امریکہ کی مانند ہندوستان بھی دنیا کی عظیم جمہوریت ہے ۔
اس نظام ِ زحمت نے فی الحال مذکورہ ممالک کو دو عظیم رہنماوں سے نوازہ ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی عظمت کا یہ حال ہے کہ فیصلہ
کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ ان میں کس کو کس پر فضیلت و سبقت ہے حاصل ہے ۔ یہ
دونوں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ اپنے حیرت انگیز کارناموں میں کبھی مودی ،
ٹرمپ سے آگے نکل جاتے ہیں تو کبھی ٹرمپ ،مودی کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔
امریکہ اور ہندوستان کی عوام خاص طور پراپنے رہنماوں سےلطف اندوز ہوتے رہتے
ہیں۔ اس سال ۲۶ جنوری کو ٹرمپ کو بلاکر ڈبل بونازہ کا اہتمام کرنے کوشش کی
گئی تھی لیکن ٹرمپ کی مصروفیت نے ہمیں مایوس کردیا۔ دنیا بھر کے عوام بھی
وقتاً فوقتاً ان رہنماوں کی حرکات سے تفریح حاصل کرتے ہیں۔ مودی جی اور
مسٹر ٹرمپ کے ہر غیر ملکی دورے کے بعد چند مضحکہ خیز ویڈیوز نظر ہو جاتی
ہیں ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جس دن اچانک شام میں داعش کے خاتمہ
کا اعلان کرکے اس کے خلاف اپنی مہم ختم کردی اسی دن ہندوستان کے اندر آئی
ایس آئی ایس اِ دھر ڈوبے اُدھر نکلے کی مصداق نمودار ہوگئی۔ گویا ٹرمپ جب
اس سے بے نیاز ہوئے تو مودی جی کو وہ ضرورت لاحق ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ دہشت
گردی کا آسیب جمہوری حکومتوں کی وہ حاجت ہے جسے حسب ضرورت ایجاد کرلیا
جاتا ہے اور حسب سہولت مسمار کردیا جاتا ہے۔ جب تک مودی جی کے پاس ’سب کا
ساتھ سب کا وکاس‘ تھا انہوں نے اس پر توجہ نہیں فرمائی لیکن اب چونکہ وکاس
پاگل ہوکر ساتھ چھوڑچکا ہے اس لیے دہشت گردی کی پناہ لازم ہوگئی ہے ۔ آئی
ایس آئی ایس سے متعلق حالیہ انکشاف سے ہندوستان کی خفیہ تنظیم این آئی اے
نے امریکہ کی سی آئی اے کو مات دے دی ہے اور مودی جی نے ٹرمپ کو پچھاڑ دیا۔
این آئی اے نے داعش کی مقامی شاخ ’’حرکت الحرب اسلام‘‘ پر دہلی سمیت
اترپردیش کے کئی شہروں میں چھاپہ مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس تنظیم سے تعلق
رکھنے کے الزام میں مفتی محمد سہیل، انس یونس، راشد ظفر، سعید احمد، رئیس
احمد، زبیر ملک، زید ملک،ثاقب افتخار، محمد ارشاد اور محمد اعظم کو امروہہ،
سیلم پور، جعفرآباد و غیرہ سے گرفتار کرکےسیشن کورٹ میں پیش کردیا۔ این
آئی اے کے مطابق ان کے قبضے سے پولس نے دییظ راکٹ لانچر، آلارم ٹائمر گھڑی
وغیرہ ضبط کیے ہیں۔ وکیل استغاثہ نے یہ تفتیش کرنے کے لیے کہ ان کے پاس یہ
ہتھیار کہاں سے آئے؟ اور ان کے ہم خیال اور کون کون ہیں وغیرہ وغیرہ ۱۵
دنوں کی پولس تحویل کا مطالبہ کیا۔ عدالت نے ۳ دن کم کرکے ۱۲ دنوں کے لیے
انہیں حراست میں دے دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب پولس کو یہی نہیں معلوم کہ ان کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا
؟ تو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ ان کا تعلق داعش سے ہے؟ آئی جی آلوک متل نے
نے بتایا کہ گرفتار شدگان کسی بیرونی ایجنٹ کے رابطے میں تھے جس کی شناخت
ابھی نہیں ہوئی ہے۔ اگر شناخت ہی نہیں ہوسکی تو اس کے داعش سے متعلق ہونے
کا پتہ کیسے چلا ؟ اسلحہ کے ساتھ ۱۰۰ عدد موبائل فون اور ۱۳۵ سِم کارڈ دیکھ
کر ایسا لگتا ہے کہ امریکی سرپرستی کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد داعش بھی
ریلائنس مال کی مانند اب فون بیچنے کا دھندا شروع کرنے جارہی ہے۔ حیرت کی
بات ہے انل امبانی ریلائنس فون کی کمپنی اپنے بھائی کو بیچ کر رافیل کے
ساتھ لڑاکو جہاز بنا نے جارہا ہے اور داعش خطرناک ہتھیار ڈال کر فون کی
دوکان کھول رہا ہے۔
ایجنسی نے جن دیسی کٹوں ّ ، درجن بھر گولیوں اور دیوالی میں چھوڑے جانے
والے سوتلی بموں کی تصاویر شائع کی ہیں ۔بر آمد شدہ اسلحہ کے نیچے داعش کے
نام والے کاغذات بھی ہیں جن کی نقل کوئی احمق ترین انسان بھی گوگل کی مدد
بہ آسانی نکال سکتا ہے لیکن بھلا داعش کی شاخ اس کو اپنے ساتھ رکھنے کی
حماقت کیسے کر سکتی ہے؟ یہ تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے کہ سرکار
کو طشتری پر سجا کراپنے خلاف شواہد فراہم کیے جائیں ۔ سی بی آئی بھی این
آئی اے کا اس قدر تعاون نہیں کرتی ۔ اجیت دوول کے کہنے پر برآمد کیے گئے
ان معمولی ہتھیاروں سے ہندوستان جیسی عظیم فوجی قوت کے خلاف جنگ چھیڑنے کی
حماقت تو مودی جی کادیوانہ وکاس بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے شائع شدہ
تصاویر پر ذرائع ابلاغ میں دلچسپ اور مضحکہ خیز تبصرے ہوئے ہیں ۔
ٹائمز آف انڈیا جیسے مؤقر اخبار کے نامہ نگار پیوش رائےنے اس اسلحہ کے
برابر میں چند روز قبل میرٹھ کے اندر غنڈہ عناصر کے پاس سے ضبط ہونے والے
ہتھیاروں کی تصویر لگا کر لکھا کہ کیا ان سے کمتر ہتھیاروں سے دہشت گرد
سارے ملک میں حملہ کرنے والے تھے؟ رائے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس طرح کی
ضبطی ملک کے شمالی ہند میں بہت عام سی بات ہے۔فلمساز وصحافی ونود کاپڑی نے
اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’ این آئی اے نے جس آئی ایس آئی ایس کے بھارت میں
بہت بڑے آتنکی(دہشت گرد)حملے کی سازش کا پردہ فاش کیا ہے اس میں جو خطرناک
چیزیں برآمد ہوئی ہیں ، وہ دیوالی کے سوتلی بم ، دیسی بم، اور دیسی
کٹے(تمنچہ) جس کا استعمال آج کل میرٹھ کی گلیوں میں بدمعاش بھی نہیں کرتے
۔ این ڈی ٹی وی کے اوماشنکر سنگھ نے طنزیہ ٹویٹ میں لکھا ’’ آئی ایس آئی
ایس بھی انڈیا آکر اتنا لاچار ہوجاتا ہے کہ آر ڈی ایکس نہیں بلکہ دیوالی
کے بچے پٹاخوں سے فدائین حملے کی یوجنا(منصوبہ) بناتا ہے۔ وہ تو دھنیہ(بھلا)
ہو این آئی اے کا کہ اسے برآمد کربڑے خطرے کو ٹال دیا۔ ویسے سیریا میں
مونگیر کے بنے کٹوں سے کتنے ماس کلنگ کو انجام دیا گیا ہے اس کا پتہ لگایا
جارہا ہے‘‘۔
معروف خاتون صحافی سواتی چترویدی نے لکھا ’’ شکریہ اجیت دوول ، میں یہ جان
کر اپنے کو بہت محفوظ محسوس کررہی ہوں کہ داعش سوتلی بم اور دیسی کٹے سے
لیس ہے۔ یہ گئوتنکوادیوں سے کم خوفناک ہیں‘‘ ۔ہماری تفتیشی ایجنسیکی جانب
سے شائع شدہ تصاویر دیکھ کر بعید نہیں کہ داعش ہتک عزت کا دعویٰ کردے اس
لیے ایسے کھلونوں سے منسوب کرنا اس سفاک تنظیم کی توہین ہے۔امروہہ میں
چھاپہ ماری کی تیاری کرسمس سے پہلے شروع ہوچکی تھی ۔ ایک شخص نے اپنے آپ
کو میونسپل سرویر بتا کر ملانو محلے کی تصویر کشی کی جبکہ مقامی میونسپل
کاونسلر نے ایسے کام کرنے کے احکامات جاری نہیں کیے تھے۔ ملانو محلے سے
ماسٹر مائنڈ سہیل کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس کے والد اور وہ اپنے دوکمروں
کے آبائی گھر سے منتقل ہوچکے ہیں۔ وہ سال میں ایک دوبار کسی کی شادی یا
موت کے وقت وہاں آتے ہیں ۔ سہیل کسی مدرسے میں پڑھاتا ہے اس کی آزاد
ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ۔
پڑوس کی کالونی قاضی زادہ سے رکشا ڈرائیورمحمد ارشاد کو گرفتار کیا گیا ۔
ارشاد کا قصور صرف یہ تھا کہ اس کی ڈائری میں سہیل کا نمبرتھا۔ اس طرح تو
کئی گاہکوں کے پاس ارشاد کا نمبر ہے جو وقت ضرورت اسے بلالیتے ہیں۔ ۲۰۱۶
میں اس پر گئوکشی کا مقدمہ درج ہوا تھا کیونکہ وہ گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ
حیران ہے کہ کہیں اس گرفتاری کا اس شکایت سے تو تعلق نہیں ہے؟ انکے علاوہ
سعید اور رئیس نامی دو ویلڈربھائیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جوالگ الگ
دوکانیں چلاتے ہیں۔ ان کے پاس سے این آئی اے نے ٹریکٹر کے ہائیڈرولک پائپ
ضبط کرکے اسے راکٹ لانچر اور لوہے کے برادے کو بارود قرار دے دیا۔ہاپوڑ
گرفتار کیے جانے والے ثاقب افتخار کی ماں کہتی ہے وہ تو بندر سے بھی ڈرتا
ہے اور ڈانٹو تو رونے لگتا ۔ وہ کیونکر دہشت گردی میں ملوث ہوسکتا ہے۔ ان
نام نہاد دہشت گردوں کو گرفتار کرکے این آئی اے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔
کیا یہ حسن اتفاق نہیں ہے کہ اترپردیش کے جس امروہہ ضلع سے داعش کے نام
نہاد ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری عمل میں آئی ہےاسی امروہہ کے دھنوراگاوں میں
ایک رات قبل پولیس کی حراست کے اندر ایک دلت نوجوان کی موت ہو گئی۔ اس سے
مشتعل ہوکر مقامی لوگوں نے اگلے دن منڈی دھرونا میں بدایوں۔پانی پت اسٹیٹ
ہائی وے پرجام لگا دیا۔اس بابت پولیس نے بتایا کہ بسی شیرپورکے رہنے والے
بالکشن کو چوری کی گاڑی خریدنے کے الزام میں پولیس نے پوچھ گچھ کے لئے
تھانےلے جاکر حوالات میں بند کردیا اور راتاس کی طبیعت بگڑنے پر اسپتال لے
جاتے ہوئے وہ فوت ہوگیا جبکہ مقتول کی بیوی کُنتی نے الزام لگایاہے کہ چار
دنوں تک بلاقصور حوالات میں پٹائی کے سبب سے اس کی جان گئی ہے۔ پولیس نے
رہا ئی کے لیے روپیوں کا مطالبہ کیا تھا ۔اس معاملے میں تھانیداراروند شرما
سمیت ۱۱ پولیس اہلکار معطل کیے گئے ۔ اس واقعہ نے بی جے پی سے مستعفی رکن
پارلیمان ساوتری پھلے کی تصدیق کردی ہے کہ ملک میں منوسمرتی نافذ ہے ۔ممکن
ہےاسسے توجہ ہٹانے کے لیے اموہہ سےداعش کا جن برآمد کیا گیا ہو۔
ایک اور اتفاق یہ ہے کہ ۱۱ اور ۱۲ جنوری کو بی جے پی رام لیلا میدان میں
اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے ۔ پہلے یہ پروگرام اندرا گاندھی انڈور
اسٹیڈیم میں ہونے والا تھا اور اس میں صرف ۴ ہزارمندوبین کو بلایا گیا تھا
لیکن تین صوبوں میں شکست کے بعد بی جے پی خواب غفلت سے بیدار ہوگئی ہے اور
اس موقع پر پندرہ ہزار کارکنان کو دعوت دے کر ان کا حوصلہ بڑھایا جارہا ہے
۔قومی انتخاب سے پہلے کی جانے والی یہ مشق اس بات کا ثبوت ہے کہ حالیہ شکست
نے بی جے پی کارکنان کو مایوسی اور بددلی کا شکار کردیا ہے۔ اب ان کے اندر
جوش بھرنے کے لیے تقریروں کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے اور اس برے وقت
میں بھاشن بازی کے لیے داعش کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے سے
اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ داعش کا یہ بچکانہ تماشہ اشتعال
انگیز مواد فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہو ۔
داعش کا شوشہ نیا نہیں نومبر ۲۰۱۴ میں اسرائیل کے اندر وزیر داخلہ راجناتھ
سنگھ سے اس بابت پوچھے جانے پر انہوں نےکہا تھا کہ دولت اسلامیہ (داعش)
ہندوستان میں اپنا اثر پیدا نہیں کرسکے گی ۔ ’ہندوستانی نوجوانوں کو اکسانے
والی اس تنظیم کی کوششوں کو ناکام بنانے میں حکومت چوکس ہے‘۔ راجناتھ سنگھ
نے یقین کا اظہار کیا تھا کہ ہم ہندوستان میں داعش کے اثرات زائل کردیں گے۔
آئی ایس اتنی قابل نہیں ہے کہ وہ ہندوستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرسکے ‘۔
۲۰۱۵ میں رونما ہونے والے گئوتنکواد کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے جنوری
۲۰۱۶ میں داعش کی دھمکی کا چرچاہوا۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ داعش کی جانب
سے مبینہ طور پرروانہ کیےگئے ایک پوسٹ کارڈ میں وزیر اعظم نریندر مودی اور
وزیر دفاع منوہر پارکیر کو ملنے والی قتل کی دھمکی دی گئی ہے۔ گوا پولیس کے
مطابق مقامی طور پر پوسٹ کیے گئے خط میں لکھا تھا’اگر تم گائے کا گوشت
کھانے نہیں دیتے تو پھر تم سے نٹک لیا جائے گا‘۔ اس دور جدیدمیں پوسٹ کارڈ
پرگائے کے گوشت کی خاطر داعش کی دھمکی سے بڑا لطیفہ کیا ہوسکتا ہے؟
اپریل ۲۰۱۷ میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا تھاکہ بھارتی عوام داعش
کے بھارت میں اپنے قدم جمانے کے حوالے سے کسی قسم کی تشویش میں مبتلا ہونے
کی کوئی ضرورت نہیں،ہندوستان کے اندر اس دہشت گرد تنظیم کا کوئی وجود نہیں
ہے۔ اس قسم کی کوئی معلومات یا ثبوت نہیں ملا ہے کہ داعش نے بھارت میں اپنے
قدم جماتے ہوئے یہاں اپنی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہندوستانی سماج کا ڈھانچہ اور
خاندانی فریم ورک داعش کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جون میں پھر
راجناتھ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی
آبادی ہے اس کے باوجود داعش یہاں قدم جمانے میں ناکام ہوگئی ہے۔اکتوبر
۲۰۱۷ میں مرکزی وزیر داخلہ سنگھ نے کہا تھا کہ آئی ایس (داعش) سے مربوط
گروپس‘ دنیا کے بڑے حصہ پر اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
وہ اپنی سرگرمیوں کو انجام دینے کےلئے نئے طریقوں کو استعمال کر تے ہیں ۔
دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ
سکتا تاہم دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تو ہندوستان میں چند افراد ہی داعش
کے نظریات سے متاثر ہیں۔
وزیر داخلہ نے نومبر ۲۰۱۷ میں کشمیر کے اندر بھی داعش کی موجودگی کو مسترد
کردیا۔ اس سال مارچ میں ہریانہ میں عالمی دہشت گردی سے متعلق ایک کانفرنس
میں اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کرتےہوئے وہ بولے ملک پہلے سے ہی
پاکستان کی طرف سے بےجاس جارہے عسکریت پسندوں مثلاً جیش محمد، لشکر طیبہ،
حرکت المجاہدین، حزب المجاہدین کے سنگین چیلنج کا سامنا کررہا ہے۔ بائیں
بازو کی طرف سے انتہا پسندی سمیت تمام اقسام کی دہشت گردی بھارت کی قومی
خودمختاری کے لیے ایک چیلنج ہےلیکن اسی کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا کہ 'میں
خوش ہوں ، بھارت کے سماج پر داعش کے اثرات مرتب نہیں ہوئے اور مجھے یقین ہے
کہ یہ ہمارے ملک میں مزید اثر انداز نہیں ہوگا'۔ تواتر کے ساتھ ہونے والی
اس تردید کے بعد اچانک داعش کے خطرہ کا منڈلانے لگنا سیاست نہیں تو کیا ہے؟
ایک سال قبل اسی مہینے میں شہری نکسلواد کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور مودی
جی کے قتل کی سازش کا شور مچایا گیا اور مودی جی کی جان کو خطرہ بتا کر
ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی گئی لیکن دیگر صوبے تو دور چھتیس گڈھ میں بھی
جہاں نکسلوادی بہت طاقتور ہیں یہ حربہ ناکام ہوگیا ۔بی جے پی اس نکسل زدہ
صوبے میں چاروں خانے چت ہوگئی ۔مودی جی نے اس بارجن حلقہ ہائے انتخاب کا
دورہ کیا ان میں سے ۷۰ فیصد میں بی جے پی کو شکست فاش ہوئی ۔اس سے طاہر
ہوگیا کہ عوام کو مودی جی کے خطرے کی پرواہ نہیں ہے۔ بی جے پی کی آخری چال
یہ ہے کہ مسلمانوں کو داعش سے منسوب کرکے ہندو رائے دہندگان کے اندر خوف
پیدا کیا جائے اور ان کا ووٹ ہتھیا لیے جائیں ؟ یعنی اب فرد کے بجائے ملک
کو لاحق خطرات کا شور مچایا جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال نہ تو مودی
جی کی جان کو خطرہ لاحق ہے اور نہ ملک خطرے میں ہے۔ پریشانی کا سبب مودی جی
کے اقتدار کو لاحق خطرات ہیں ۔ ساری دوڑ دھوپ سرکار بچانے کے لیے ہورہی ہے
مگر بدقسمتی سے بے قصور لوگ اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ خیر جمہوریت میں
گھناونا کھیل تو چلتا رہتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس منصوبے میں بی
جے پی کو انتخابی کامیابی نصیب ہوتی ہے یا قومی سطح پر اس کا وہی حشر ہوتا
ہے جو چھتیس گڈھ میں ہوا؟عظیم اقبال نے جس نظام جبر کا ذکر اپنے شعر میں
کیا تھا ایسا لگتا ہے ہم سب اسی نگری میں سانس لے رہے ہیں ؎
کہتے ہںن کہںے اک نگری تھی، سلطان جہاں کا جابر تھا
اور جبر کا اذنِ عام بھی تھا، یہ رسم وہاں جمہوری تھی |