پچھلی حکومت کو دعویٰ تھا کہ وہ شیروں کی حکومت ہے اور
شیر تو شیر ہوتا ہے اس کی مرضی ہوتی ہے تو انڈہ دے دیتا ہے اور اگر مرضی ہو
تو بچہ بھی دے سکتا ہے۔مگر اپنے پانچ سالوں میں انہوں نے قوم کو انڈوں اور
بچوں سے محروم ہی رکھا۔البتہ مخصوص لوگ جی بھر کے انڈوں اور بچوں سے لطف
اندوز ہوئے۔اب یہ انڈوں اور بچوں کے اس قدر رسیا ہیں کہ ان کے گرفتار لوگ
نیب کی حراست میں بھی صبح ناشتے میں آملیٹ اور دوپہر کھانے میں دیسی مرغی
کے طلبگار ہیں۔اب یہ نیب کی صوابدید ہے کہ وہ اپنے معزز مہمان کی کس طرح
تواضع کرتی ہے۔ کوئی عام آدمی تھانے میں اگر چوری یا ڈاکے کے شک میں قابو آ
جائے توصبح کا ناشتہ نو نمبر سے اور دوپہر کھانا دس نمبر سے کرایا جاتا ہے
مگر پارلیمان کے ممبر تو بس معزز ہوتے ہیں ۔چوری یا ڈاکہ ان کا پیشہ بھی ہو
تو آپ انہیں ایسے فضول لفظ سے وابستہ نہیں کر سکتے کہ یہ پارلیمان کی توہین
ہے۔جو اس ملک میں سب سے بڑا جرم ہے۔اس توہین کا انجام بھی بڑا سنگین ہوتا
ہے۔ آپ کو ایک لیگل نوٹس مل جاتا ہے کہ ایسی فضول بات کرنے پر آپ اس قدر
ہرجانہ ادا کریں ۔اس قدر کہ آپ کیاآپ کے ارد گرد ، آپ کا حلقہ احباب بھی مل
کر وہ ہرجانہ تو کیا، نوٹس دینے والے وکیل کی فیس بھی نہیں دے سکتے۔
پارلیمان کے ممبران شک تو کیا یقین کے ساتھ بھی پکڑے جائیں تو تھوڑا سا شور
مچتا ہے، کچھ لے دے ہوتی ہے مگر ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔یہ وکٹری کا نشان
بناتے باہر آتے ہیں اور اپنی اس شرمناک حراست کر اعزاز سمجھتے ہیں۔یہ گنگا
نہائے ہوتے ہیں اور نہائے رہتے ہیں۔
موجودہ حکومت جو تبدیلی کی دعوے دار ہے واقعی تبدیلی لے آئی ہے۔ ان کا کمال
یہ ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں انڈے بھی دے رہے ہیں اور بچے بھی۔اب تک تو
حکومت کی سو دن کی شاندار کارکردگی فقط انہی انڈوں اور بچوں کے گرد گھوم
رہی ہے۔یہ لوگ بھی جی بھر کر آملیٹ کھا لیں تو آگے کی سوچیں گے۔چند دن پہلے
رائے ونڈ روڈ پر میرے گھر کے قریب جانوروں کے سرکاری ہسپتال میں ایک تقریب
ہوئی اور اس میں عوام کو مرغیاں اور انڈے تقسیم کئے گئے۔ اخبار اور ٹیلی
وژن سے اس تقریب کا پتہ چلا تو میں اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ گیا۔ خاتون
ڈاکٹر بتانے لگیں کہ تھوڑی سی مرغیاں آئیں تھیں اسی دن ختم ہو گئیں۔ آئندہ
کب آئیں گی ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ پاس کھڑے ایک واقف حال نے کہا کہ
بھائی پتہ کرو کہ اب کوئی تقریب کہاں ہو رہی ہے۔ کیونکہ یہ مرغیاں فقط
تقریب میں فوٹو شیشن کے لئے آتی ہیں اور اس کے بعد اس تقریب کی ریکارڈنگ ہی
میں ملتی ہیں۔
پورے ملک میں نیب بظاہر بہت متحرک ہے۔ مگر ہماری تمام سیاسی جماعتیں، ہماری
عدالتیں اور نیب کے افسران جس طرح کا سلوک نیب کے ساتھ کر رہے ہیں، میرے
خیال میں نیب کے حصے میں سوائے ناکامی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ آج کے سارے
ملزم جلد وکٹری کا نشان بناتے باہر ہوں گے۔کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے
گا۔نیب کے وجود کا بنیادی مقصد ملک سے وائٹ کالر کرائمز کا خاتمہ ہے۔ وائٹ
کالر کرائم ان جرائم کو کہا جاتا ہے جو ملک کی اشرافیہ اپنے اقتدار کے
دوراں اپنے عہدے کے بل بوتے پر کرتی ہے ۔ 1939 میں امریکہ کے مشہور
کریمنالوجسٹ ایڈون سدر لینڈSutherland) (Edwin نے کہا ہے کہ انتہائی معزز
اور بلند مرتبہ افراد ، اپنے کام کی انجام دہی کے دوران ،جو فراڈ، ہیرا
پھیری، غبن، منی لانڈرنگ، رشوت اور اختیارات کا ناجائز استعمال جیسے جرائم
کرتے ہیں وہ وائٹ کالر کرائم کہلاتے ہیں۔وائٹ کالر کرائم کے کرنے اور
کروانے والے چوں کہ ایک مقصد کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں ،یعنی میاں بیوی راضی
تو کیا کرے گا قاضی، اس لئے اس بارے ثبوت ملنا انتہائی محال ہوتا ہے ۔ ان
کا رہن سہن اور ان کی آمدن اور اخراجات میں فرق کے سبب ان کی کرپشن بڑی
عیاں تو ہو تی ہے مگراسے ثابت کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ جس آدمی کی
کرپشن عیاں ہوتی ہے نیب اسے گرفتار کر لیتی ہے۔ نیب کے قانون کے تحت گرفتار
شخص کو نیب نوے دن تک اپنے پاس زیر حراست رکھ سکتی ہے۔ ان دنوں میں نیب کے
قانوں کے مطابق پہلے ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ ایک معزز ، باوقاراور اشرافیہ کے
آدمی سے جرم اگلوانے کے لئے پولیس والوں کی طرح نیب والوں کونو نمبر اور دس
نمبر استعمال کرنے میں طبقاتی فرق حائل ہوتا ہے۔چنانچہ واحدحل قید تنہائی
ہوتا ہے۔بڑے کروفر اور لوگوں کے ہجوم میں ہر وقت رہنے والا شخص نوے دن تو
بہت بڑی بات ، قید تنہائی میں چند دن میں ٹوٹ جاتا اور اپنی بد دیانتیوں کو
فر فر بتانے لگتا ہے۔ ان نوے دنوں میں نیب کی کوشش ہوتی ہے کہ ملزم کا
رابطہ اس کے عزیزوں سے بھی بہت کم ہو یوں نیب آسانی سے اپنا مقصد حل کر
لیتا تھا۔
ٓآج نیب لبرل ہو گئی ہے۔ کیس زیادہ ہیں اور اسی حساب سے ملزم زیادہ۔ قید
تنہائی کا تصور ختم ہو چکا۔ ایک ایک حوالات میں کئی کئی قیدی ہیں اس لئے
ملزمان کا وقت اچھا کٹ جاتا ہے۔ہائی کورٹوں میں بھی انسان بیٹھے ہیں۔ وہ
تعلقات نبھاتے اور ملزموں کی ضمانت آسانی سے لے لیتے ہیں۔اب تو نیب کے
چیرمین بھی اپنے تعلقات نبھاتے اورخصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملزموں
کو عزیزوں اور رشتہ داروں کو خوب ملاقات کا موقع دے رہے ہیں۔ اپوزیشن چونکہ
شکنجے میں ہے اس لئے شور مچا کر نیب حکام کو پوری طرح دباؤ میں رکھنے کی
کوشش میں ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ ہمارے وزرا غیر
ضروری گرجتے ہیں انہیں برسنے کا سلیقہ ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے وزرا
کو احساس ہی نہیں کہ کہاں کیا بولنا ہے اور کہاں خاموشی میں کس قدر مصلحت
ہے۔ حکومت پر یہ الزام کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے بہت سے حامیوں کو
نیب سے بچانے کی سعی کر رہی ہے ، بھی بہت سنگین ہے۔ ملزم کسی کا دوست اور
کسی کا بھائی نہیں ہوتا۔ حکومت کا کسی کو بچانے کی کوشش کرنا اپنے ساتھ بہت
بڑی نا انصافی ہے۔ایسی حکومت کو بربادی سی کوئی بچا نہیں سکتا۔ ان حالات
میں نیب کے حکام، عدالتیں، اپوزیشن اور حکومت خود نیب کے تخشص کو برباد کر
رہے ہیں۔عوام جنہیں نیب سے بہت سی امیدیں ہیں مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ضروری ہے کہ نیب کو فری ہینڈ دیا جائے۔ حکومت کیا عدالتیں بھی اس کے کام
میں مداخلت نہ کریں۔پارلیمان کے دباؤ میں آ کر نیب قوانین میں فوری کوئی
ترمیم نہ کی جائے۔ہاں البتہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ نیب حکام کسی
دباؤ اورمداخلت کے بغیر کرپشن کے خلاف کام کریں پارلیمان اور سپریم کورٹ کو
اس پر نظر رکھنے کے لئے سپریم جوڈیشنل کونسل کی طرح کا ادارہ بنا دینا
مناسب ہو گا جو ادارہ صرف شکایت کی صورت میں معاملے کی جانچ کر سکے۔ |