تحریر:ام محمد سلمان
آج ذرا وقت تھا تو صبا نے سوچا کیوں نہ اپنی پڑوسن سعدیہ کے پاس چکر لگا
آؤں۔ صبا کو اکثر اس کا احساس ہوتا تھا کہ ہم اپنی مصروفیات میں اس قدر مگن
ہوجاتے ہیں کہ اپنے دائیں بائیں کا بھی کچھ ہوش نہیں رہتا۔ وہ گئی تو اس کی
دوست سعدیہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بڑی محبت سے ملی۔ دونوں اپنی
باتوں میں مشغول تھیں کہ اتنے میں سعدیہ کا شوہر گھر میں داخل ہوا۔ چھوٹا
بیٹا احمد اسکے ساتھ تھا جو مشکل سے تین، چار سال کا ہوگا۔
احمد کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کھلونا کار تھی جو اس نے گھر میں آتے ہی زور
سے زمین پر پھینک کر ماری اور رونے لگا ،’’مجھے بڑی والی کار لینی ہے مجھے
نہیں چاہیے یہ چھوٹی کار‘‘۔احمد مستقل ضد کیے جا رہا تھا اور بری طرح رو
رہا تھا۔ سعدیہ اسے پیار کرنے لگی۔ چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر وہ بہت
حسرت بھری نظروں سے ماں کو دیکھ کر کہنے لگا ،’’امی! ابو نے بڑی کار نہیں
دلائی مجھے۔ میں چھوٹی گاڑی سے نہیں کھیلوں گا۔ میں بڑی کار لوں گا‘‘۔
سعدیہ نے احمد کے ابو سے کہا،’’بڑی کار دلا دیتے آپ، یہ کب سے ضد کررہا ہے‘‘۔
صبا کو اندر کمرے میں سعدیہ کے شوہر کے ہلکے ہلکے بولنے کی آواز آئی،’’
کہاں سے دلاتا سعدیہ؟ بس سو روپے ہی تھے میرے پاس۔ احمد کے لیے دودھ لیا
اور یہ ضد کررہا تھا تو پچاس روپے والی کار اس کو دلا دی مگر یہ بڑی گاڑی
کی ضد کررہا تھا۔ وہ چار سو روپے کی تھی کہاں سے لاتا میں 400 روپے؟ گھر کے
خرچے ہی مشکل سے پورے ہوتے ہیں، ابھی بجلی کا بل بھی بھرنا ہے کل آخری
تاریخ ہے۔ اس کے لیے سنبھال کر رکھے ہیں کچھ پیسے۔ اب بڑی کار خریدنے کے
لیے 400 کہاں سے لاؤں‘‘؟۔
اس دوران صبا نے سعدیہ سے اجازت لی اور اپنے گھر آگئی۔ مگر ایک بوجھ سا تھا
اس کے دل پر۔ گھر آکر بھی یہی سوچتی رہی میں نے کبھی سعدیہ کے حالات کی خبر
ہی نہیں رکھی۔ وہ تو میری بڑی اچھی دوست ہے پھر میں نے کبھی سوچا کیوں نہیں
اس بارے میں؟ احمد کا رونا اسے بیقرار کررہا تھا۔ اس کا جی چاہا اڑ کر جائے
اور اس معصوم کی خواہش کو پورا کردے اور پھر اس نے ایسا ہی کیا۔ بہت زیادہ
روپے پیسے کی ریل پیل تو اس کے گھر میں بھی نہیں تھی مگر الحمدﷲ کوئی تنگی
بھی نہیں تھی۔
وہ بازار گئی اور اس کی پسند کی کھلونا کار خرید کر لے آئی۔ شام کو وہ
دوبارہ سعدیہ کے گھر گئی اور احمد کو آواز دی تو وہ شرماتا ہوا اس کے پاس
آیا۔ صبا نے گاڑی نکال کر اسے دی اور پیار کیا۔ خوش رہنے کی دعا دی۔ سعدیہ
بہت ممنون نظروں سے صبا کو دیکھ رہی تھی، پھر بولی تم نے کیوں زحمت کی صبا؟
بچے تو ضد کرتے ہی ہیں؟ صبا نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اشارہ کیا
احمد کو دیکھو۔ وہ بہت خوش تھا، بار بار گاڑی پر ہاتھ پھیر کر دیکھتا کبھی
تیز چلاتا، کبھی ہلکے، اسکی لائٹیں جلتیں تو خوشی سے تالی بجاتا۔
احمد کو خوش دیکھ کر جتنی خوشی صبا کو ہو رہی تھی وہ بیان سے باہر ہے۔
سعدیہ کو بے اختیار ہی رونا آگیا ،’’تم نے کیوں اتنی زحمت کی صبا؟ بچے تو
ضد کرتے ہی ہیں‘‘۔ ’’ارے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا پگلی یہ سب تو میں نے
احمد کو خوش کرنے کے لیے کیا تاکہ اﷲ تعالٰی مجھ سے خوش ہو جائیں۔ میں نے
تو تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ تم خواہ مخواہ شرمندہ ہو رہی ہو۔ پتا ہے
سعدیہ! جب ہم اﷲ تعالیٰ کے لیے کسی بندے کو خوش کرتے ہیں ناں تو ہمارے اندر
بھی سکون اور اطمینان اتر جاتا ہے۔ جو چراغ ہم دوسروں کے لیے جلاتے ہیں اس
سے ہمارے اپنے گھر میں اجالا ہوتا ہے۔ ہماری قبر روشن ہوتی ہے اور ہمارا
باطن نور سے بھر جاتا ہے‘‘۔
’’ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو صبا! اﷲ تعالی تمہیں اس نیکی کا بھرپور اجر دے‘‘۔
صبا تھوڑی دیر بعد ہی گھر لوٹ آئی اور اپنے راحیل کو گود میں لیے سوچتی
رہی۔ دراصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے بچوں کو ہی بچے سمجھتے ہیں۔
حالانکہ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں، اپنے ہوں یا پرائے، امیر کے ہوں یا غریب
کے، دل تو سب کے پاس ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے مچلتا ہے۔ لیکن
ہمارے دل شائد انسانیت کے درد سے خالی ہو چکے ہیں، آپس کی محبتیں ہم کہیں
گم کر چکے ہیں۔ مہینوں گزر جاتے ہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں لیتے۔ ہم بس
اپنا اپنا سوچنے کے عادی ہوچکے ہیں، کیونکہ ہم اپنے دین کی سنہری تعلیمات
سے دور ہو چکے ہیں، وہ دین جو ہمیں ایثار و قربانی اور مل بانٹ کر کھانے کا
درس دیتا ہے۔ مگر اسی دین میں آج بھائی سے بھائی جدا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں
ہدایت دے اور دوسروں کا درد محسوس کرنے والا دل بھی دے۔ صبا نے مسکراتے
راحیل کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
یہ بظاہر ایک معمولی سا مگر سچا واقعہ ہے۔ بس ایک چھوٹاسا پیغام ہے کہ اپنے
بچوں کے ساتھ ساتھ کبھی کسی غریب کے بچے کو بھی خوش کر دیا کریں۔ جب اپنے
بچوں کے لیے خریداری کریں تو کوئی جوڑا، کوئی کھلونا، کچھ کھانے پینے کی یا
اور کوئی ضرورت کی چیز کسی غریب کے بچے کے لیے بھی لے لیا کریں۔یاد رکھیے!
اﷲ تعالیٰ کو سخی لوگ بہت پسند ہیں۔ اﷲ محبت کرتا ہے سخاوت کرنے والوں سے۔ |