سنگاپور کی آبادی 65لاکھ ہے اوربرآمدات 330ارب ڈالر ہے ۔پاکستان
کی بات کی جائے تو آبادی 22کروڑ اور برآمدات صرف 20ارب ڈالر جو پیپلز پارٹی
دور میں 25ارب ڈالر تھی پھر ن لیگ کی تجربہ کار حکومت آئی اور برآمدات میں
اضافہ کی بجائے مزید 5ارب ڈالرکمی آئی۔ یہ ہماری حکمرانوں کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔ سنگاپو ر کی چھوٹی سی آبادی کی دنیا بھر کو ایکسپورٹ کیو ں زیادہ
ہے وہاں کوئی دوسری مخلوق رہتی ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب ملک میں کرپشن
اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو ۔ ہر جگہ مافیا موجود ہو ۔ حکمران عوام کی
فلاح و بہود کی بجائے اپنی اپنی خزانے بھرنے میں لگے ہو تو پھر وہاں تجارت
، کاربار بغیر رشوت اور سفارش کے نہیں چل سکتا ۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ
ہمارے حکمرانوں کے اپنے کار بار اور سرمائے میں تو بے تحاشا اضافہ ہوا جن
کے پاس پندرہ سال پہلے سائیکل اور موٹر سائیکل تھی ۔ آج ان کے دوبئی ، لندن
اور امریکا میں ٹاورز کھڑے ہیں ۔ جب ان سے سوال ہوتا ہے تو جمہوریت خطرے
میں آجاتی ہے اور ہر طرف سے آواز آنی شروع ہو جاتی ہے کہ میرا احتساب کیوں
؟ باقیوں کا کیوں نہیں ہورہاہے ۔ جب کوئی ایماندار ہو توکبھی نہیں کہتا کہ
میر احتساب کیوں ؟ مجھے سے کیوں سوال وجواب ہوتے ہیں ۔اس کی مثال ہمارے
سامنے ہیں جب ن لیگ نے پناما لیکس کے مقابلے میں آج کے وزیراعظم عمران خان
پر کیس بنایا کہ انہوں نے بر طانیہ سے اپنی دولت پا کستان کیوں لایا؟ اُن
سوالوں کے جواب دینے پڑے کہ جو پیسہ انہوں نے کرکٹ سے بنایا اور لند ن میں
اپنا فلیٹ بھیج کر رقم پاکستان منتقل کی۔ ان کی منی ٹریل بھی عدالت میں پیش
کی تو عدالت نے آخر میں ان کو صادق و امین کا خطاب دیا کہ عمران خان واقعی
ایک ایماندار شخص ہے جس شخص نے زندگی بھر کو ئی سرکاری آفس اور عہد نہ رکھا
ہو ان سے سوال وجواب ٹیکس کی صورت میں تو بن سکتے ہیں لیکن ان پر کرپشن اور
بے ایمانی کا الزام نہیں لگا یا جاسکتا ۔
کچھ دن پہلے ایک آڈٹ رپورٹ آئی جس میں کہا گیا تھا کہ PIA میں گزشتہ دس
سالوں میں136ارب روپے کی کرپشن ہوئی ۔اس اسپیشل رپورٹ کے بعد کسی ن لیگ اور
پی پی کے رہنماؤں نے قوم کو یہ نہیں بتا یا کیا کہ ان میں جو افراد ملو ث
ہے ان کو سخت سزا دی جائے ۔ قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں بتا یا
کیا کہ 5سال میں ریلوے کا خسارہ 191ارب روپے کا ہوا ۔ اس طرح پبلک سروس کا
رپوریشنوں میں 18ارب روپے کی بے ضبطگیاں ہوئی جس میں بھرتیوں میں کی گئی
کرپشن بھی شامل ہے ۔ اس طرح کی مزید آڈٹ رپورٹس ابھی آنی باقی ہے جس پر ن
لیگ اور پیپلز پارٹی کے سابق وزراؤں کے خلا ف گھیرا تنگ ہوگا ۔ ابھی جو
کیسز ان کے خلاف ہے وہ تو پہلے ن لیگ اور پیپلز پارٹی رہنماؤں نے ایک دوسرے
پر بنائے تھے جن کو ہماری یہ پارٹیا ں صرف اپنی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال
کرتے تھے ۔ باقی کسی ادارے کو اجازت نہیں تھی کہ وہ ان کیسز کو فالو کریں
یا ان کے خلاف حقیقی معنوں میں تحقیقات کریں ۔ ان کی سیاست صرف عوام کو بے
وقوف بنانا کیلئے تھی جس میں آج تک یہ لوگ کامیا ب ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے
کہ موجود ہ تحر یک انصاف کی حکومت اس طرح اداروں کو آزاد رہنے دیتی ہے یا
یہ لوگ بھی سیاسی مسلحتوں میں پڑجاتے ہیں ۔
پاکستان کواﷲ نے تمام دولت یعنی قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے ۔ پی ٹی
آئی حکومت اور کچھ بھی نہ کریں صرف اداروں کو آزاد اور خود مختار رہنے کے
ساتھ ساتھ جوابدہ بنائے اور میر ٹ پر سربراہوں کی تقرریاں ہو ۔ ساتھ میں جو
کرپشن اداروں میں سیاست دانوں کے ساتھ مل کر بیورو کریٹ کرتے ہیں ان کو ختم
کیا جائے اور سزا وجزا کا عمل جلد از جلد بغیر عدالتی فیصلوں کے بھی شروع
کریں یعنی جس پر شک اور الزام ہو ان کو عہد ے سے فارغ کریں باقی کیسز نیب
اور ایف آئی اے کے حوالے ہو ۔ ہر روز جو دس ارب کی کرپشن مختلف جگہوں
،کارپو ریشنز اور اداروں میں کی جاتی ہے وہ رک جائے ۔ کاروباری طبقے کو
سہولیات دی جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے برآمدات سنگاپور جتنے
نہیں تو کم ازکم ان کے پچاس فیصد تو ہوسکتے ہیں ۔
حکومت نے جہاں پنجاب اور پختونخوا میں غریبوں کیلئے فری شیلٹر ہوم شروع کیا
اس کو مزید وسعت دی جائے ۔ یہ بہت ہی اچھا اقدام ہے جو ریاست مدینہ کے تصور
کا آیئنہ دار ہے لیکن ساتھ میں روز مرہ معاملات پر بھی چیک اینڈ بینلس شروع
کریں یعنی مسلمان ملک ہونے کے باوجود ہر جگہ ملاوٹ نہ صرف عام اشیاء خوردو
نوش میں کی جاتی ہے بلکہ دوائیوں میں اکثر ملاوٹ اور دونمبری کی جاتی ہے
۔گیس ، پٹرول نرخ حکومت کے اعلان کے مطابق نہیں ہے ۔ ایک ہی شہر میں مختلف
ریٹس نہ صرف گیس اور پٹرول کے چلتے ہیں بلکہ باقی اشیا ء گو شت ، مرغی
وغیرہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ نہ صرف ریٹس مختلف ہے بلکہ گوشت کے نام پر
کیا کیا بھگتا ہے وہ ہمارے صرف یہ مسلمان بھائی ہی جانتے ہیں ۔وزیراعظم
عمران خان نے جب کہا تھا کہ بھینس کے کٹوں کو جلد اسلئے ذبح کیا جاتاہے
تاکہ کسان بھینس سے زیادہ دودھ حاصل کریں لیکن اصل مسئلہ اس کے برخلاف ہے
ان چھوٹے گائے بھینس کے بچوں کو جلد اسلئے ذبح کیا جاتا ہے تا کہ ان کا
گوشت ہوٹلوں کو چھوٹے گوشت کے نام پر فروخت ہو اور عوام ان کا گوشت چھوٹے
گوشت کے نام پر کھائیں ۔ یہ کاروبار قصائیوں اور ریسٹونٹ مالکوں کی ملی
بھگت کیساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس پر حکومت کو بھاری جرمانوں کے ساتھ ساتھ
مسلسل چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب بلا تفریق سب کا ہونا چاہیے جس میں کسی چہرے
کی بجائے جرم کو د یکھا کراحتساب ہونا چاہیے باقی ہر مجرم یہی سمجھتا ہے کہ
میرے ساتھ ہی ظلم ہورہاہے۔ ساتھ میں عدالتوں کو ان لوگوں کے خلاف بھی
کارروائیاں کرنی چاہیے جو بغیر کسی ثبوتوں کے سیاست دانوں سمیت عام لوگوں
کو کیسز کے ذریعے تنگ کرتے ہیں ۔ احتسا ب کے عمل کو جلد ازجلد پایا تکمیل
تک پہنچانے کیلئے اداروں کو مزید وسعت دینے کی بھی ضرورت ہو۔ پاکستا ن تب
ہی تر قی کرسکتا ہے جب احتساب کا عمل بلاتفریق سب کے خلاف جاری ہو ، جب
مجرموں کو سز ا ملے گی تو باقی سبق حاصل کر سکیں گے۔
|