پاکستان دنیا میں گدھوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرا
بڑا ملک بن گیا ہے اور اس وقت صرف لاہور شہر میں گدھوں کی تعداد 41 ہزار سے
سے زائد ہے اور اس فہرست میں ایتھوپیا پہلے اور چین دوسرے نمبر پر موجود ہے
اور اس حوالہ سے ہماری پچھلی اسمبلی میں مئی 2016میں ایک تجویز بھی دی گئی
تھی کہ ہم گدھوں میں خود کفیل ہوچکے ہیں اور حکومت انہیں اپنی برآمدات میں
شامل کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتی ہے اور اس وقت قصاب اور ہوٹلوں والے
شہریوں کو گدھے کا گوشت کھلا رہے تھے اگر یہ کام نہ رکتا تو آج ہم دنیا بھر
میں پہلی پوزیشن پر ضرور ہوتے خیر کوئی بات نہیں ہم کسی نہ کسی جگہ تیسری
پوزیشن پر تو موجود ہیں مگر ہمارے سیاستدانوں نے ہمیں بیوقوف اور گدھا
بنانے میں پہلے نمبر پر ہی رکھا ہوا ہے اربوں روپے لوٹ کر بھی خود کو پاک
صاف ظاہر کرتے ہیں شریف فیملی کی لوٹ مار تو سب کے سامنے آچکی ہے اب زرداری
اور انکے حوارویوں کا بھی یوم حساب قریب ہے کیونکہ انکے خلاف منی لانڈرنگ
کی تہلکہ خیز تحقیقات مکمل ہو چکی ہے جے آئی ٹی نے منی لانڈرنگ میں 32افراد
کے خلاف تحقیقات مکمل کی ہیں زرداری اور فریال تالپور ان میں شامل ہیں جبکہ
اومنی گروپ کے انور مجید،ان کے بیٹے اے جی مجید گرفتار ہوچکے ہیں جنہوں نے
انکشافات کیے ہیں کہ سندھ میں رشوت ستانی سے موصول رقوم مربوط سکیم کے
ذریعے کیسے بے نامی اکاؤنٹس میں پہنچتی تھیں اور وہاں سے اومنی گروپ کے
کاروبار اور دوسرے اثاثوں میں سرایت کر جاتی تھیں،اے جی مجید یہ رقوم ہنڈی
اور حوالے کے ذریعے دبئی منتقل کرتا رہا ہے جس سے لندن،کینیڈا،فرانس اور
دبئی وغیرہ میں باقاعدہ اثاثے بنائے گئے ہیں، جے آئی ٹی نے ان اثاثوں کی
تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سیاسی سرپرستی میں
بینکوں سے مشکوک اکاؤنٹس پر 80ارب روپے کے قرضے حاصل کئے گئے۔اومنی گروپ کو
دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے سیاسی دباؤ پر بینکوں نے قرضے ری شیڈول کیے
گئے کیونکہ اومنی گروپ بلاول ہاؤس کراچی،اسلام آباد،نوڈیرو اور نواب شاہ کے
لئے ایک کروڑ 30لاکھ ماہانہ اخراجات کی ادائیگی کرتا تھا۔بچوں کی سالگرہ کے
کیک بھی انہی اکاؤنٹس سے خریدے جاتے تھے۔ماڈل ایان علی کا بھی دلچسپ کردار
سامنے آیا ہے،جعلی بینک اکاؤنٹس میں ایک زرداری گروپ کا بھی ہے، اسی سے
ایان علی کو ادائیگی کی گئی تھی،پچھلے ماہ ایان علی نے ایک ٹویٹ میں وڈیو
بھی شیئر کی تھی جس میں ایان علی نے بتایا تھا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر
سابق صدر کے پرسنل اسٹنٹ مشتاق احمد اور رحمان ملک کے بھائی کو بھی میرے
ساتھ دیکھا جاسکتا ہے، ایان علی نے سوال اٹھایا تھا کہ ان دونوں افراد کو
میرے ساتھ کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ایان علی کا کہنا تھا در اصل یہ کسی
اور کا کام تھا جو وہ کیا کرتی تھی۔ آصف زرداری جب 2008 میں صدر بنے تھے تو
مشتاق احمد نے ایوان صدر میں نوکری حاصل کی تھی وہ گریڈ 12 میں سٹینوگرافر
کی حیثیت سے داخل ہوا،پھر اسے گریڈ 16 میں ترقی دے دی گئی،جے آئی ٹی کی
رپورٹ 24دسمبر کو سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی اور اس کے بعد کے مراحل
بہت اہم ہوں گے۔آصف زرداری اور فریال تالپور جمعہ تک عبوری ضمانت پر
ہیں۔بینکنگ کورٹ سے ان کی عبوری ضمانت میں تین تین بار توسیع ہوچکی ہے۔ آصف
زرداری کے دست راست انور مجید اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا چولی
دامن کا ساتھ ہے۔جیسے جیسے اومنی گروپ کا کاروباری حجم بڑھاسندھ حکومت کا
خزانہ اومنی گروپ کی پیاس بجھاتا رہا۔سید مراد علی شاہ اور اومنی گروپ کے
زبردست گٹھ جوڑ کی کہانی ہے جس میں مراد علی شاہ نے سندھ کے مشیر،صوبائی
وزیر سے لے کر وزیر اعلیٰ سندھ کی حیثیت سے اومنی گروپ کا ہاتھ تھامے
رکھا۔پہلے دن سے آج تک اومنی گروپ کا ہاتھ مراد علی شاہ کے ہاتھ میں
ہے۔جیسے جیسے اومنی گروپ کا کاروبار اور حجم بڑھا،مراد علی شاہ کی حکومتی
پوزیشن بھی بڑھتی چلی گئی۔ مارچ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے قبل
اومنی گروپ کی صرف ایک شوگر مل اور دو کمپنیاں تھیں،اب اومنی گروپ کی
91کمپنیاں،صنعتیں،فیکٹریاں اور اثاثے ہیں یعنی اس کے 95 فیصد اثاثے پچھلے
11برسوں کی پیداوار ہیں۔دوسری جانب مراد علی شاہ 2008 میں صرف وزیر ریونیو
تھے 2010 میں ان کو سندھ کے سات محکمے مل گئے،جن میں محکمہ
خزانہ،آبپاشی،توانائی،بورڈ آف انویسٹمنٹ،کول مائننگ،محکمہ منصوبہ بندی و
ترقی شامل ہیں۔ اور شاید یہ سندھ حکومت کا ریکارڈ ہے کہ ایک وزیر کے پاس
سات محکمے رہے،اس کے پیچھے اومنی گروپ کا جادو تھاجو مراد علی شاہ کو توانا
سے توانا تر کرتا گیا اور مراد علی شاہ اومنی کو توانا سے توانا کرتے چلے
گئے۔یہ سلسلہ 2008 سے ہی شروع ہوگیا۔دادو اور ٹھٹھہ میں سرکاری شوگر ملز
کوڑیوں کے بھاؤ صرف 22کروڑ میں اس کو تھما دی گئیں اب سندھ کی 35شوگر ملز
سے آدھی اومنی گروپ کا اثاثہ ہیں اور بلاشبہ اومنی گروپ سندھ کا شوگر کنگ
ہے۔جس انداز سے سندھ کے سرکاری خزانوں کا منہ کھولا گیااس میں مراد علی شاہ
کا اہم کردار رہا۔اس دوران مختلف سکیمیں سامنے آئیں جن کا فائدہ اومنی گروپ
کو ہی ہوا ہے۔پچھلے 11سالوں میں 11ارب روپے سبسڈی کے نام پر منتقل ہوئے جس
کا بڑا حصہ اومنی گروپ کو گیا ہے۔ان نوازشات اور مراعات پر کسی نہ کسی
حیثیت سے مراد علی شاہ کے دستخط رہے ہیں اومنی کو جہاں فائدہ ہوا ہے وہاں
کہیں نہ کہیں مراد علی شاہ کے قدم ضرور نظر آئے۔مراد علی شاہ کے ملوث ہونے
کی شروعات 2008 سے ہوئی ہیں۔مراد علی شاہ کے پاس ریونیو کی وزارت تھی۔ان
کوخزانے کی وزارت دی گئی آر او پلانٹ اور دیگر کمپنیوں کو اربوں روپے کی
پیشگی ادائیگیاں کی گئیں جن کا حجم 20ارب روپے بنتا ہے اومنی گروپ کو ٹھٹھہ
شوگر مل جس کے 70کروڑ کے اثاثے تھے اومنی گروپ کو 13کروڑ کی دے دی گئی۔جے
آئی ٹی نے جو تفصیلات طلب کی ہیں ان کا جعلی اور بے نامی اکاؤنٹس سے معاملہ
ملتا ہے اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی موجودگی میں اسے مسئلہ درپیش ہے
اسے نا مکمل معلومات دی جارہی ہیں جبکہ اڈیالہ جیل جانے سے پہلے اے جی مجید
پوری سندھ حکومت چلا رہا تھاکیونکہ اسے اور اسکے اوپر سب کو معلوم تھا کہا
ہماری عوام اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں ان پر جتنا مرضی کرپشن کا وزن لاد
دو یہ پھر بھی نہیں بولیں گے ۔ |