مسلمانوں کے آپس میں سماجی تعلقات

آج مصروفیات اور مادیت کے سیل رواں کی وجہ سے مسلمان کی توجہ کچھ واجبات اور سماجی تعلقات سے ہٹ جاتی ہے، اور بسا اوقات انہیں بھول جاتا ہے یا عمدا ًتوجہ یہ کہتے ہوئے نہیں دیتا کہ میں یہ کمی ، کوتاہی اور سماجی تعلقات میں سرد مہری بعد میں ختم کر دوں گا؛ پھر اسی امید پر سالہا سال گزر جاتے ہیں اور عمر بیت جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوری بڑھتی جاتی ہے اور دراڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں، زندگی پر خشک سالی کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جذبات سوکھ جاتے ہیں۔
اسلام نے سماجی تعلقات کو بھر پور اہمیت دی، سماجی تعلقات پر اتنا اجر بھی مرتب کیا کہ تعلقات میں پہل کرنے کی ترغیب دی تا کہ دل آپس میں جڑ جائیں، باہمی تعلقات گہرے ہوں ، ایک دوسرے کی ضروریات پوری ہوں، معاشرے کے سب افراد اچھے اخلاق اور بہترین تعامل کو فطرت ثانیہ بنا لیں، پھر میزان بھی نیکیوں سے بھر جائے اور درجات بھی بلند ہو جائیں۔
جس وقت سماجی حقوق ادا کیے جائیں، تو تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، جن کی بدولت مضبوط ، آ ہنی، اور گہری بنیادوں والا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں پوچھا گیا: اﷲ کے رسول اﷲ ﷺ !وہ کو ن سے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فر یا : جب تم ملو تو سلام کرو اور جب وہ تم کو دعوت دے تو قبول کرو اور جب وہ تم سے مشورہ طلب کرے تو اس کو خیر خواہی والا مشورہ دو، اور جب چھینک آنے پر الحمدﷲ کہے تو اس کے لیے رحمت کی دعا کرو۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ۔( مسلم)
یہ ایک عظیم حدیث ہے ، یہ حدیث مسلمانوں کی باہمی تعلق داری اور محبت کے آفاق عیاں کرتی ہے، مسلمانوں کی زندگی میں روح پھونکتی ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، اگر آپ ما فی الارض بھی خرچ کر دیتے تو ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے تھے؛ لیکن اﷲ نے ان میں الفت ڈال دی ۔(سورۃ الانفال: 63)
٭پاکیزہ تحفہ ٭
ایک مسلمان کا دوسرے پر اولین حق محبت اور مودت پر مبنی دعائیہ جملہ ہے جو کہ اہل جنت کا سلام بھی ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو۔(مسلم شریف)
سلام دلوں میں محبت سرایت کرنے کا ذریعہ ہے اورکسی بھی دروازے پر اجازت لینے کا سلیقہ بھی ، سلام زندگی کو برکت، ترقی کو فروغ دیتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:۔جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنوں کو سلام کہا کرو۔ یہ اﷲ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ (سورۃ النور: 61)
سلام در حقیقت پروان امان ہے، اور اہل ایمان کی شان ہے۔ جو بھی سلام کا معنی، مقام، اور اس کی حقیقت و فضیلت سے آشنا ہو جائے تو اس کا باطن پاک ہو جائے، تعامل مہذب بن جائے، اور اس شخص کا معاشرہ بھی دین و دنیا کے اعتبار سے ترقی کر جائے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:۔اس کے ذریعے اﷲ تعالی ان لوگوں کو راہ سلام دکھاتا ہے جو رضائے الہی کے تابعدار ہیں۔ اور انہیں اپنے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور سیدھی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے (سورۃ المائدہ: 16)
٭مسلمان کی دعوت٭
مسلمان کا مسلمان پر دوسرا حق یہ ہے کہ مسلمان کی کھانے پر دعوت قبول کرے، ولیمے میں شرکت کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرے، اور اس کی خوشی میں شریک ہو، دعوتوں کے تبادلے سے باہمی الفت اور یگانگت کو فروغ ملتا ہے، ایک دوسرے سے ملنے اور ملاقات کا موقع بنتا ہے، جس کی بدولت مسائل بھی تحلیل ہو جاتے ہیں، دوریاں ختم ہو جاتی ہیں، رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے:جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے، پھر (وہاں پہنچ کر)اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو کھانا کھا لے اور چاہے تو نہ کھائے۔(مسلم شریف)
دعوت کی قدر و قیمت دعوت پر کیے جانے والے خرچے اور تکلف پر نہیں بلکہ دعوت کا مقصود باہمی بھائی چارے اور مسلمانوں کے آپس میں رابطے سے پورا ہو جاتا ہے، جبکہ دعوتوں میں فضول خرچی یکسر قابل ستائش عمل نہیں ہے، یہ شریعت کے منافی ہے، فضول خرچی سے برکت مٹ جاتی ہے، اﷲ تعالی کا فرمان ہے
ترجمہ:۔کھاؤ، پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بیشک اﷲ فضول خرچی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ (سورۃ الاعراف: 31)
٭مسلمان مسلمان کا خیرخوہ ٭
مسلمان کامسلمان پراتیسراحق یہ ہے کہ اپنے بھائی کو نصیحت کرے تو نرمی اور پیار کے ساتھ، نصیحت اور مشورہ در حقیقت مسلمان کا اپنے بھائی کے لئے پیغامِ محبت ہوتا ہے کیونکہ مسلمان اپنے بھائی کے لئے ہمیشہ خیر چاہتا ہے اور اسے اپنے بھائی کا نقصان کسی صورت قبول نہیں۔
خیر خواہ شخص کا دین میں بہت عظیم مقام اور مرتبہ ہے، جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اس دن بھی اس کا بہت بلند مقام ہو گا، تو جس وقت خیر خواہ شخص کسی کو نصیحت کرتا ہے تو سچا آدمی نصیحت کو سن کر کشادہ دلی سے قبول کرتا ہے، نصیحت قبول کر کے بڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ نصیحت گر کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتا، یا اس کی غلط توجیہ نہیں کرتا، اسی لیے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کہا کرتے تھے: "اﷲ اس شخص پر رحمت فرمائے جو ہمیں تحفے میں ہمارے عیب بتلائے۔"
تاہم محبت کرنے والے، رہبر، مشفق، خیر خواہ اور پردہ پوش نصیحت گر میں اور ایسے نصیحت باز میں فرق ہوتا ہے جو نصیحت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی بد نیتی کو چھپاتا ہے، اور اپنے بھائیوں کی کوتاہیوں کی خوب تشہیر کرتا ہے، اپنے ساتھیوں کے عیوب دوسروں کو بتلاتا ہے، کبھی کسی کی پگڑی اچھال دی تو کبھی کسی کو مورد الزام ٹھہرا دیا اور کبھی کسی کی عزت پامال کر دی۔

٭چھینک اﷲ تعالیٰ کی نعمت٭
مسلمان کا مسلمان پرچوتھا حق یہ ہے کہ چھینک لے کر الحمدﷲ کہنے پر چھینک لینے والے کے لئے اﷲ سے دعا اور رحمت مانگے۔ دعا سے ہر ایک خوش ہوتا ہے اور مزید دعا کی چاہت رکھتا ہے، اس بارے میں رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے مسلمان آدمی کی اپنے بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے کی دعا مقبول دعا ہوتی ہے، دعا کرنے والے کے سر پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کے لئے کہتا ہے: آمین، تمہیں بھی یہی کچھ ملے(مسلم شریف)
چھینک اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے، چھینک آنے پر اﷲ کا شکر اور الحمدﷲ پڑھنا اس نعمت کا حق ہے، چھینک لینے والے کے الحمدﷲ کہنے پر دعا کرنے اور اﷲ کا ذکر کرنے سے شیطان غضبناک ہوتا ہے۔ پھر چھینک لینے والے کے لئے حکم ہے کہ اس کے الحمدﷲ کا جواب "یرحمک اﷲ" کہہ کر دینے والے کے لئے مغفرت، ہدایت اور اصلاح احوال کی دعا کرے اور کہے: "یہدِیکم اﷲ ویصلِح بالکم" کہے، دعا کے ان الفاظ میں ہر طرح کی بہتری مراد ہے۔
٭جنت کے چنے ہوئے پھل ٭
مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ جب بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرے ؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسا بھی ممکن ہے کہ بیماری ہفتوں اور مہینوں تک لمبی ہو جائے، بیماری کے باعث نہ آنکھیں آرام کر سکیں اور نہ ہی ذہن کو سکون ملے، درد اور الم سے کڑھتا اور کروٹیں ہی لیتا رہے، مریض شخص کو ایسی مقبول دعا کی تمنا ہوتی ہے جسے قبول کر کے اﷲ تعالیٰ مریض کو شفا یاب فرما دے، اس کے درجات بلند کر دے۔ مریض کو ایسی تیمار داری کی چاہت ہوتی ہے جس سے اس کی تکلیف کم ہو جائے، ایسے بول کی ضرورت ہوتی ہے جو پریشانی میں غم گسار بن جائے، ایسے احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو بھائیوں کے قریب ہونے کی اطلاع دے، جیسے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کا ابھی وقت نہ آیا ہو اور سات بار اس کے پاس یہ دعا پڑھے
ترجمہ:۔ میں اﷲ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت اور بڑائی والا اور عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا عنایت فرمائے ۔تو اﷲ تعالیٰ اسے اس بیماری سے عافیت دے دے گا(ابو داؤدشریف)
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم!میں بیمار ہوا تو نے میری تیمار داری نہ کی ،وہ کہے گا: پروردگار!میں کیسے تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے ،اﷲ تعالی فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا؟(مسلم شریف)
اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی وہ مسلسل "خرف جنت" میں رہاآپ سے پوچھا گیا: اﷲ کے رسول "خرف جنت" کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا:جنت کے چنے ہوئے پھل(مسلم شریف)
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا ایسے بھائی سے ملاقات کی جس سے صرف اﷲ کے لئے تعلق ہے تو آسمان سے آواز لگانے والا کہتا ہے : تم اچھے ہو اور تمہارا جانا اچھا رہا ، تم نے جنت میں ٹھکانا بنا لیا(ابن ماجہ)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایامریض کی عیادت کرنے والا شخص دوران عیادت بیٹھنے تک رحمت میں رہتا ہے، اور جب بیٹھ جائے تو مکمل رحمت میں ڈوب جاتا ہے(مسنداحمد)
یہ بھی رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: کوئی بھی مسلمان کسی مسلمان کی دن کے کسی بھی حصے میں عیادت کرے تو اﷲ تعالی ستر ہزار فرشتوں کو بھیجتا ہے اور وہ اس کے لیے شام تک دعا کرتے ہیں اور اگر رات کو عیادت کرے تو صبح تک اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں(مسنداحمد)
قارئین کرام !جب آپ ان حقوق پر غور کریں کہ کتنے عظیم اور با مقصد ہیں تو آپ کو یقینی طور پر علم ہو جائے گا کہ مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر ایسے حقوق بھی ہیں جو اس کی وفات تک جاری و ساری رہتے ہیں، بلکہ وفات کے بعد بھی کچھ حقوق ہیں کہ اس کے جنازے کے ساتھ جائیں اور اس کے لئے دعا کریں، یہ مسلمان کی تکریم اور اظہار شان ہے، دوسری جانب اہل ایمان کے ہاں وفا کی حقیقی منظر کشی بھی کرتا ہے، در حقیقت یہی مسلمانوں کے ما بین اخوت کا تقاضا بھی ہے۔
تو اسلام کتنا عظیم دین ہے؟ اس کا منہج کتنا کامل اور مکمل ہے؟ دین اسلام کتنی عظیم نعمت ہے؟ اس دین نے انسان کے ذوق اور جمال کو بلندی اور کمال بخشا، انسان کے افعال اور اقوال کو مہذب بنایا، مسلمان کے ظاہر اور باطن کو خوبصورت بنایا۔
مسلمان فوت ہو جائے تو غسل اور کفن دینے کے بعد اس کا جنازہ ادا کیا جاتا ہے، دعائے مغفرت کی جاتی ہے اور پھر قبر تک اسے رخصت کرنے کے لئے لوگ جاتے ہیں، پھر اسے قبر کی مٹی میں دفن کیا جاتا ہے، پھر قبر کی بھی رکھوالی کی جاتی ہے کہ قبروں کی بے حرمتی نہ ہو، رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے جو کوئی ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے پھر نماز جنازہ اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر واپس آتا ہے۔ ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے۔(متفق علیہ)
اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے جو شخص کسی میت کو غسل دے اور اس کا پردہ رکھے تو اﷲ اس کی گناہ پوشی فرمائے گا، اور جو میت کو کفن دے تو اﷲ اسے ریشم کا لباس پہنائے گا(مستدرک حاکم)
ایسے ہی رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے جب تم میت کی نماز جنازہ ادا کرو تو اس کے لئے خلوص کے ساتھ دعا مانگو(ابن ماجہ، ابو داؤد)
ایسا معاشرہ جہاں پر حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھا جائے تو وہ معاشرہ انتہائی مضبوط بنیادوں اور اتحاد کا حامل ہوتا ہے، اس معاشرے کے افراد معزز ہوتے ہیں، کسی بھی دشمن کو ایسے معاشرے میں قدغن لگانے کا موقع نہیں ملتا، ان کی بنیادوں کو ہلانے یا باہمی محبت میں رخنے پیدا کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ملتی۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی اور ایک اچھاانسان بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
 

Tariq Noman
About the Author: Tariq Noman Read More Articles by Tariq Noman: 70 Articles with 85372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.