شمالی ائر لینڈ ماڈل، کشمیر حل۔۔۔۔1

عمران خان حکومت مسلہ کشمیر کے حل کے لئے نئے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ جن میں شمالی ائر لینڈ اور مشرقی تیمور ماڈل بھی شامل ہیں۔ گو کہ یہ دونوں ماڈلز نئے نہیں۔ نہ ہی م یہ سلہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی نئی ھکمت عملی رکھتے ہیں۔ مگر چونکہ مسلہ کشمیر کے 71 سال کے بعد عمران خان کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ اس لئے اس حکومت کے وزیر مشیر جو بھی بات کہیں ، اسے نیا ہی سمجھا جاتا ہے۔ تبدیلی اور نیا پاکستان کی جیسے ہر بات نئی ہو گی۔ تا ہم وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ نے ایک مقالہ میں مسلہ کشمیر کا قدیم ماڈلز کی طرز پر حل تجویز کیا ہے۔ وہ گزچشتہ کئی ماہ سے ان ماڈلز کی بات کر رہی ہیں۔ انہوں نے رواں ماہ کے وسط میں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بھی ان ماڈلز پر بات کی۔ ڈاکٹر مزاری ایک سکالر ہیں۔ ان کی ریسرچ جامع ہے۔ برسوں سے وہ کالم اور تجزیئے پیش کر رہی ہیں۔ ایک دنیا ان کے خیالات و آراء سے آگاہی رکھتی ہو گی۔ وہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی مقبوضہ کشمیر میں واپسی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جب کہ یہ مبصرین مقبوضہ کشمیر میں 1949سے موجود ہیں۔ ان کا گرمائیہیڈ کوارٹر سرینگر میں ہے۔ سرمائی ہیڈ کوارٹر راولپنڈی سے اسلام آباد منتقل ہو چکا ہے جو وزیراعظم سیکریٹریٹ کے عقب میں ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے ایک چیف جنرل جوزف بالی سے گپکار سرینگر میں ایک ملاقات ہوئی اور انٹرویو میں انھوں کھل کر اپنے منڈیٹ پر بات کی اور کہا کہ بھارت کی طرف سے عالمی مبصرین کی جنگ بندی لکیر پر نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ وہ جنگ بندی کی کسی خلاف ورزی کی آزادانہ تحقیقات نہیں کر سکتے۔ بھارت چاہتا ہے کہ یہ مبصرین واپس چلے جائیں۔ مگر یو ان کی سلامتی کونسل ہی کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں جنرل جوزف بالی نے کہا کہ اگر انہیں کوئی سیاسی منڈیٹ دیا جائے تو وہ مسلہ کشمیر کے حل میں کوئی کردار اداا کر سکتے ہیں۔ یہ منڈیٹ بھی سلامتی کونسل ہی تبدیل یا اس میں اضافہ کرسکتی ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ پاکستان نے شاید کبھی اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی کشمیر کی جنگ بندی لکیر کی نگرانی کے لئے موجودگی کا کوئی مثبت کردار سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مشرقی تیمور یا شمالی ائر لینڈ کی طرز پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسلہ کشمیر کا حل نکالنے کی طرف بھی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ ہو سکتا ہے یہ سب غیر شعوری عمل ہو۔ مگر اب بہت ہو چکا ہے۔ کشمیر میں بہت خون بہہ چکلا۔ نسلوں کی نسلیں آزادی کی تحریک پر قربان ہو چکی ہیں۔ ایک نئی نسل جو جذبات کے عروج پر ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے خون سے بھارت سے آزادی لے کر دم لیں گے۔ مگر بھارت نے اس جذبہ آزادی کو بھی اپنے حق میں سبوتاژکیا ہے۔ کشمیر کی نئی نسل اس پار یا اس پار ، ایک ہی بار میدان میں آ کر مسلہ حل کرانے پر کمر بستہ ہے۔ بھارتی فورسز کی گولیوں اور مارٹر گولوں کے آگے کم سن نوجوان سینے پھیلائے کھڑے ہیں۔ روزانہ کشمیری شہید ہو رہے ہیں۔ بھارت سیاسی اور سفارتی حکمت عملی سے دنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔ سرینگر میں جو کنکر بھارتی اہلکار کو لگتا ہے، بھارت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کنکر پاکستان سے لایا گیا ہے۔

شمالی ائر لینڈ کا معاملہ کشمیر جیسا تھا۔ شمالی ائر لینڈ کو مسلم ملک انڈونیشیا سے آزاد کیا گیا۔ امریکہ کے تعاون سے سلامتی کونسل نے از خود نوٹس لیا۔ کیوں کہ شمالی ائر لینڈ کو چیپٹر 7کے زمرے میں رکھا گیا۔ کشمیر کو چیپٹر6کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ یہی بات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے دوران انٹرویو بتائی اور سلامتی کونسل کے از خود نوٹس کے لئے اپنی معذوری ظاہر کی۔ اس لئے سب سے پہلا کام عمران خان حکومت یہ کر سکتی ہے کہ کشمیر کو بھی شمالی ائر لینڈ کی طرز پر چیپٹر7کے زمرے میں لانے کے لئے دنیا میں سفارتی لابنگ کی جائے۔ اگر ڈاکٹر شیرین مزاری اور ان کی حکومت مخلص ہے اور صرف سیاست گری ان کا مدعا نہیں تو اس جانب پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اگر مسلہ کشمیر کو پاکستران اور بھارت نے ہی باہمی بات چیت سے حل کرنا ہے تو یہ قیامت تک حل نہ ہو گا۔ کشمیری اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے اور ان کے مقدس خون پر بھی اسی طرح سیاسے چمکتی رہے گی۔

حق خود ارادیت اور رائے شماری اہم نکات ہیں۔ ڈاکٹر مزاری ماضی کی حکومتوں کو مسلہ کشمیر حل کرانے میں کوتاہی کا الزام لگا رہی ہیں۔ جب انھوں نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس وقت پی ٹی حکومت میں نہ تھی، وہ وفاقی وزیر بھی نہ تھیں۔ ان کی کشمیر میں دلچسپی ہے تو وزیراعظم عمران خان انہیں ہی امور کشمیر کی وزارت دیں۔ گنڈا پور صاھب بھی سرگرم ہیں۔ لیکن ان کی ریسرچ مزاری صاحبہ جیسی نہیں۔ تا ہم مزاری صاحبہ بھی اپنی ریسرچ کو مزید گہرا کر سکتی ہیں۔ تا کہ انہیں ہمہ وقت درست اور اپ تو ڈیٹ معلومات دستیاب ہوں۔ یہ سن کام وزارت امور کشمیر، پارلیمانی کشمیر کمیٹی ، وزارت خارجہ کے مل کر کرنے کے ہیں۔ ان میں کوارڈی نیشن کی ضرورت ہے۔ مگر جب ایک وزیر دوسرے کی ٹانگیں کھینچتا نظر آئے اور کریڈٹ لینے کی کوشش کی جا رہی ہو تو پھر مثبت پیش رفت کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر مزاری جنرل(ر)پرویز مشرف کے چار نکاتی کشمیر فارمولے کو مسترد کر رہی ہیں۔ وہ درست فرما رہی ہیں کہ جنگ بندی لکیر مسلہ کشمیر کا حل نہیں بلکہ مسلہ کا حصہ ہے۔ اس لئے کشمیر کی جنگ بندی لکیر کو مستقل انٹرنیشنل سرحد نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ جب کہ بھارت چاہتا ہے کہ’ سٹیٹس کو‘برقرار رہے ۔جوں کی توں صورتحال میں نہ صرف آر پار کے کشمیری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشتگردی بڑھ رہی ہے۔ بلکہ کشمیر اور پاک بھارت کی معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجیں بھی اس جنگ بندی لکیر پر آمنے سامنے ہیں۔ ایک دوسرے پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ جس سے دونوں ممالک کا جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ دونوں اطراف سے کشمیری جان اور مال سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ڈاکٹر مزاری کی تجویز مثبت ہے کہ کشمیر کے آر پار فوجی انخلاء ہو، مگر پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیر فائر لائن کے متبادل لائن آف کنٹرول کا استعمال نہ کرے۔ جب سے سیز فائر لائن کی جگہ پاکستان نے بھی بھارت کی ایما پر کنٹرول لائن استعمال کرنا شروع کیا ہے تب سے بھارت اس لائن کو انٹرنیشل بارڈر کے طور پر تسلیم کرانے اور اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی کشمیر سے واپسی کے لئے مہم چلا رہا ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555158 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More