کسی شہر کی شان و شوکت اس کی کشادہ سڑکیں ،اس کے پلازے ،اس
کے شاپنگ مال،ہیوی جثہ پل،اس کے انڈر پاس،اس کے سٹیڈیم ، سڑکوں کی دو نوں
جانب ایستادہ اشجار،اس کے وسیع عریض کھیلو ں کے میدان،رنگ برنگی پھولوں کی
کیاریاں اور ہرے بھرے گھا س کے میدان ہو تے ہیں۔سڑکوں کی صفائی اور کچروں
سے پاک ماحول شہر کو آلودگی سے بچانے میں ممدو معاون ہو نے کے ساتھ اس کی
خوبصورتی میں اضافہ کا موجب بھی بنتے ہیں ۔نکاسیِ آب کا عمدہ نظام حفظانِ
صحت کی اہمیت کو دو چند کرد یتا ہے۔ یونیورسٹیاں ، ریسرچ سنٹر ،ہسپتال، رصد
گاہیں،لیبارٹیاں اور تجربہ گاہیں کسی شہر کی پہچان بنتی ہیں جبکہ ٹا ور کسی
ملک کی آن بان اور شہرت کی علامت بنتے ہیں۔ برج الخلیفہ سے دبئی کے نام کا
ڈنکا پورے عالم میں گونج رہا ہے۔فرانس کا ایف ایل ٹاور جبکہ امریکہ کا
آزادی کا مجسمہ پوری انسانیت کی توجہ کا مرکزبنے ہوئے ہیں اور دنیا انھیں
دیکھ کر مسحور ہوتی ہے۔ہوٹل دور دراز سے آنے والے مسافروں کیلئے سکون اور
تفریحِ طبع کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ میوزیم اور آثارِ ِ قدیمہ ہمیں ماضی
کی عظمتوں سے روشاس کرواتے ہیں ۔یونیورسٹیاں کسی شہر کی شان ہو نے کے ساتھ
حکمرانوں کی علم سے دوستی اور محبت کی تڑپ کا اظہار بھی ہوتی ہیں۔بجلی کے
قمقموں،روشنیوں اور سٹریٹ لائٹس سے شہر نئی نویلی دلہن کا منظر پیش کرتا ہے
۔ عبادت گاہیں انسانوں کی داخلی کیفیت کی عکاس ہوتی ہیں اور انھیں نیکی اور
خیر کی جانب راغب کرتی ہیں۔خدا سے انسان کا تعلق انہی عبادت گاہوں سے منسلک
ہوتا ہے۔یورپ میں توعبادت گاہوں میں حاضری کا رواج تقریبا دم توڑ چکا ہے
لیکن ایشیا میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص مذہب سے تعلق اب بھی
کافی قوی ہے۔مسا جد کی رونقیں اور گہما گہمی عوا م کی جذباتی وابستگی
کامنظر پیش کرتی ہیں۔ مذہبی تہواروں کی اپنی اہمیت ہے جبکہ ربیع الاول کے
مقدس مہینہ میں عید میلاد النبی ﷺکے جلوسوں کے اہتمام سے یوں مترشح ہو تا
ہے کہ پاکستان کے ہر ایک گھر سے سرکارِ دو عالم ﷺسے محبت کی شعائیں پھوٹ
رہی ہیں۔پورے ملک میں اس دن عوام کے لبوں پر محبوبِ خدا کے نام کا ورد ہوتا
ہے اور لوگ سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت کے بے پایاں سمندر میں مکمل مستغرق
ہوجاتے ہیں۔ روحانی تسکین کی خاطر جھنڈیو ں ،بینرز اور لائٹس سے پورا ملک
دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے جس سے پوری فضا عیدمیلادلنبیﷺ کی تکریم میں رنگی
محسوس ہوتی ہے۔،۔
کچھ لوگ شاہراؤں اور انفرا سٹر یکچر سے خدا واسطے کا بیرر کھتے ہیں اور ان
کی اہمیت گو گھٹا کر پیش کرنے کی لا یعنی کوشش کرتے ہیں حالانکہ پوری دنیا
میں تجارت کا دارو مدار انہی شاہراؤں کا مرہونِ منت ہو تا ہے ۔تجارت کیلئے
شاہرایوں کی اہمیت سے کسی کو انکار کی مجال نہیں ہے لیکن ہمارے کچھ قائدین
کسی انسان کی ذاتی مخالفت میں شاہراؤں کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے
ہیں۔ہم جس صدی میں زندہ ہیں اس میں شاہراؤں کی اہمیت دو چند ہو چکی ہے ۔
دنیا اب پہیے کی محتاج ہے جس سے ذرائع نقل و حرکت انتہائی اہمیت اختیار کر
گئے ہیں کیونکہ ان کے بغیر دور دراز منڈیوں تک مال پہنچانے کا کوئی دوسرا
متبادل نہیں ہے۔چین کا ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ شاہراہوں کی اہمیت کو واضح
کرنے کیلئے کافی ہے۔اس منصوبے نے تجا رت کی پوری ہئیت ہی بدل کر رکھ دی ہے
۔امریکہ اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچنے نہیں دینے چاہتا کیونکہ اس سے اس کی
تجارتی برتری کو شدید دھچکہ لگنے کا احتمال ہے ۔ بھارت اس سلسلے میں امریکہ
کا حاشیہ بردار بنا ہوا ہے ۔پاک چین تعلقات کا محور سی پیک کایہی منصوبہ ہے
۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان سی پیک سے اپنی دست برداری کا اعلان کرے
تا کہ وسطی ایشیا تک چین کو جو تجارتی برتری ملنے والی ہے اس سے وہ محروم
ہو جائے ۔پاکستانی حکومت شدید امریکی دباؤ میں ہے اور شائد اسی دباؤ کی وجہ
سے وزیرِ تجارت نے سی پیک کو ایک سال تک موخر کرنے کی بات کی تھی۔اس کا
جواز تو مالی مشکلات کو بنا کر پیش کیا گیا تھا لیکن در اصل وہ امریکہ
پریشر کا شاخسانہ تھا ۔وزیرِ تجارت کے بیان سے سی پیک کی افادیت شکوک و
شبہات کی نظر ہو گئی اور چین کے تحفظات میں اضافہ ہو گیا ۔ مستقبل قریب میں
یہ تحفظات مزید گہرے ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کیلئے امریکی دباؤ کا
سامنا کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔،۔
پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں موٹر وے کا آغاز ہوا تو دنیا
ششسدر رہ گئی کیونکہ اتنی کشادہ سڑکیں ایشیا میں کسی بھی جگہ نہیں تھیں ۔اس
کی تقلید بھارت اور کئی دوسرے ممالک نے بھی لیکن مو ٹر وے کی جو شان ہے وہ
کسی دوسری شاہراہ میں نظر نہیں آتی ۔ محترمہ بے نظریر بھٹو نے اپنے پہلے
دورِ حکومت میں موٹر وے کو محدود کر دیا تھا تا کہ ملکی خزانہ بچایا جا سکے
لیکن میاں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں موٹر وے کا ایک بار
پھر آغاز بڑی شدو مد سے شروع کر دیا جو کہ ان کے تیسرے دورِ حکوت میں اپنی
انتہاؤں کو چھونے لگا تھا۔ آج پورا ملک موٹر وے سے منسلک ہوچکا ہے اور طویل
مسافت گھٹ کر چند گھنٹو ں تک رہ گئی ہے۔پشاور لاہور موٹر وے ،اسلام آباد
لاہور موٹر وے، ملتان لاہور موٹر وے اور کراچی ملتان موٹر وے کا سوچنا سوچ
سے ماوراء تھا ۔پی ٹی آئی حکومت کی نظر میں شاہراؤں کی اہمیت اس طرح مسلمہ
نہیں ہے جیسے میاں محمد نواز شریف کی نظر میں تھی۔عمران خان شاہراؤں پر
پیسہ خرچ کرنے کی بجائے تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ کرنا چاہتے ہیں ۔تعلیم
اور صحت کی اہمیت سے کسے انکار ہے لیکن آج کا دور کشادہ سڑکوں کا دور ہے
کیونکہ آج کا انسان مہنگی گاڑیوں پر سفر کے مزے لے رہا ہے لہذا ٹوٹی پھوٹی
سڑکیں اور گندا ماحول اس کی افتادِ طبع پر ناگوار گزرتا ہے ۔خود سوچئے کہ
جب ہم گھر سے طویل سفر کیلئے نکلتے ہیں لیکن ہمارے سامنے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں
ہوتی ہیں تو ہماری کیفیت کیا ہوتی ہے ؟مجھے اس بات کا تلخ تجربہ ہے کہ میں
جب گاڑی ڈرائیو کرتا ہوں اور چند کلو میٹر کے بعد کھڈوں اور گھڑوں سے واسطہ
پڑتا ہے تو میری دلی کیفیت انتہائی تلخ ہوتی ہے۔انسان کشادہ سڑکوں پر سفر
کرنا پسند کرتا ہے لیکن اسے تعلیم اور صحت کا بہانہ بنا کر کشادہ سڑکوں پر
سفر کی آسائش سے روکا نہیں جا سکتا۔ آپ ہسپتال، سکول اور یونیورسٹیاں ضرور
بنائیں لیکن کشادہ سڑکوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کریں۔انویسٹرز کو ترغیب
دلانے میں شاہرائیں اہم رول ادا کرتی ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف موٹر وے کے
موجد ہیں تو اس سلسلے کو جاری و ساری رہنا چائیے تا کہ دور دراز علاقوں سے
رابطوں میں اضافہ کیا جا سکے ۔ سوال یہ نہیں کہ اس کا آغا ز کس نے کیا بلکہ
اصل نکتہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے اہم شہروں کو انتہائی سرعت سے ایک
دوسرے سے ملا دیا ہے جس پر عوام فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اس پر بے پناہ روپیہ
خرچ ہوا ہے لیکن اس کی افادیت اس پیسے سے جو اس پر خرچہ گیا ہے کہیں زیادہ
ہے ۔موٹر وے کی شاہرائیں بارشوں اور سیلابوں سے بھی محفوظ رہتی ہیں لہذا
تجارتی گاڑیوں ٹینکررز اور دوسرے ترسیلاتی ذرائع کی نقل حمل میں کوئی رکاوٹ
پیش نہیں آتی۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ساری عمر دھول مٹی، گندگی اور آلودہ
ماحول میں گزار دیں گے؟ کیا ہمیں وہ شاہرائیں کبھی نصیب نہ ہوں گی جس طرح
کی شاہرائیں یورپ اور امریکہ میں ہیں ؟میاں برادران سے یہ امید تو بہر حال
قائم تھی کہ وہ چھوٹے شہروں میں بھی کشادہ شاہرئیں تعمیر کریں گے لیکن پی
ٹی آئی حکومت سے تو اس طرح کی کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی کیونکہ
شاہرائیں ،پل اور انڈر پاس اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔وہی شب و روز
ہیں،وہی،گھٹن اور وہی گندگی ہے جس کا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں ۔ میرا
چارہ گر خود تو وسیع و عریض محل میں رہتا ہے لہذا اسے میری مشکلات سے کوئی
سرو کار نہیں۔آلودگی کے ماحول میں میرے لئے سانس لینا بھی دشوار ہے جبکہ اس
کیلئے راوی نے چین ہی چین لکھ رکھاہے ۔آلودگی سے پاک اور صاف ما حول کی
خواہش ایک ایسا خواب ہے جو شرمندہِ تعبیر ہونے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ
چارہ گر کیلئے یہ دردِ سر نہیں۔کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔،۔ |