شمالی ائر لینڈ ماڈل کی طرز پر مسئلہ کشمیر کا حل ایک بار
پھر پاکستان کی حکومتی وزیر نے پیش کر کے نئی بحث چھیڑی ہے۔ ڈاکٹر شیرین
مزاری کا موقف ہے کہ کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کر اقوام متحدہ
ریفرنڈم کے لئے کشمیریوں کی رجسٹریشن کرے۔ ان کے سامنے برطانوی طرز پر بھی
ایک ماڈل ہے جس کا وہ شاید عنقریب اعلان کریں۔ یا اس کا خاکہ پیش کریں۔ اگر
اقوام متحدہ سے کشمیریوں کی رجسٹریشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو نہ صرف
جنگ بندی لکیر کے دونوں اطراف کے کشمیریوں کی رجسٹریشن مطلوب ہے بلکہ
پاکستان، بھارت اور دنیا بھر میں موجود کشمیریوں کی بھی رجسٹریشن ضروری ہو
گی گلگت بلتستان میں بھی رجسٹریشن ہو گی۔ کیوں کہ تمام کشمیریوں نے ریفرنڈم
میں ووٹ ڈالنا ہے۔ پاکستان مسلہ کشمیر کے حل بارے پہل کرنا چاہتا ہے۔ مگر
کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنا کر ہی پاک بھارت اس فارمولہ پر بات کر سکتے
ہیں۔ اقوام متحدہ کو بھی اس ماڈل کی کاپی روانہ کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا
ہے۔ ڈاکٹر مزاری کہتی ہیں کہ ماضی کی پاک حکومتوں نے کبھی بھی اس طرح
سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ وہ یہ بیان قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی دے چکی
ہیں۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے
میں رپورٹ کے بعد کشمیر مین تحقیقاتی کمیشن روانہ کرنے کا مطالبہ کرنا
چاہیئے تھا جو ابھی تک نہیں کیا گیا۔ اگر اقوام متحدہ مشرقی تیمور میں
ریفرنڈم کرا سکتا ہے تو کشمیر میں کیون نہیں۔ عمران خان حکومت اب بیانات
اور تقریروں سے آگے نکل کر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہتی ہے۔ وہ ابھی
تک اس خواہش کا اظاہر کر رہی ہے۔ ڈاکٹر مزاری سمجھتی ہیں کہ شمالی ایر لینڈ
ماڈل کی طرز پر ہی پاک بھارت مذاکرات ہوں اور کشمیریوں سے بھی بات چیت ہو۔،
اس میں اقوام متحدہ ہی کشمیریوں کی رجسٹریشن کی نگرانی کرے تا کہ وہ رائے
شماری میں حصہ لے سکیں۔ اس کے لئے اقوام متحدہ کی حد بندی لازمی ہو گی۔
یہ بات درست ہے کہ کشمیر پر عالمی برادری اور او آئی سی صرف بیانات دیتی ہے۔
عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بھی درست ہے کہ جنگ بندی لکیر مسلہ ہے ،
مسلہ کا حل نہیں۔ اس لائن کو کنٹرول لائن کے بجائے سیز فائر لائن ہی قرار
دیا جائے۔ جب کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا کردار میں وسعت لا کر اسے
سیاسی بھیکیا جائے۔ انہیں جنگ بندی لکیر کی نگرانی پر مامور کیا گیا ہے۔ اب
بھارت انہیں اس کی بھی اجزت نہیں دیتا۔ جب کہ وہ سرینگر اور مقبوضہ کشمیر
کے دیگر علاقوں میں بھی مجود ہیں۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
کے چیپٹر سات کے تحت مسلہ کشمیر کو لایا جانا چاہئے۔ تا کہ یہ مسلہ صرف
پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مسلہ بن کر اپنی افادیت خھو نہ دے
جیسا کہ گزشتہ ستر سال سے ہو رہا ہے۔ یہ مسلہ عالمی حل طلب مسلہ ہے مگر اسے
دوطرفہ مسلہ بنا دیا گیا۔ کشمیری جنگ بندی لکیر کو مستقل سرحد بنانے کے
مخالف ہیں۔ وہ پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کو بھی مناسب نہیں سمجھتے۔
یہ تمام روڈ میپ تقسیم کشمیر کی طرف جاتے ہیں۔ کشمیر کوغیر فوجی علاقہ قرار
دے کر اقوام متحدہ کی قراردوں کے مطابق غیر جانبدارانہ اور آزادانہ ریفرنڈم
ہیقابل قبول حل ہو سکتا ہے۔
|