حکومت کی اسرائیل نوازی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مسلسل ایسے اقدامات کررہی ہے کہ جو نظریہ پاکستان ،اسلامی تہذیب وتمدن اورآئین پاکستان کے منافی ہیں ،اسلامی شعائرکونشانہ بنایاجارہاہے،چاہے گستاخ رسول آسیہ مسیح کی رہائی ہویاسینٹ میں ناموس رسالت قانون میں ترمیم کی کوشش ہو ،نصاب تعلیم سے کئی اہم اسلامی مضامین کو حذف کرنے کامعاملہ ہویاشراب پابندی کے بل کی مخالفت ہو ، علماء کرام کی اسناد کو ناقابل قبول قرار دیناہویاسکولوں میں دینیات کو پڑھانے کے لئے غیر مسلم اساتذہ کا کوٹہ مخصوص کرناہو۔,آرٹ کونسل میں رقص وسرورکی مخلوط اجازت ہو ،یاخطیر رقم سے سینماگھر بنانے اورسرکاری طورپربسنت کاتہواربنانے کے اعلان ہویہ تمام وہ اقدامات ہیں جن کاہماری تہذیب وثقافت ،اسلامی شعائراورنظریہ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

تازہ اقدام سے اہل پاکستان تشویش میں مبتلاہوگئے ہیں کہ آخرحکومت کس کوخوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے ؟ایک خبرکے مطابق امیگریشن کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کو پاکستان آمد کی مشروط اجازت دیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے،گزشتہ دنوں ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر 7 ممالک کے شہریوں کو پاکستان آنے کی مشروط اجازت کے قوائد و ضوابط جاری کئے گئے تھے، نئی امیگریشن قوائد کی فہرست میں اسرائیل سمیت بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، نائجیریا، فلسطین اور صومالیہ کا نام شامل کیا گیا تھا۔ویب سائٹ پر ایف آئی اے نے اسرائیلی شہریوں کے لئے بھی امیگریشن قوائد وضح کئے تھے، جن کے مطابق اسرائیلی شہریوں کی پاکستان آمد پر پولیس رجسٹریشن کرانالازمی ہو گی، اسرائیلی شہری متعلقہ ڈی پی او سے قیام پر مٹ لینے کے پابند ہوں گے اور روانگی سے قبل پرمٹ واپس کرنا ہوں گے، اور پھر انہیں ٹریول پرمٹ جاری کیا جائے گا، تاہم ٹریول پرمٹ کے حصول کے لئے انہیں قیام پرمٹ لازمی واپس کرنا ہوگا۔قوائد کے مطابق ورک ویزہ اور سارک ویزہ رکھنے والوں کو پولیس رجسٹریشن سے استثنی حاصل ہوگا، اور نئے امیگریشن رولز میں اسرائیلی شہری کو استثنی حاصل ہے تاہم بھارتی شہری اس سے مستثنی نہیں ہوں گے۔دوسری جانب ڈائریکٹرامیگریشن عصمت اﷲ جونیجو نے فہرست میں اسرائیل کے نام کا نوٹس لیتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ فہرست وزارت داخلہ کی جانب سے جا ری کی گئی تھی اور جاری کیے گئے قوائد میں اسرائیل کا نام غلطی سے ڈالا گیا تھا، تاہم نشاندہی پر اسرائیل کا نام فہرست سے نکالا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امیگریشن قوائد میں اسرائیل کانام شامل نہیں، اسرائیل سے متعلق اسٹیٹ کی پالیسی بلکل واضح ہے۔

اس خبرکوپاکستانی میڈیاآسانی سے ہضم کرگیاہے حالانکہ یہ ہی میڈیاجورائی کوپہاڑبناکرپیش کرنے میں اپنی مثال آپ ہے مگراس آزادمیڈیاکے لیے شایدیہ ،،مثبت ،،خبرنہیں تھی اس لیے اس کواہمیت ہی نہیں دی گئی ڈائریکٹرامیگریشن نے اسے غلطی قراردے کرجان چھڑالی ہے حالانکہ یہ کوئی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ ایک سوچے سمجھتے منصوبے کے تحت کیاگیاہے کیوں کہ سرکاری دفاترمیں جب بھی کسی کام کے حوالے سے فائل بنتی ہے تووہ متعلقہ ادارے کے کئی افسران سے ہوتے ہوئے اوپرپہنچتی ہے اوراس کی منظوری ہوتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں تواسرائیل کانام آتے ہی افسران کیاایک عام آدھی بھی چونک پڑتاہے چہ جائیکہ گریڈبیس اوراکیس کے افسران آنکھیں بندکرکے فائل پردستخط کردیں ایساممکن نہیں ۔

ڈائریکٹرامیگریشن کایہ کہناکہ فہرست وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی مزیدتشویش کاباعث ہے کیوں کہ وزارت داخلہ کاعہدہ وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے البتہ وزیرمملکت کے طورپرشہریارآفریدی کام کررہے ہیں جوروزکسی ناکسی مقام پرآئین ،قانون اوراسلامی احکامات کی تبلیغ کرتے ر ہتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیرداخلہ اوروزیرمملکت برائے داخلہ کویہ پتاہی نہ ہوکہ امیگریشن کے نئے قواعدجاری کیے جائیں۔ اوراس میں ایک نظریاتی دشمن ملک کانام شامل کرلیاگیاہو؟اگروزیرداخلہ اوروزیرمملکت برائے داخلہ کواندھیرے میں رکھ کرکسی یہودی ایجنٹ نے یہ کاروائی کی ہے توکیاحکومت اس کے خلاف کاروائی کرے گی؟

ایسامحسوس ہورہاہ کہ حکومت اس الزام کوسچ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ جس میں کہاجارہاہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت یہودیت نوازہے ،یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دنوں22اکتوبر کو راول پنڈی میں نور خان ائیر بیس پر اسرائیل کے طیارے کی مبینہ آمد کا معاملہ پر اسرار بن چکا ہے اور جوابات کا متقاضی ہے اگرچہ حکومت ایسے طیارے کی آمدکی تردیدکرچکی ہے ،تحریک انصاف کی ممبراسمبلی عاصمہ حدیدنے قومی اسمبلی کے فورم پرحقائق کومسخ کرتے ہوئے یہودیوں کی حمایت میں تقریرکی اوربعدازاں سوشل میڈیاپرانہوں نے اس کادفاع بھی کیابدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے میں ایسی تنظیمیں قائم کی گئی ہیں جوباقاعدہ پاک اسرائیل تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کررہی ہیں ، حالیہ چندسالوں میں سوشل میڈیاپرپاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جس باریک بینی سے کام کیاگیاہے اس کانتیجہ قوم کے سامنے آرہاہے موجودہ حکومت کے قیام کے بعدقادیانی اوریہودی لابی کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، حکومتی صفوں سے ایسے اقدامات ،تقریریں اورخبریں منظرعام پرآرہی ہیں جوہمارے نظریات پربراہ راست حملہ ہیں اوراس طرح کے اقدامات سے قوم کاامتحان لیاجارہاہے کہ آیاقوم کے دلوں میں یہودیوں سے نفرت باقی ہے یاختم ہوگئی ہے قوم کے کمزورردعمل پرہمارے حکمرانوں کومزیدہلہ شیری ملتی ہے اوروہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں موجودہ حکومت اسرائیل سے تعلقات کی راہ ہموارکرنے کااشارہ دے رہی ہے دوسرے مرحلے میں اسرائیل کوتسلیم کرنے کامطالبہ بھی سامنے آئے گا۔

حکومت اس معاملے میں اکیلی نہیں ہے انہیں کچھ ایسے نام نہاد،،کرائے کے دانشور،،بھی میسرہیں جوہمہ وقت بکنے کے لیے دستیاب ہوتے ہیں کرائے کے یہ ٹٹوقوم کوسبق پڑھارہے ہیں کہ اب وقت آگیاہے کہ اسرائیل کوتسلیم کیے بغیریہودیوں سے تعلقات کادرمیانی راستہ نکالاجائے اوردونوں ممالک کے درمیان سفری پابندیاں ختم کی جائیں کوئی ان سے پوچھے کہ اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے سے ملک کاکیانقصان ہورہاہے ؟اسرائیل سے تعلقات کی مہم اوریہودیوں کے حوالے سے نرم روجہ اختیارکرنے کے پیچھے بڑے مالیاتی ادارے ہیں جن کی ایماء پریہودی لابی اور ایجنٹ سرگرم ہوچکی ہیں ،ایساہی ایک کردارکراچی سے بھی نمودارہورہاہے فشیل بین خلد (Fishel Benkhald) کراچی سے تعلق رکھتاہے یہ ہمارے ملک کے واحد یہودی شہری ہے جس نے اپنی شناخت بھی ظاہر کی پاسپورٹ بھی بنوایا ہے اور یہ اب پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل بھی جانا چاہتاہے اوریہ پہلاواقعہ ہے کہ یہودی موجودہ حکومت کے آنے کے بعداس طورپرسرگرم ہوئے ہیں،وہ مطالبہ کررہاہے کہ اسے بھی اپنی مذہبی عبادت گاہوں کی زیارت کے لیے جانے کی اجازت دی جائے ۔سکھوں کے لیے کرتارپورہ بارڈرکھولنے والی حکومت سے کوئی بعیدنہیں کہ وہ کل یہودیوں کے لیے بھی کوئی راہداری کھولنے کااعلان کردے ؟

حیرت ہے کہ حکومت کے ان اقدامات پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس طرح کاردعمل سامنے نہیں آرہاہے جس طرح کاآناچاہیے تھافلسطین کے حق ا وراسرائیل کے خلاف مجلس وحدت مسلمین سب سے زیادہ سرگرم عمل رہی ہے مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس نے گزشتہ روزہی وزیراعظم سے ملاقات کی خبرجاری کی مگرمجھے اس خبرمیں ڈھونڈنے سے بھی اسرائیل کے خلاف ایک لفظ تک نہیں ملااورنہ ہی امیگریشن قواعدوضوابط میں تبدیلی پراحتجاج کیاگیا ؟

اسرائیل کے حامیوں کاخیال ہے کہ پاکستان کی طر ف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں پہلی یہ کہ مسلمان ممالک خاص کر عرب ممالک کے ساتھ یک جہتی ۔کیونکہ مذہبی آئیڈیالوجی کا پرچار کرنے والا ملک مجبور ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو اس کے مطابق رکھے دوسرے یہ کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے عرب ممالک اس کے خلاف ہو جائیں گے اور تیسرے یہ کہ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی قوتیں بہت طاقتور ہیں جو اسرائیل سے کسی بھی تعلق پر ایک بڑے ردعمل کا موجب بن سکتی ہیں۔ ہاں اگر امریکہ پر جیو ش آرگنائزیشن اور مغربی ممالک زور ڈالیں تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔آگے آگے دیکھیے کیاہوتاہے ۔

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 32661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.