چند دن پہلے پارلیمنٹ میں اسدالدین اویسی کی بے لاگ تقریر
سے جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والے عام آدمی کو اویسی نے بہت کچھ سوچنے پر
مجبور کردیا ہے..آئیے ہم تجزیہ کرتے ہیں. نیشنل نیوز چینلز کی بھرمار میں
سارے میڈیا ہاوس کٹر پنتھی سوچ کے پروردہ کارپوریٹس کی گود میں بیٹھے ہوئے
ہیں. اپنی مضبوط پشت پناہی کو جانتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں
گذشتہ چند برسوں میں میڈیا اقلیتوں کے اُمور سے متعلق جس قدر متعصب ہوچکا
ہے سیکولر ذہنیت رکھنے والا ایک عام ہندوستانی بھی اس واضح فرق کو خوب
جانتا ہے.دو یا تین نیوز چینلز ہی ایسے ہیں جو کسی سے مرعوب ہوئے بناء
صحافتی قدروں کی پاسداری کئے جارہے ہیں. ان متعصب نیوز چینلز پر ڈیبیٹ کے
نام پر ہندوستانی سماج کو مسلسل بانٹنے کا کام کیا جاتا ہے.متوسط و دبے
کچلے طبقوں کے سماجی، تعلیمی اور روزگار کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ
نیوز چینلز ٹی آر پی کے لئے آئے دن ہندو مسلم کی بحثوں میں، ہائی پروفائل
مرڈر کیسوں پر چٹخارے لینے میں،توہم پرستی میں لپت ڈھونگی باباوں کی تپسّیا
اور اُنکی ودّیا کو صحیح ٹھہرانے میں،بھارتی مائیتھالوجیز میں ذکر کئےگئے
پچاسوں ہزار سال پہلے کی مقدس! جگہوں اور واقعات کو غیر سائینسی و غیر
منطقی طریقوں سے صحیح ٹھہرانے میں اور دیگر الول جلول غیرسماجی بحثوں میں
ہی اپنے چوبیس گھنٹے گذار رہے ہیں. گذرے کئی برسوں سے زعفرانی سوچ کے
نظریات کو جمہوریت کا سہارا لیکر اسکے اطلاق کی کوششیں جاری ہیں.ایسے میں
یہی چینلز کیمرہ اَڈیکٹیڈ، شہرت کے لالچی "چند" مولانا کو مسلم نمائیندگی
کے نام پر اپنے ڈیبیٹس میں مدعو کرتے ہیں اُن چینلز کو ایسے مولاناوں کی
"دنیاوی علوم اور حالات حاضرہ" پر کتنی دسترس ہے یہ بہت اچھی سے پتہ ہوتا
ہے علمائے اکرام کا دینی علوم پر دسترس رکھنا اور اُن کے مذہبی مقام و
فضیلت سے بھلا کسے انکار بیشک علماء کرام وارثین انبیاء ہیں لیکن وہ مولانا
جنہیں دینی علوم پر بیشک عبور تو حاصل ہوگا مگر ایسی بحثوں کا حصہ بننے کے
لئے کیا صرف "دینی علوم" کی جانکاری ہی کافی ہے؟ جبکہ انکے مقابل بیٹھنے
والے بالخصوص اُن معلومات سے لیس ہوتے ہیں جن معلومات کی ایسی بحثوں میں
ضرورت ہوتی ہے آج اسلامی اُمور و احکامات کے بارے میں اور مسلمانوں کی
معاشرتی زندگی کے بارے میں ایسی ایسی بھیانک غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جو
اس سے پہلے کبھی اتنی شدت سے نہیں پائی جاتی تھیں 6دسمبر 1992 سے ملک کے
سیاسی وسماجی حالات میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے بابری مسجد کی شہادت سے پہلے
کا ہندوستان اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد کا ہندوستان، شہادت کے ردعمل
میں ہوے بم دھماکے پھر اُسکے ردعمل میں ہوے بامبے فسادات اور آج تک ہونے
والے سینکڑوں فسادات کی وجہ سے دونوں سماج میں غلط فہمیوں کی خلیج بڑھتی ہی
گئی ہمارے عقیدے اور شرعی حقوق کے تعلق سے برادران وطن کے دلوں میں غلط
فہمیوں بھرے نفرت کے جذبات اپنی جڑوں کو مضبوط کرتے گئے ان غلط فہمیوں کو
9/11 کے ٹوینس ٹاور حملے کے بعد عالمی پیمانے پر مزید تقویت ملتی گئی پھر
نہ صرف ملکی بلکہ عالمی پیمانے پر مسلمانوں و اسلامی تعلیمات کے تعلق سے
اجتماعی طور پر پوری شدت کے ساتھ معتبر پلیٹ فارموں سے ہزاروں جھوٹ بولے
گئے، لکھے گئے اور فلمائے گئے جن سے انصاف پسند طبقہ بخوبی واقف ہے اسی کے
ساتھ ہونے والے کئی بم دھماکوں میں مجرم کون تھے؟ اور قیدوبند کی صعوبتوں
کو کس نے برداشت کیا؟ جب جب ایسے معاملات میں ملزمین گرفتار کئے گئے تب تب
پرنٹ و الیکڑانک میڈیا نے اُنکی گرفتاریوں پر ہفتوں کوریج دئیے لیکن جب چند
معاملات میں ملزمین کو عدالت سے ضمانتی رہائی ملتی گئی تو اسی میڈیا نے
انکی رہائیوں کو صرف دو سطری خبروں پر اکتفا کیا ایسے ہر بے گناہ ملزمین کی
ہر گرفتاریوں سے اُنکی رہائیوں تک کے بڑے عرصے میں تو مسلمانوں کی شبیہ غیر
مسلموں میں لگاتار داغدار ہوتے گئی نفرتیں اور بڑھتی گئیں ایسے "مسلم
بیزار" رویے کا "سیاسی فائدہ " کسے ملا یہ سبھی جانتے ہیں اسی مسلم مخالف
ماحول میں یکساں سول کوڈ،چار نکاح، حجاب و برقعہ، یوگا آسن، سوریہ نمسکار،
بھاگوت گیتا کو اسکولوں میں لازمی کرنا، نصاب کا بھگوا کرن، بیف بین، مسلم
بادشاہوں پر بہتانوں کی بھرمار یہ سارے حساس موضوعات جن پر صحت مند بحثیں
دانشوران کے درمیان ہونا چاہیے تھی اُنہیں عوامی بحث کا حصہ بنا دیا گیا.
یکے بعد دیگرے پری پلاننگ سے ہمیشہ ہمارے سامنے ایک نیا ایشو کھڑا کیا جاتا
رہا تاریخی حقائق سے کھلواڑ اور اقلیتوں کے دستوری سہولتوں کو نظرانداز
کرتے ہوئے ان ہی چینلز کے ذریعے جسے کروڑوں ہندوستانی دیکھتے ہیں پوری شدت
کے ساتھ گمراہ کیا جاتا رہا..اوپر ذکر کئے گئے حساس موضوعات پر چند مولانا
بحث کرنے کے لئے تو آجاتے ہیں لیکن(دینی علوم کے سوا) اپنی کم علمی کی بناء
پر ہمیشہ ایسے مولانا جگ ہنسائی کی وجہ بنے..کیا ہمارے ان علماء کو یکساں
سول کوڈ کی ، انڈین آرٹیکلس کی، قدیم تاریخ کی، عہد وسطی کی تاریخ کی ،
جدید تاریخ کی، مختلف amendments کی،ہائی کورٹس و سپریم کورٹس کے کچھ اہم
فیصلوں کی، دستور میں ذکر کی گئی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی مذہبی، سماجی
تعلیمی سہولتوں کی، مردم شماری کے ڈیٹا کی، فسادات کے بعد بٹھاے گئے مختلف
کمیشنوں کی اور اُنکی رپورٹس کی اور ایسی کئی معلومات کی اتنی موثر و مدلل
جانکاری بھی ہوتی ہے؟؟ جس کو بروقت سلجھے و کنوینسینگ انداز میں مخالفین کے
سامنے رکھنے سے یہ علماء پچھلے دنوں ہوتی رہنے والی بےعزتیوں سے بچ
سکیں..؟؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہویا جمعتہ العلماء یا کوئی اور نمائندہ مسلم
تنظیم انہیں اگر مختلف ایشوز پر نیوز چینلز پر مباحثوں میں شرکت کے لئے کسی
مولانا کو بھیجنا ہی ہے تو وہ سائنس و ٹیکنالوجی سے بے بہرہ، اور ذکر کی
گئی معلومات سے عاری علماء کو نہ بھیجیں.ایک مثالی و متوازن پروٹوکول وضع
کریں اور ضابطہ شکنی کا ارتکاب کرنے والے ایسے علماء سے اپنا تعلق نہ رکھیں
کیونکہ ایسے ہی چند علماء کی بے بنیاد دلیلوں سے، انکے غیر شائستہ برتاو سے
اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ ہوتی ہے کسی بھی پارٹی کی حمایت یا مخالفت
سے قطع نظر میں اسدالدین اویسی کی مثال ضرور دینا چاہوں گا کہ بہ حیثیت ایک
مسلم لیڈر کے اویسی ایسی ہر بحثوں میں دلیلوں کے ساتھ سیاسی لیڈران کے
ساتھ، سیاسی پارٹیوں کے گھاگ، لفّاظ اور compitent ترجمانوں کے ساتھ اور
سماجی دانشوران کے ساتھ ہمیشہ اثر انگیز بحث کرتے نظر آتے ہیں.. ہندی نیوز
اینکرز ہوں یا انگریزی یہ سارے اینکرز اویسی کو اور مسلم نمائندوں کو نیچا
دکھانے کے، اُنکی دلیلوں کو رد کرنے کے، چل رہے موضوع کو divert کرنے کے
اپنے تمام حربوں کو بھی آزماتے جاتے ہیں پھر بھی یہ بندہ اپنے موضوع و بحث
کے تحت اتنا مستعد ہوتا ہیکہ اپنی ہمہ دانی سے نہ صرف فریقین اور نیوز
اینکرز کو قائل کرتا جاتا ہے بلکہ ناظرین کے ردعمل سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہی
رہتا ہے کہ اویسی کی talking strategies کار آمد ہوتی ہیں (عوامی مقامات پر
کی جانے والی تقریریں، وہاں کا لب ولہجہ بالکل جدا ہوتا ہے)... فیضان
مصطفی، شہزاد پونہ والا، تحسین پونہ والا وغیرہ بھی مدلل تبصرہ کرتے ہیں
لیکن ان ہی میں سے بیشتر بہت زیادہ سیکولر ہونے کے چکر میں یا خود کو روشن
خیال مسلمان بتانے کی جھونک میں اپنے مخالفین کو ہی فائدہ پہنچا بیٹھتے
ہیں..بہرحال اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کی نیشنل ٹی. وی پر اور ملک میں قوم کے
مسائل کی موزوں ترین نمائیندگی کی کمی ہمیشہ کھٹکتی رہیگی..دیکھتے ہیں اس
کمی کا کب کوئی حل نکلتا ہے.کیا اسدالدین اویسی ایک بہتر متبادل ہے؟
تحریر : عمران جمیل صاحب۔(آبروئے قلم)
|