قائدا عظم محمد علی جناح کا سیاسی تدبر اور اصول پسندی

بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی تدبر اور بردباری کا ثمر ہے کہ آج ہم ایک اسلامی، جمہوری مملکت میں آزادی کے ساتھ زندہ ہیں، ہمیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے، جس کو جو چاہیں جوکچھ کہیں، جس کا جس قدر مزاق اڑائیں، شخصیات تو دور کی بات ہم تو اداروں کوبھی اور حساس اداروں کو بھی تنقید کانشانہ بنانے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ کسی کو بابا کا لقب تو کسی کوخلائی مخلوق ، الغرض یہ آزادی ہمیں کیسے حاصل ہوئی، اگر قائد اعظم اپنے سیاسی تدبر کو بروئے کار نہ لاتے ، پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا نہ کرتے، تو کیا یہ آزاد مملکت جس کا نام پاکستا ن ہے معرض وجود میں آسکتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں دیگر اکابرین کی کاوشیں بھی شامل تھیں ، وہ بھی اتنے ہی شکر گزاری اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ وہ قائد ین تھے جن کی منزل اقتدار کی نہیں تھی ،وہ جاہ و حشمت بھی ان کے سامنے کچھ نہ تھا وہ ایک آزاد وطن کے خواہمشند تھے، وہ چاہتے تھے کہ مسلمان آزاد وطن میں آزاد زندگی بسر کریں۔یہاں مثالی طرزِ حکمرانی ہو، جمہوری روایات کو فروغ حاصل ہو۔ قائد اعظم ہمیشہ سے مسلم لیگ میں نہ تھے بلکہ وہ کانگریس کے لیڈر تھے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کی حالت زار دیکھی اور ہندو و مسلم کے فرق کو محسوس کیا تو کانگریس کوخیر باد کہا اور مسلم لیگ کی جدوجہد کے سپہ سالار بن گئے۔ سیاسی تدبر ان میں بدرجہ اتم موجود تھا ان کی نگاہ دور تک کے سیاسی حالات پر تھی ، ان کے تدبر نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کا رویہ متعصبانہ ہے ،مسلمان کسی صورت ان کے ساتھ شیر و شکر ہوکر نہیں رہ سکتے، چنانچہ انہوں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں اپنے تمام تر سیاسی تدبر سے کام لیتے ہوئے ، پاکستان کے قیام کو ممکن کر دکھایا۔
آزاد ہیں، آزاد رہیں گے یہ مسلمان
اے قائد اعظم ترا احسان ہے ترا احسان

قائد اعظم کے سیاسی تدبر، بردباری، تفکر، تامُل ، دور اندیشی اور فکر ہی تھی کہ انہوں نے جب یہ محسوس کر لیا کہ برصغیر میں دو قومیںیعنی ہندو اور مسلمان رہتے ہیں جن کا مذہب، تہذیب و روایات ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ مسلمانوں کو مذہبی ، سماجی، تہذیبی و تمدنی آزادی حاصل ہو جس کے مطابق وہ اپنی زندگی بسر کریں۔ یہی وہ سوچ تھی جس کا اظہار شاعر مشرق علامہ اقبال بھی کرچکے تھے۔ علامہ تو پاکستان کا خواب بہت پہلے دیکھ چکے تھے، شاعر مشرق کے کے خواب کو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی حکمت عملی اور سیاسی تدبر سے عملی جامہ پہنایا۔ قائد اعظم ایک اصول پسند سیاست دان، قانون کی پاس داری کرنے والے، وقت کی پابندی کرنے والے، کفایت شعار اور کفایت شعاری کا درس دینے والے، سرکاری خزانہ انتہائی ایمانداری سے خرچ کرنے والے، عام زندگی میں ایماندار ، سچے، مخلص ، ان کی زندگی کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے ان کے اصول پسند ہونے اور قانون پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا درس ملتا ہے۔ وہ سیاسی معاملات میں اپنی جماعت کے مشوروں کے بغیر کوئی کام بھی نہیں کیا کرتے تھے، وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ۔

قائد اعظم قانون دان ہی نہ تھے بلکہ قانون پر سختی سے عمل کرتے اور عمل کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے جنرل گل حسن جو قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم کے اے ڈی سی اور کیپٹن تھے ، بعد ازاں وہ آرمی چیف بھی ہوئے کے حوالے سے ایک واقعہ تحریر کیا ۔ لکھتے ہیں کہ اپنے مشاہدات کا ذ کرتے ہوئے گل حسن نے لکھا کہ عام طورپر گورنر جنرل قائدا عظم محمد علی جناح چھٹی کے دن کراچی کے مضافات میں چلے جاتے تھے۔ ایک بار اتوار کی شام ہم واپس کراچی آرہے تھے تو راستے میں ریلوے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے گورنر جنرل کی کار کورکنا پڑا۔ اس لیے یہ ریلوے پھاٹک بند تھا۔ گونرنر جنرل کا گاڑی رک گئی۔اے ڈی سی گل حسن فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا تھا وہ کار سے نکلا اور پھاٹک کے چوکیدار کو بتا یا کہ کار میں گورنر جنرل تشریف فرما ہیں۔دور دور تک ریل گاڑی آتی نظر نہیں آرہی ۔ تم ایک منٹ کے لیے پھاٹک کھولو تاکہ ہم نکل جائیں۔ چوکیدار نے پھاٹک کھول دیا۔ گل حسن کار میں آکر بیٹھے اور ڈرائیور سے چلنے کا کہا۔ قائداعظم نے ڈرائیور کو منع کردیا اور اے ڈی سے سے کہا ’’گل اگر میں قانون کی پابندی نہیں کرونگا تو کوئی بھی قانون پر عمل نہیں کرے گا‘‘۔ چنانچہ جب تک ریل گاڑی گزری، گورنر جنرل کی سواری وہیں رکی رہی۔ یہ تھی قائد اعظم کی اصول پسندی، قائد اعظم جس بات کے لیے منع کرتے خود اس پر عمل کرکے دیکھاتے ۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں قائد اعظم کی زندگی عبارت ہیں۔

دو قومی نظریہ کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح نے8 مارچ 1944 ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا ’’پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، یہ اُس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا‘‘۔ ممتاز حسن نے قائداعظم محمد علی جناح کی فراست اور تدبر کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’ جب ستمبر 1946ء میں کانگریس اور اکتوبر1946 ء میں مسلم لیگ ہندوستان کی عبوری حکومت میں شامل ہوئیں تو انگریزوں کی کوشش یہ تھی کہ ان دونوں کو گورنمنٹ میں رکھا جائے اور ان میں سے ایک یعنی کانگریس کو دوسری یعنی مسلم پر مسلط کر دیا جائے مگر قائد اعظم کی فراست اور تدبر نے اس چال کو ناکام کردیا ‘‘۔ قائداعظم محمد علی جناح سیاسی تدبر اور فہم و فراست کے بے شمار واقعات ہیں جو پاکستان کی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح 25دسمبر 1976ء اتوار کے روز شہر کراچی کے قدیم علاقے میٹھا در ار کھارا در میں واقع عمارت وزیر میشن میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد جناح پونجا مشہور تاجر تھے، قائد اعظم نے کراچی کے سندھ مدرستہ الا سلام جو اب سندھ مدرستہ اسلام یونیورسٹی ہے میں حاصل کی ۔ قانون کی اعلیٰ تعلیم انگلستان سے حاصل کی 1897ء میں قانون کی ڈگری لے کر ہندوستان لوٹے اور بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ 1916ء میںآپ نے مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ کی صدارت کی اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے لکھنؤ پیکٹ کی تیاری میں مدد کی۔رفتہ رفتہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت سنبھالی اور مسلم لیگ کے پرچم تلے پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں سر فہرست لیڈر بن گئے۔ قیام پاکستان کے لیے آ پ کی روز شب جدوجہد کے نتیجے میں اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یہ سب کچھ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت اور ان کی فہم و فراست کا نتیجہ ہی تھا کہ انگریز اور ہندو جیسے شاطر وں سے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سلام اپنے محبوب کی قائدانہ صلاحیت پر، سلام اپنے محبوب قائد کی فہم و فراست پر۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1271943 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More