بھارتی پنجاب کی ریاستی اسمبلی نے جمعے کو ایک قرار
داد میں پاکستان کی طرف سے راہداری کھولنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے
کرتار پور کے عوض پاکستان کو زمین دے کر یہ تاریخی گردوارہ انڈیا میں شامل
کرنے کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کے
بعد اسے مرکزی حکومت کو بھیج دیا گیا۔کرتار پور راہداری پر بحث کے دوران یہ
تجویز پیش کی گئی کہ اگر پاکستان کرتار پور صاحب کا گرودوارہ انڈیا کو دینے
پر تیار ہو جائے تو اس کے بدلے اسے زمین دی جا سکتی ہے۔ پنجاب کی ریاستی
کابینہ کے ایک رکن جندر سنگھ رندھاوا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ زمین کے
بدلے زمین کی بات 1969 میں بھی چلی تھی لیکن 1971 ء کی جنگ کی وجہ سے یہ
آگے نہ بڑھ سکی۔ اب یہ انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس
بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہیں۔ یادرہے کہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن
امرندر سنگھ اس سے قبل راہداری کھولنے کے عمل کو آئی ایس آئی کی سازش قرار
دے چکے ہیں۔ سکھوں کے عقائد کے مطابق سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک 1522ء
میں کرتار پور آئے اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال یہیں بسر
کیے۔بابا گرو نانک نے جس جگہ آخری سانس لی‘ عین اسی جگہ گرودوارہ تعمیر کیا
گیا جو پاکستان اور بھارت کی موجودہ سرحد سے صرف ساڑھے چار کلو میٹر کے
فاصلے پر واقع ہے ۔ پاکستان کی طرف سے اس جگہ تک راہداری تعمیر کرنے کے
فیصلے کے بعد سکھ مذہب کے پیروکاروں کو بغیر ویزا کے یہاں تک رسائی حاصل
کرنا ممکن ہو سکے گی۔جہاں تک بھارتی پنجاب کی اسمبلی میں پاس ہونے والی
قرار داد کا تعلق ہے پاکستان کی خیر سگالی کوششوں کے جواب میں اسے مکارانہ
سازش قرار دیاجاسکتا ہے ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ گردداس پور ضلع بھی
پاکستان کے حصے میں آرہا تھالیکن گانگریس اور انگریزوں کی ملی بھگت سے
مسلمانوں کی اکثریت والے اس ضلع کو بھی بھارت کاحصہ بنا دیاگیا ۔ جس سے
لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور دریائے راوی کا پانی
مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوچکا تھا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں قدم قدم پر گرنے
والے مسلمانوں کے لہو کی خوشبو اٹھتی ہے۔اس سے قطع نظر گوردوارہ کرتارپور
کے گرنتھی سردار گوبند سنگھ نے اپنے انٹرویو میں خوبصورت بات کہی کہ سکھ
مذہب کے پیروکار توحید پرست ہیں اور ایک خدا کو ماننے والے ہیں لیکن اس کے
برعکس ہندو اپنے ہی ہاتھ سے بنے ہوئے بتوں کو پوجتے ہیں ۔ سکھ اور ہندومذہب
میں زمین آسمان کافرق ہے ۔سکھوں کو بھارت میں دوسرے درجے کا شہری قرار
دیاجاتاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ خالصتان بھارت کے گلے میں ہڈ ی کی طرح پھنس
چکا ہے۔ نہ نگل سکتا اور نہ ہی نکال سکتا ہے۔ اﷲ کرے گا خالصتان تحریک اپنی
منزل مقصود تک ضرور پہنچے گی۔ گرنتھی سردار گوبند سنگھ نے کہا کہ پاکستانی
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستانی حکومت نے کرتارپور بارڈر کا
سنگ بنیاد رکھ کر پوری دنیا کے سکھوں کو وہ خوشی عطا کی ہے جس کا اظہار
مشکل ہے۔ا گرچہ بھارت نے اس فیصلے کو روایتی اورمنافقانہ سیاست کا شکار کیا
تو بھارت میں رہنے والے غیور سکھوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا ۔انہوں
نے نوجوت سنگھ سدھو کے سر کی قیمت مقرر کرنے پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے
کہا کہ ہم انتہاء پسند ی کی مذمت کرتے ہیں۔ سنگھ کا مطلب ہے ‘ شیر بہادر۔
اور سدھو سکھوں کا شیر بہادر ہے جس پر سکھ قوم کو فخر ہے۔ یاد رہے کہ
پاکستان آنے پر بھارتی انتہا پسند ہندو نوجوت سنگھ سدھو کے جانی دشمن بن
گئے ۔انتہا پسند تنظیم ہندو یووا کے صدر نے کہا کہ اگر سدھو آگرہ آئے تو
میں ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ترون سنگھ نے سدھو کو غدار قرار دیتے ہوئے
کہا اسے پاکستان چلے جانا چاہیے ، ہم اسے بھارت میں نہیں رہنے دیں گے۔جہاں
تک انتہاء پسند ہندووں کی ان دھمکیوں کا تعلق ہے یہ بھارت کے اصل چہرے کی
عکاس ہیں ۔ نریند مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد انتہاء پسند ہندو زیادہ
کھل کے سامنے آچکے ہیں ۔ انتہاء پسندی کی اسی روش کی بدولت پانچ ریاستی
حالیہ انتخابات میں مودی کی جماعت کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھارتی
پنجاب کی اسمبلی میں قرارداد پاس کرنے والے سکھ ممبران اسمبلی شاید گولڈن
ٹمپل پر بھارتی فوج کے ناپاک حملے کو بھول گئے ہیں ‘ خالصتان تحریک جو
سکھوں کی آزادی کی تحریک ہے اس کو ختم کرنے کے لیے بھارت میں لاکھوں سکھ
عورتیں بچوں اور مردوں کو بھارتی فوج کے ہاتھوں جس بیدردی سے ہلاک کیا گیا
اس کا بدلہ غیرت مند سکھ فوجیوں نے اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو ہلاک
کرکے لیا ۔بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کی سابق
چیئرپرسن Katrina Lantos Swett نے امریکہ میں منعقدہ ایک مذاکرے میں اظہار
خیال کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کی طرف سے خود کو اپنی پارٹی کے
انتہاپسند عناصر سے دور نہ رکھنے اور انکی مذمت نہ کرنے کے عمل نے ان عناصر
کو مزید شہ فراہم کی جس سے صورتحال مزید سنگین ہوتی جارہی ہے۔ امریکن
ہیومنسٹ ایسوسی ایشن کے لیجسلیٹوڈائریکٹر Matew Bulger نے کہا کہ بھارت کے
بہت سے قوانین اور پالیسیاں مذہبی آزادیوں میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ مقررین
نے کہا کہ مسلمان اور عیسائی ‘ انتہا پسند ہندووں کے عتا ب کا سب سے زیادہ
شکار ہوئے جبکہ مودی حکومت میں دلتوں کی حالت بھی انتہائی بدتر ہو چکی
ہے۔اگر مسلمانوں کی بابر ی مسجد اور سکھوں کی عبادت گاہ (جس کا سنگ بنیاد
ایک صوفی بزرگ حضرت میاں میر ؒ نے رکھا تھا) انتہاء پسند ہندووں کے ہاتھوں
محفوظ نہیں‘ توکرتار پور گردوارہ کو کیسے بھارت کے سپرد کیاجاسکتا ہے ۔ سکھ
یاتریوں کی بڑی تعداد جو پاکستان میں قیام پذیر ہے وہ پرامن اور خوشحال
زندگی بسر کررہی ہے لیکن جو سکھ یاتری بھارت سے آتے ہیں وہ جب واپس جاتے
ہیں تو انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کی
فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہوتی ہے وہ آنکھوں میں جدائی
آنسو لیے رخصت ہوتے ہیں ۔جہاں تک کرتاپور گردوارہ کو بھارت میں شامل کرنے
کی بات ہے ‘پاکستان اور بھارت کے مابین تین بڑے تنازعات حائل ہیں ۔وادی
کشمیر میں استصواب رائے ‘ پاکستانی دریاؤں کے پانی کا بلا روک ٹوک بہاؤ اور
بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ ۔ اگر
بھارت اپنی فوج نکال کر اقوام متحدہ کے زیرانتظام کشمیر میں استصواب رائے
کرواتا ‘اگر بھارت پاکستانی دریاؤں پر بننے والے ڈیموں کو ختم کرتا ‘اگر
بھارت کے مسلمانوں کے مذہب عقائد ‘ جان و مال اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی
یقین دہانی کرواتا ہے تو کرتارپور گردوارہ کی منتقلی کے بارے میں سوچا
جاسکتا ہے ۔
|