کہا جاتا ہے کہ ایک چپ سو سکھ۔ شاید موجودہ ملکی سیاسی
حالات اسی کا تقاضا کررہے ہیں کہ جتنا چپ رہا جائے، اُتنا ہی سکھ ملے گا
اور متعدد مسائل سے بچا بھی جاسکے گا۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ خاموشی کو
جہاں بہت سارے مسائل کا حل گردانا جاتا ہے تو وہیں یہ خاموشی بیشتر اوقات
نقصان بھی دے دیتی ہے۔
اہل سیاست کے درمیان اس وقت خاموشی کی جگہ الزامات و جارحانہ بیانات کا شور
کافی زیادہ سنائی دینے لگا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، ایسا لگ رہا
ہے کہ جیسے ہم سب چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے دیس میں رہتے ہیں۔ چور چور،
ڈاکو ڈاکو کے ترانے دنیا بھر میں سنائے جارہے ہیں۔ جیسے ہمیں گناہوں کا
کیمیائی وائرس سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی ہمیں پٹواری، تو کوئی لفافہ لینے والا
تو کوئی (غصے سے) قوم کا غدار اور نہ جانے کیا کیا کہہ جاتا ہے۔ ایسا لگنے
لگا ہے کہ صحافی نہ ہوئے کمی کمین ہوگئے۔
ایسا امیج ہمارا پہلے تو کبھی نہ تھا، جب بھی بیرون ملک جاتا تو عموماً
گرین پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن فخر سے
محسوس ہوتا کہ پاکستانی ہوں، اس لیے یہ تعصب ہورہا ہے۔ پھر پاسپورٹ میں
سرنیم ’’خان‘‘ ہونے کی وجہ سے الگ سے دوبارہ تلاشی دینی پڑتی تھی، لیکن
کڑواہٹ کے ساتھ مسکراتا کہ ہمیں مسخر نہیں کیا جاسکا، اس لیے ایسا سلوک کیا
جاتا ہے، پھر رینڈم انسپکشن کا مرحلہ آجاتا، شاید چہرے پر داڑھی ہونے کی
وجہ سے انہیں شدت پسند لگتا ہوں، لیکن یہاں بھی ثابت قدم رہتا اور ان کے
اسلامو فوبیا کے خوف کو سمجھتے ہوئے مزید تلاشی اور دانتوں کے خلال دکھانے
کے بہانے دراز زبان بھی دکھادیا کرتا کہ کیا اور کچھ بھی چاہتے ہو۔ یہاں
صرف ایک چیز مزید سنگین مسائل سے بچاتی، وہ تھی خاموشی۔۔۔!
تلاشی اور رینڈم انسپکشن میں جو کچھ وہ کرتے ہیں انہیں کرنے دیتا، کیونکہ
وہ اُن کا ملک اور قانون ہے۔ نہیں نہیں، اس میں ان کا کوئی زیادہ قصور نہیں،
کیونکہ انہیں ہمارا ’’نظریہ‘‘ اور چہرہ ہی کچھ لوگوں نے ایسا دکھایا کہ
انہیں ہماری شکل میں سب شدت پسند اور چور ڈاکو نظر آتے تھے۔ وہ سوالات در
سوالات پوچھتے اور پھر پوچھتے، مطمئن ہونے تک پوچھتے ہی رہتے، حالانکہ
سوالات ویزا لگاتے وقت ہی پوچھ لیے جاتے ہیں اور انکوائری ان کی ایجنسیاں
سب کچھ پہلے ہی کرلیتی ہیں، اتنے سوالات کے جوابات اگر سی ایس ایس کے
امتحان میں دے دیتا تو کم ازکم کلکٹر تو بن ہی جاتا۔
لیکن سامان اور لباس میں کیا پوشیدہ تھا، وہ اُن کے لیے جاننا ضروری تھا۔
اُن کا ملک تھا، اس لیے ان کے قانون پر چار وناچار عمل تو کرنا ہی تھا، اگر
کسی کو پسند نہیں تو وہاں جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ لیکن اس بار جاتے ہوئے
اجنبیت لگی۔ بورڈنگ کارڈ دیتے ہوئے عملے کی مسکراہٹ میں تمسخر تھا، ایسا
لگا کہ جیسے انہوں نے کوئی چوری پکڑ لی، بڑے اخلاق سے پوچھا کہ بیگ اپنے
ساتھ ہی لے جائیں گے۔ جواب دیا، جی۔ پھر سوال، سامان زیادہ لگتا ہے۔ ہم نے
کہا کہ جی، نہیں بس کچھ کپڑے، مٹھائیاں، سوہن حلوہ، شہد، لیپ ٹاپ اور کیمرہ
ہے۔ پوچھا کہ بیگ کو لاک کرچکے ہیں۔ میں نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں۔ جواب
ملا، کوئی گارنٹی بھی نہیں، اس لیے بیگ کو لاک کردیں، آپ تو جانتے ہی ہیں
کہ یہ آپ کے لیے ’’بہتر‘‘ ہے۔
پھر وہ سب کچھ ہوا جو ہوتا ہے۔ تمام مراحل پر چپ سادھے رکھی اور یہ سب کچھ
نیا نہیں تھا، لیکن اس بار بالکل نیا لگ رہا تھا، کیوں کہ اس مرتبہ نئے
پاکستان سے آیا تھا۔ مزید بات نہیں کرنا چاہتا تھا، بلکہ جلد از جلد اپنے
مطلوبہ مقام تک پہنچنا چاہتا تھا، آن لائن سروس سے ٹیکسی منگوائی تو
ڈرائیور نے مسکراکر خوش آمدید کہا۔ ایسا لگا کہ جیسے وہ ڈالر مین سمجھ رہا
ہو، روشنیوں کے ایسے شہر سے گزر رہا تھا جہاں کبھی لائٹ نہیں جاتی تھی،
لیکن بڑے سچے دل کے ساتھ دعا کررہا تھا کہ لائٹ چلی جائے، ایک بار بریک
ڈاؤن ہوا تو پورا شہر لوٹ لیا گیا تھا۔ بلاوجہ دعا کرنے لگا کہ اندھیرا
ہوجائے اور اس گھپ تاریکی میں کوئی کچھ دیکھ نہ سکے، یہ 22 منٹ کا سفر
گزشتہ 22 گھنٹوں کی مسافت سے زیادہ طویل لگا۔ ایسا لگا کہ جیسے وقت تھم گیا
ہو۔ سرد موسم میں پسینہ اور دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی تھیں۔ منزل پر پہنچ
کر آن لائن ادائیگی کی۔ کیپٹن نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا، ایسا لگا کہ جیسے
پوچھ رہا ہو کہ ’پن کوڈ‘ اپنا ہی ہے ناں…؟
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
میں کسی کو ٹپ نہیں دیتا، کیونکہ یہ برا لگتا ہے لیکن ڈرائیور کی آنکھوں
میں یاس دیکھ کر بوکھلا گیا، ایسا لگا کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ میرا حصہ تو
دے دیں، کیا فرق پڑ جائے گا۔ بٹوے سے چند ریزگاری نکالی اور سیٹ پر اچھال
کر قریباً بھاگتا ہوا نکلا۔ بلڈنگ کے پانچویں فلور پر جانا تھا۔ کبھی لفٹ
سے نہیں جاتا تھا، کیونکہ کوئی ویسے بھی ’’لفٹ‘‘ نہیں دیتا تھا، اس لیے ’’لفٹ‘‘
لینے کی بھی عادت نہیں تھی، لیکن قدم بھاری ہوچکے تھے۔ لفٹ میں جاگھسا، مجھ
سمیت تین افراد میں ایک خاتون اور ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا۔ ایسا لگا
کہ جیسے خاتون کونے میں خود کو دھکیل رہی ہو جب کہ بچّے کو اپنے پیچھے پہلے
ہی چھپا چکی تھی۔ اب یہ واقعی میں ناقابل برداشت تھا۔ گھنٹی کی مترنم آواز
بم کا دھماکا لگی اور لفٹ سے باہر نکلتے ہی بوجھل قدموں کے ساتھ زمین پر گر
گیا۔ دوڑتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں، اندھیرا ہونے سے قبل بس یہ سن پایا
کہ خان صاحب آگئے ہیں، لگتا ہے کہ دوران سفر طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ اسپتال
پہنچایا گیاہے ہوں کہ ایک چور یہاں بھی آیا ہوا ہے، ہسپتال میں چھپا ہوا
ہے۔ پھر خاموشی چھا گئی اور اندھیرا چھا گیا، کیوں کہ میں دوبارہ بے ہوش
ہوچکا تھا۔
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ، کچھ نہ کہو، خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو، ہاں اے لوگو، خاموش رہو |