا کرنے کی جستجو کی ہے ۔ انہوں نے پاکستان کی پانچ شخصیات کو "فرینڈ زآف بنگلہ دیش" قرار دے کر انہیں "فارن فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ" دینے کا جو اعلان کیا ہے اس کی وجہ بظاہر یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے اس وقت مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی ۔ ان شخصیات میں پروفیسر وارث میر ٗ ملک غلام جیلانی ٗ میر غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔24 مارچ 2013ء کو ڈھاکہ میں منعقدہ تقریب میں پروفیسر وارث میر مرحوم کاایوارڈ ان کے صاحبزادہ حامد میر ٗ ملک غلام جیلانی کا ایوارڈ عاصمہ جہانگیر اور میر غوث بخش بزنجو کا ایوارڈ ان کے بیٹے میر حاصل بخش بزنجو اور فیض احمد فیض کا ایوارڈ ان کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے وصول کیا ۔

ایوارڈ کے بعد ان سے جو سوالات کیے گئے ان میں سب سے نمایاں سوال یہ تھا کہ کیا جماعت اسلامی پر پابندی لگادینی چاہیئے اور اس کے رہنماؤں کے خلاف ٹربیونل کی سزاؤں پر عمل در آمد ہونا چاہیئے۔ حامد میرنے جواب دیا کہ پابندی تو نہیں لگانی چاہیئے لیکن اس مقصد کے لیے جو ٹربیونل قائم کیا گیا اس کی غیر جانبداری کسی شک و شبے سے بالاتر ہونی چاہیئے ۔اگر میں حامد میر کی جگہ ہوتا تو یقینا سوال کرنے والوں سے پوچھتا کہ اس وقت جبکہ ایک جانب بھارتی فوج سرحدوں پر یلغار کرچکی تھی دوسری جانب جدید ترین اسلحے سے لیس بھارت کی تربیت یافتہ تخریب کار تنظیم "مکتی باہنی"نے نہ صرف پاک فوج کے خلاف جنگی کارروائیوں کا آغاز کررکھا تھا بلکہ محب وطن بنگالیوں کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کررکھا تھا اور الزام پاک فوج پر لگاکر اسے بدنام کیا جارہا تھااس لمحے اگر محب وطن شہریوں نے پاک فوج کی کچھ مدد کی تھی تو یہ ان کی عظمت اور حب الوطنی کی دلیل تھی ۔فرض کریں اگر اب بھارت ٗ بنگلہ دیش پر حملہ آور ہوجاتا ہے تو کیا بنگلہ دیش کے لوگوں کو اپنی فوج کا ساتھ دینے کی بجائے بھارتی فوج کا ساتھ دینا چاہیئے ۔ حسینہ واجد نہ جانے کیوں ایسی خلیج پیدا کرنے کی جستجو کررہی ہیں جسے ختم کرنا پاکستان اوربنگلہ دیش دونوں کے لیے ناممکن ہوجائے ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے حامد میر کی یہ بات سن کر خوشی نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود کہ میں ان کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں اور ان کی رائے کو مقدم جانتا ہوں لیکن وہ فرینڈز آف بنگلہ دیش کا ایوارڈ لے کر شایدبھول گئے کہ ان کا تعلق ایک ایسے ملک "پاکستان " سے ہے جس کا کبھی بنگلہ دیش لازمی جزو ہوا کرتا تھا اور کس طرح شیخ مجیب الرحمان اور بھارت کی ملی بھگت سے دوٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا انہوں نے واضح الفاظ میں جماعت اسلامی اور اس کے قائدین کی حمایت کرنے کی بجائے دبے لفظوں میں صرف اتنا کہا کہ مقدمات چلنے چاہئیں لیکن فیئرٹرائل ہونا چاہیئے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے یہ بات کہہ کر حسینہ واجد کے نمک کا حق اداکردیا ہے جبکہ 18 کروڑوں پاکستانیوں کے دل میں خنجر اتار دیا ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ ڈھاکہ قومی اسمبلی کی عمارت سے کچھ فاصلے پر لاکھوں کی تعداد میں ان پاکستانیوں کو جاکر مل لیتے جنہیں بنگلہ دیش میں بہاری کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ 43 سال گزرنے کے باوجود بدترین حالات کے باوجود آج بھی وہ خودکوپاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔پاکستان کے ممتاز صحافی اور انسانی حقوق کی نام نہاد چیرمین کی تمام تر ہمدردیاں پاکستان توڑنے والوں کے ساتھ تو ہوگئیں لیکن پاکستان کے لیے اپنا سب قربان کرنے والوں کے لیے ان کے پاس چند منٹ بھی نہ نکل سکے ۔اگر ایوارڈ وصول کرنے والے پاکستانی کچھ وقت کے لیے بہاری کیمپوں میں بھی چلے جاتے اور وہاں جاکر خود دیکھتے کہ پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والوں کے ساتھ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے کیا برتاؤ ہورہا ہے اور ان کی کتنی نسلیں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر صرف اس لیے مجبور ہیں کہ وہ خود کو اول و آخر پاکستانی کہتے ہیں تو کتنا اچھا ہوتا ۔

عاصمہ جہانگیر کی بات تومیں نہیں کہتا کیونکہ اس کے انسانی حقوق تو صرف پاکستان میں ہی پامال ہوتے ہیں کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم ٗ فلسطین میں یہودی فوج کے ہاتھوں زخم خوردہ مسلمان مائیں بہنیں انہیں نظر نہیں آتی کیونکہ شاید آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری اور فلسطینی ان کی نظر میں دہشت گرد ہوں ۔ وہ چند سال پہلے بھارت گئی تھیں مسلمانو ں کے بدترین دشمن( جس نے مسلمانوں کو زندہ جلایا تھا) اس کی مہمان نوازی کے گن گاکر واپس آگئی تھیں انہیں انسانی حقوق کی پامالی دیکھنے کے لیے وادی کشمیر جانے کی توفیق بھی نہیں ہوئی تھی ۔شاید ان کی انہی خوبیوں کی بنا پر پاکستان کے مخالفین انہیں اپنے ایوارڈوں کا حقدار ٹھہراتے ہیں ۔

"محمد ذکی ایڈووکیٹ حیدر آباد سے لکھتے ہیں کہ جمعرات 28 مارچ کی اشاعت میں حامد میر کا کالم "پچھتاوے" دراصل شرمناک "اقبال جرم" ہے ۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد خود بقول حامد میر "نفسیاتی بحران"میں مبتلا ہیں اس نفسیاتی کیفیت کی بنا پر حسینہ واجد ان لوگوں کو پھانسی پر لٹکا رہی ہیں جو پاکستان کا ساتھ دینے کے مجرم تھے اور ان افراد کو اعزازات سے نوازرہی ہیں کہ پاکستانی ہونے کی تہمت کے باوجود جو سابقہ مغربی پاکستان میں پاکستان توڑنے پر شیخ مجیب الرحمان کی مدح سرائی کررہے تھے ..... اور "غدار" کون ہوتے ہیں ؟

وہ لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات 1970ء کے عام انتخابات سے بہت پہلے پیش کردیئے تھے ۔ یہ پاکستان توڑنے کا پروگرام نہیں تھا تو پھر کیا تھا۔ مجیب الرحمن اگر تلہ سازش کیس میں جیل میں تھے مگر یہ اصغر خان جیسے بے مغزسیاست دان اور نوابزادہ نصر اﷲ خان جیسے عاقبت اندیش سیاست دانوں کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے مجیب کو رہائی دلائی تاکہ وہ ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شرکت کرسکیں ۔ نوابزادہ نصراﷲ خان کون تھے اس عوامی لیگ کے صدر جس کے مشرقی حصے کے صدر نے چھ نکات پیش کیے تھے عاصمہ جہانگیر کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ حسینہ واجد نے اعزاز سے نوازتے ہوئے انہیں گلے سے لگا لیا ۔ حامد میر لکھتے ہیں کہ حاضر ین خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے ......کیوں ؟ عاصمہ جہانگیر کے والد غلام جیلانی اس عوامی لیگ میں شامل تھے جس نے پاکستان توڑا تھا۔ عاصمہ جہانگیر انہی خوبیوں کی بنا پر پاکستان میں متنازعہ سیاسی شخصیت ہیں۔ حامد میر ان سوالات کا جواب دینے سے کیوں گریزاں ہیں ۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ دسمبر 1971ء سے قبل بنگلہ دیش میں جو تحریک چلائی گئی کیا وہ پاکستان دوست تحریک تھی ۔ اس کا مقصد کیا تھا اس کے نعرے کیا تھے کیا اس تحریک کو بھارت اور اندراگاندھی کی کھلی حمایت حاصل نہیں تھی ۔ کیا بھارتی فوج نے جارحیت کاارتکاب نہیں کیا تھا ۔اگر اس سارے معاملے کے حامیان پاکستان دشمن ہیں اور انہیں پھانسی پر لٹکایا جارہا ہے تو "فرینڈز آف بنگلہ دیش "وصول کرنے والے کون ہیں۔ فیض احمد فیض کی صاحبزادی کو اعزاز سے نوازا گیا کیونکہ فیض صاحب "لینن پرائز" یافتہ اور روس نواز تھے ۔ نیشنل عوامی پارٹی نامی جماعت کے رہنماؤں کو اعزاز سے نوازاگیا جو روس نواز اور بھارت نواز رہے تھے ۔ کالم نویس پروفیسر وارث میر کو بھی یہ اعزاز ملا تو دکھ اور افسوس کی بات ہے فخر کی بات نہیں ہے ۔ ہم حامد میر کے مرحوم والد محترم کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرنا چاہتے ۔

حامد میر تاریخ پر نظر دوڑائیں اور عبرت حاصل کریں ۔مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کا کیا حشر ہوا ان کا کس نے مارا اور موت کے گھاٹ اتارا .....کیا پاکستانیوں نے ؟ اندراگاندھی مکافات عمل کا شکار ہوئیں خود ان کے گارڈ نے ان کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ سنجے گاندھی کا کیا حشر ہوا ۔ راجیوگاندھی کو کس نے موت کے حوالے کیا ۔ ہم بھٹو کے حوالے سے لکھنانہیں چاہتے کیا ان کے خاندان کو فطری موت نصیب ہوئی ۔

پاکستان توڑنے والوں کو قدرت نے کن اعزازات سے نوازا ٗ اس تاریخ کو حامد میر جیسے لوگ کیوں فراموش کردیتے ہیں ۔ ملکوں اور حکمرانوں کے حوالے سے واقعات المناک اور دردناک بھی ہوتے ہیں ان تاریخی واقعات کو مکمل پس منظر میں دیکھنا چاہیئے ۔

مجیب الرحمان پاکستان توڑنے کے ذمہ دار تھے اگر گاندھی اور بھارت کی کھلی حمایت انہیں میسر نہ ہوتی تو کیا وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوسکتے تھے ہرگز نہیں ۔ ہمارا نظریہ خواہ کوئی ہو ملک سے وفاداری بہرحال ہر شخص پر لازم ہے ۔"

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 668401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.