گزشتہ ستر برسوں میں ملک بھر میں غیر قانونی عمارتوں،
پلازوں اور کالونیوں کی اس قدر بھرمار ہو چکی ہے کہ ایسا لگنے لگا تھاکہیں
ایک عام آدمی کے لئے سانس لینا بھی دوبھر نہ ہو جائے گا۔ کراچی سے خیبر تک
پھیلتی ہوئی تجاوزات نے قومی قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی کارکرگی پر
سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔کراچی ، لاہور جیسے بڑے شہروں کے فٹ پاتھ بھی بیچے
جاچکے تھے۔بڑے شہروں کے بازاروں میں پتھارداروں اور ٹھیلے والوں نے قبضہ
جما رکھا ہے ۔دکانداروں نے اپنی دکانیں کئی کئی فٹ آگے بڑھا رکھی ہیں جس کے
نتیجے میں لاہور کے تاریخی بازار اور کراچی کی قدیم عمارتیں بھی انہی
تجاوزات میں گم ہو چکی تھیں۔لاہور کے انارکلی ،اچھرہ،شاہ عالم بازار میں
کروڑوں روپے لاگت کی دکانوں ، پلازوں کو مسما ر کر دیا گیا۔کراچی کی
ایمپریس مارکیٹ سمیت دیگر علاقوں میں پچاس پچاس سالوں سے قائم بلڈنگوں کو
گرادیا گیا۔اسلام آباد میں بھی قبضہ گروپوں کے خلاف سرکاری مشینری حرکت میں
آئی اور آناً فاناًرہائشی عمارتوں پر بھی بلڈوزر پھیر دیا گیا۔تجاوزات ایک
لحاظ سے غیر قانونی عمل ہے اور اس کی کسی طرح بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا
سکتی۔انکروچمینٹ کے خلاف آپریشن تحریک انصاف کی حکومت کے 100روزہ پلان کا
ایک حصہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف نے بر سر اقتدار آتے ہی ملک بھر میں
تجاوزات کے خاتمے کے لئے آپریشن شروع کیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اگرچہ
ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت وقت شہر بھر
میں پھیلی ہوئی انکروچمینٹ کو ختم تو کر رہی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کاکیا
ہوگا؟۔ بہتر ہوتا اگر انہیں مناسب معاوضہ دیدیا جائے اور سرکاری اراضی
پرتعمیر عمارتوں میں کئی سالوں سے رہائش پذیر خاندان کہاں جائے؟اور غیر
قانونی دکانوں میں کام کرنے والے مزدور، دیہاڑی داروں کے گھر کا چولہا کیسے
جلے گا؟۔عزت مآب چیف جسٹس سے التماس ہے کہ اگر غیر قانونی عمارتوں کو گرانے
کے بجائے بحق سرکاضبط کر لیا جائے اس سے یہاں رہنے والے بے گھر بھی نہیں
ہونگے اور لوگوں کی بڑی تعداد کے بے روزگار ہونے کاخطرہ بھی نہیں ہو گااور
حکومتی اقدام کیخلاف آوازبھی نہیں اٹھے گی اور دوبارہ کسی کو بھی جرات نہیں
ہوگی کہ وہ سرکاری زمین پر قابض ہو۔سپریم کورٹ نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ
کراچی شہر کے نوے فیصد حصے پر تجاوزات ہیں اور 50 فیصد کچی آبادیاں بن چکی
ہیں اگرکوئی بھی سیاسی جماعت مخلص ہوتی تو کراچی میں تجاوزات اس حد تک نہ
پہنچتے، سیاست اپنی جگہ لیکن کراچی کا ستیاناس کردیا گیا ہے، ان میں سیاسی
جماعتوں کا ہاتھ ہے سب کی غلطیاں شامل ہیں۔نہ صرف کراچی بلکہ حیدرآباد ،
لاڑکانہ اور میرپورخاص میں بھی آپریشن کیا گیا۔ اس اقدام سے بااثر افراد کو
یہ پیغام ملا ہے کہ ناجائز تجاوزات کسی طور پر بھی جائز قرار نہیں دی جا
سکتی۔تاہم حالیہ دور میں تجاوزات کے خلاف ہونے والے آپریشن میں کئی انسانی
مسائل اور المیوں نے جنم لیا جن کا درست ادراک ہونا بھی لازم ہے۔ وزیراعظم
عمران خان کی ہدایت اور سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ملک بھر میں تجاوزات
کے خلاف سخت آپریشن شروع کیا گیا تھا اور اب تک لاہور کی پرانی مارکیٹوں
اور کراچی میں جابجا قائم غیر قانونی شادی ہال، چائناکٹنگ پلاٹس، پارکوں پر
رہائشی تعمیرات اور غیر قانونی مارکیٹوں کو مسمار کیا جا چکا ہے۔یہ سوچنے
کی بات ہے کہ ستر سال سے قائم مارکیٹیں اس سے قبل انتظامیہ کی نظر میں کیوں
نہیں آئیں؟دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بعض بااثر افراد نے اپنے
اثر و رسوخ کا استعمال کرکے اپنی تجاوزات مسمار ہونے سے بچالیں ہیں۔ صرف یک
طرفہ کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔جبکہ یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ دراصل
یہ آپریشن حکومت مخالف تاجروں اور سرمایہ کاروں کے خلاف کیا جا رہا ہے اور
اس میں تحریک انصاف کے حامیوں کو پوری طرح بچا لیا گیا ہے۔ نیز ان
کارروائیوں میں دیگر انسانی مسائل کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی، دکانوں کو
بنا نوٹس اور متبادل جگہ کی فراہمی سے قبل مسمار نہیں کیا جانا چاہیے تھا،
لاہور کی مارکیٹوں میں قائم تقریباً ایک ہزار اور کراچی میں چار ہزار کے
قریب دکانیں ختم ہونے کے بعد بے روزگاری کا ایک نیا طوفان جنم لے گا۔کیا
حکومت نے اس کا بھی کوئی متبادل انتظام کر رکھا ہے۔حکومت نے ایک جانب قبضہ
مافیا کو تو سبق سکھا دیا دوسری جانب مسمار کی جانے والی کئی دکانیں کرائے
پر حاصل کی گئی تھیں، غیر قانونی عمارتوں میں قائم دفاتر ،شو رومز اور
رہائشی فلیٹس جن پر لاکھوں کا ایڈوانس اور لاکھوں روپے آرائش پر خرچ کیے
گئے اب ان کرایہ داروں کا کیا ہو گا ؟ان کی داد رسی کون کر ے گا؟۔ ان سابقہ
افسران و ذمے داران کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے جن کی موجودگی
میں یہ تجاوزات قائم ہوئیں۔جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار آپریشن کی
کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے اور انہوں نے 100 روزہ کارکردگی کی تقریب
میں فخریہ انداز میں کہا کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تجاوزات کیخلاف
بلاامتیاز منظم کارروائی کی اورپہلے 100دن میں ایک لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی
واگزار کرائی،جس کی مالیت تقریباً 171ارب روپے سے زائد ہے۔ہم سپریم کورٹ آف
پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عمارتوں کو مسمار
کرنے کی بجائے انکو بحق سرکار ضبط کرلیں جس کا فائد ہ حکومت کو ہوگا ایک تو
لاکھوں افراد بے گھر اور بے روزگار ہونے سے بچ جائیں گے دوسرا حکومت ان
عمارتوں کو متروکہ املاک کی طرح اگر لیز پر دے دیں تو اس سے سرکار اور عوام
دونوں کا بھلا ہوگا اور دوبارہ کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ سرکاری زمین پر
قابض ہو۔حکومت کی اصل کامیابی تو یہی ہوگی کہ کوئی شخص بے گھر نہ ہو اور نہ
ہی بے روزگار اور حکومت کا خزانہ بھی بھر جائے ۔موجودہ حکومت مہنگائی کے جن
پر قابو پانے میں فی الوقت ناکام نظر آرہا ہے اس کی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی
بے روزگاری ہے اور بے روزگاری کی وجہ عمارتوں کی مسماری ہے ۔معذرت کے ساتھ
حکومت غریبوں کو روٹی ،کپڑا اور مکان دینے کی بجائے انکو بے گھر کررہے ہیں
۔چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان غریبوں کے لیے کچھ سوچیں
ـ یارب میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہ |