یہودی قوم ایک ذہین قوم ہے لیکن یہودی اپنی ذہانت کومثبت
کے بجائے منفی سوچ پر خرچ کرتا ہے یہودی دما غ ہروقت سازشوں کے تانے بانے
بنتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج پورا عالم اسلام یہودی سازشوں کے نرغے میں
ہے یہ سازشیں کھلی ہوں یاخفیہ ہرسازش کے پیچھے یہودی دماغ کارفرماتا
نظرآتاہے یہودی کویہ بات اچھی طرح سمجھ آچکی ہے کہ اس نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر
کی آڑمیں افغانستان پر قبضہ کیا ہے بعدازاں عراق کو ترانوالہ سمجھااور پھر
اپنی طاقت کے نشے میں جب لبنان کارخ کیا تووہ حیران رہ گیا کہ جسے وہ صرف
35 منٹ کی مارسمجھتا تھااس لبنانی غیور قوم نے 35 دن تک بے سروسامانی کے
باوجودصرف جذبۂ جہاد کی بناپر اسے شکست سے دوچار کردیا پھر یہودی اقوام
متحدہ سے جنگ بندی کی بھیک مانگنے لگا کہ اگرجنگ بند نہ ہوئی تویہودیوں
کاتوصفایا ہوجائے گا اوراسرائیل کابھرم کھل جائے کا پھر یہودی نے سوچا کیوں
نہ ایسی سازشیں کی جائیں جس سے مسلمان کے دلوں میں یہودیوں کے بارے نرم
گوشہ پیداکیا جائے اورمذہبی رحجان سے ہٹا کر قوم کو سیکولر بنادیا جائے ۔
ہفتہ 29جولائی 2006ء روزنامہ ایکسپریس میں دوطالب علموں درثمین اورعمر
شہزاد سے امریکی قونصلیٹ لاہور میں لیا گیا انٹرویو شائع ہوا جسے پڑھ
کرہمیں اس میں ایسی سازش کارفرمانظر آئی کہ جس کے اثرات آئندہ چندسالوں
تک وطن عزیز پاکستان کے ہائرایجوکیٹڈ لوگ اسرائیل اوریہودی کو گلے لگائیں
گے ان کے نزدیک اللہ کی اس دھتکاری ہوئی قوم کیلئے فخریہ انداز فکراپنانا
ایک اعزاز سے کم نہ ہوگا ہم نے اس انٹرویوسے چند اقتباسات نوٹ کئے جوآپکی
نذر ہیں لیکن اس سے پہلے آپکو یہ بتاتے ہوئے چلیں کہ دونوں طالب علم ان
45ذہن ترین طلباء میں سے ہیں جویوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام youth
exchange& study programeکے تحت امریکہ میں ایک سال گزار کرواپس وطن لوٹے
ہیں۔
یہ یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام کیا ہے یہ پروگرام (yes)کے نام سے جا
نا جاتا ہے یہ پرگرام اکتوبر 2002میں شروع کیا گیا (جب ٓرمی چیف مشرف کی
حکومت تھی )یوایس ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ بیوروآف ایجوکیشنل اینڈ فارن افیئر ز
اس پروگرام کوفنڈ فراہم کرتاہے پروگرام کے تحت جانے والے سٹوڈنٹس امریکی
سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہا ں ایک یہودی میزبان خاندان ان بچونکی
غیر محسوس طریقے سے برین واشنگ کرتاہے (yes )پروگرام کے تحت اس سال دنیا
بھر کے مسلم ممالک کے 675طلباء و طالبات امریکہ جارہے ہیں پاکستانی سٹوڈنٹس
کاانتخابات انٹرنیشنل ایجوکشنل اینڈ ریسورس نیٹ ورک (ierm)کے ذمے ہے اس سال
پاکستان کے مختلف شہروں سے 44ذہن طلباء و طالبات امریکہ جارہے ہیں جبکہ
گزشتہ سال بھی 45گئے تھے ۔
یہ طلباء ہائی جینٹری کے انگلش اورکرسچن سکولو ں سے منتخب کئے جاتے ہیں جب
یہ طلباء وطالبات واشنگٹن ڈی سی (David city)پہنچتے ہیں توہ تمام یہودی
خاندان ان بچوں کولینے کیلئے آئے ہوتے ہیں جن کے پاس ان طلباء نے ایک سال
تک خاندان کافرد بن کررہنا ہوتا ہے اورانہیں ایک سال کیلئے ہوسٹ فادر ،
ہوسٹ مدر ، ہوسٹ سٹرز اور ہوسٹ برادر کہہ کر پکارنا ہوتا ہے ۔
اب آتے ہیں درثمین اورعمر شہزاد کے انٹرویو کے اقتباسات کی جانب ،در ثمین
اپنے میزبان یہودی خاندان کے پاس شمالی کیرولینا کے شہر شاولر میں
’’ازدوک‘‘ ہوسٹ فادر ،’’سیم‘‘ ہوسٹ مدر اور’’لورین‘‘ ہوسٹ سسٹرکیساتھ ایک
سال گزار ااوردرثمین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’شروع شروع میں تو
وہاں بالکل دل نہ لگا لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنے میزبان خاندان میں گھل مل
گئی خاص طورپر ہوسٹ مدر ’’سیم‘‘کیساتھ وقت اچھا گزرا اورمجھے وہاں کرسمس
،ایسٹر اور یہودیوں کے ہلوکااورہیلو ئین تہوار دیکھنے کاموقع ملاپاکستان سے
جاتے وقت پہلے میراخیال تھا امریکی مغرور ہوتے ہیں لیکن وہ بڑے کھلے دل کے
مالک نکلے اسی طرح یہودیوں کے بارے میرا تاثر انتہائی منفی تھا لیکن وہاں
کی کمیونٹی میں بھی مجھے احترام اورپیار ملا درثمین نے ایک موقع پربتایا کہ
ہم نے وہاں سٹوڈنٹس کوپاکستان کے بارے میں پرزنٹیشن بھی دی پہلی مرتبہ
توبہت خوف زدہ تھی لیکن آہستہ آہستہ اعتماد بحال ہوتا گیا آج آپ مجھے
دس ہزار کامجمع بھی دیدیں تومیرااعتماد متزلزل نہیں ہوگا ۔
’’عمر شہزاد ‘‘کیلی فورنیا کے چھوٹے شہر کراس ویلی میں اپنے میزبان ٹم فک
ہوسٹ فادر ’’وبرافک ‘‘ہوسٹ مدر اور’’ گریڈی‘‘ ،’’کوڈی ‘‘اور’’جیکب ‘‘نام کے
تین ہوسٹ برادرز کیساتھ ایک سال تک رہتا رہا عمر شہزاد نے بتایا مجھے وہاں
کی معاشرتی آزادی اچھی لگی ہے میں گراس ویلی میں واحد مسلمان اورپاکستانی
تھا، وہا ں کمیونٹی میں میری مختلف مذاہب کے ماننے والو ں سے ملاقات رہی
اورہمیں ایک دوسرے کو جاننے کاموقع ملا۔
درثمین اورعمرشہزاد نے بتایا کہ یہ ایک سال کاتجربہ ان کیلئے یادگار ہے
اوراس نے ان کی شخصیت کارخ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے عمر شہزاد کاکہناتھا کہ
اب مجھ میں اور دوسرے پاکستانیوں میں اتنافرق آگیا کہ وہ یہودی سے گریز
کریں گے اورمیں ان سے پورے اعتماد سے بغل گیر ہوں گا۔
قارئیں کرام ! دیکھا آپ نے اس ایک سال کی یہودی رفاقت نے ان بچوں کی شخصیت
کوتبدیل کرکے رکھ دیا ہرسال اسی طرح ایسے ذہن طلباء وطالبات امریکہ جاتے
رہے تواندازہ لگائیے کہ آئندہ چندبرسوں میں ان جیسے کتنے بچوں کی شخصیت
تبدیل ہوگی اورجب ان میں تبدیلی آئے گی تویہ بچے اپنے اردگرد کتنے افراد
کومتاثر کریں گے پھر عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کتنے خاندانوں کو
متاثر کریں گے اس طرح یہودی کوجنگ کرنے کی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ مسلمان
کاایمان بک چکا ہوگا۔ مسلمان مسلمان نہ رہے گا اب اگر آج مسلمان نام کابھی
ہے توآئند یہ نسل شاید مسلمان کہلوانا بھی پسند نہ کرے گی۔
اس سے پہلے کہ یہ ایک بھیا نک فتنہ برپاہو ہمیں اپنی ذمہ داری کااحساس کرنا
ہوگا گلی گلی ،قریہ قریہ،گائوں گائوں ،شہر شہر ایسے پروگرام ترتیب دیے
جائیں جن سے دین اسلام سے لگائو اورآقاعلیہ الصلوۃ السلام سے محبت کے در س
دیے جائیں یادرہے کہ یہ کسی فرد واحد کاکام نہیں ہے ہم میں سے ہرایک ذمہ
داری ہے لہذا اپنی ذمہ دار ی کااحساس کرکے اپنے بچوں کودنیاوی تعلیم کیساتھ
ساتھ دینی تعلیم کے زیورسے بھی آراستہ کریں تاکہ بروز قیامت اللہ اور اس
کے محبوب ﷺ کے حضور سرخرو ہوسکیں۔
|