بنگلہ دیش کے انتخابات میں کس حد تک شفافیت

بنگلہ دیش کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے شیخ حسینہ واجد کو فاتح قرار دیا ہے ۔ بنگلہ دیش کے اقتدار پر وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے جس طرح دوبارہ قبضہ جمایا ہے اس پر حزب اختلاف شدید مخالفت کررہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کمال حسین نے ان انتخابات کے نتائج کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’مضحکہ خیز‘‘قراردیا اور ساتھ ہی ایک عبوری حکومت کے قیام کے ذریعہ نئے سرے سے انتخابات منعقد کرانے کا الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے۔شیخ حسینہ کی جماعت نے 350نشستوں کے ایوان میں سے 280 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے، جب کہ حزبِ اختلاف نے چند نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔350رکنی پارلیمانی انتخابات کیلئے 300نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں اور باقی 50نشستیں خواتین کے لئے محفوظ ہوتی ہیں جہاں انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتوں کے تناسب سے نشستیں تقسیم ہوتی ہیں اور ہر رکن کی مدت پانچ سال کیلئے ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے لگ بھگ 100ملین رائے دہنگان نے ملک بھر کے 40199پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ عام انتخابات کے سلسلہ میں حزب اختلاف نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں ، ذرائع ابلاغ کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے سے قبل ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ ا سٹیشنوں میں لائے جا تے رہے ۔حزبِ اختلاف کے رہنما کمال حسین نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان مضحکہ خیز نتائج کو فوری طور پر کالعدم قرار دے۔انکا کہنا تھا کہ ہم ایک غیر جانب دار حکومت کے زیرِ اہتمام نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ذرائع کے مطابق بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس نے ملک بھر سے دھاندلی کے الزامات سنے ہیں اور وہ ان کی تحقیقات کرے گا۔پولنگ کے دوران پر تشدد واقعات میں آخری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 17 ہو گئی ، جبکہ ان واقعات میں کئی درجن پولیس اہلکار زخمی بھی بتائے گئے ہیں۔حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی امیدوار صلاح الدین احمد کو چاقوں کے وار کر کے زخمی کر دیا گیا تھا۔انتخابات کے دوران تشدد کے خدشات کے پیش نظر ملک گیر پیمانے پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے تھے اور تقریبا چھ لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کو ملک کے طول و عرض میں تعینات کیا گیاتھا۔ایک عہدیدار کے مطابق ووٹنگ کے اختتام تک ہائی سپیڈ موبائل اور انٹرنیٹ مواصلات کو بند کر دیا گیا تھا تاکہ افواہوں اور پروپگنڈا کے نتیجے میں کوئی بدامنی نہ پیدا ہو سکے۔بتایا گیا ہے کہ ووٹنگ سے کچھ دیر قبل بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے چٹاگانگ (لکھن بازار، چٹاگانگ، حلقہ 10 )میں ایک بیلٹ باکس کو ووٹوں سے بھرا ہوا پایا۔جب اس بوتھ کے پریزائڈنگ آفیسر سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر کے اس پولنگ ا سٹیشن پر صرف حکمراں پارٹی کے نمائندے تھے اور یہی حال کئی دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا بھی بتایا گیا ہے۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ رائے دہی سے قبل حکومت نے دھمکانے کی مہم کا سہارا لیا تھا۔ادارے کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے کہا کہ حزب اختلاف کے اہم ارکان اور حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا، بعض کو قتل کیا گیا ہے جبکہ بعض لا پتہ بھی ہیں جس سے خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا ہوا اور یہ کسی بھی قابل اعتبار انتخابات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے ہزاروں ارکان اور رضاکاروں کے خلاف گذشتہ سال پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں۔حکومت نے حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد اپنے مخالفین کا اس مرتبہ کیا حشر کرتی ہیں۔ ماضی میں جس طرح جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے ساتھ عدلیہ کے ذریعہ جو فیصلے سامنے آئے اور ان میں سے بعض قائدین کو سزائے موت اور بعض کو سزائے قید دی گئی ۔ تین مرتبہ وزارتِ عظمی پر فائز رہنے والی خالدہ ضیاء جو بنگلہ دیش کی پہلی اور عالم اسلام کی دوسری خاتون وزیر اعظم رہیں ، عالم اسلام کی پہلی وزیر اعظم پاکستان کی محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیاء الرحمن کے دور صدارت میں خاتون اول بنگلہ دیش بھی رہیں وہ 1970ء کی دہائی میں قائم کردہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی موجودہ سربراہ ہیں ۔ خالدہ ضیاء کے خلاف بھی کئی مقدمات زیر تصفیہ ہے اب دیکھنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد اپنے دور اقتدار میں انکے مخالف کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرتی ہیں۰۰۰

سوڈان میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی جانب سے عبوری حکومت کا مطالبہ
سوڈان میں گذشتہ تین ہفتوں سے جاری مظاہروں کے دوران ذرائع ابلاغ کے مطابق 19افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ صدر سوڈان عمر البشیر نے یکم؍ جنوری کو ملک میں جاری مظاہروں کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا اور انہوں ن ے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ مظاہرین پر کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں۔سوڈان میں ایک طرف مہنگائی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں تو دوسری جانب سوڈان کی سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ مکتوب پر دستخط کرتے ہوئے صدر سوڈان عمر البشیرسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کردیں اور تحلیل کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندہ عبوری حکومت تشکیل دیں۔اس طرح ملک کی 22 سیاسی جماعتوں نے صدر جمہوریہ عمر البشیر سے حکومت اور پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے بعد عبوری حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ صدر سوڈان اس پر کس طرح کا اقدام کرتے ہیں۔ مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف توانہوں نے سختی برتنے سے منع کیا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے ملک میں امن و آمان قائم ہوجائے گاکیونکہ مہنگائی پر قابو پانا اور معاشی طور پر عوام کو مستحکم کرنا ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہے ۔

لبنان میں حکومت سازی کیلئے7ماہ سے مشاورت جاری
لبنان میں گذشتہ سات ماہ سے حکومت سازی کیلئے مشاورت جاری ہے اس کے باوجود ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوپایا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری نے کہا ہے کہ ملک طویل عرصے تک حکومت کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سات ماہ سے حکومت سازی کیلئے جاری مشاورت کے بعد انکا کہنا ہیکہ اب اس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ سعد الحریری نے متنبہ کیا کہ ملک میں معاشی صورتحال ابترہوچکی ہے اور حکومت سازی میں مزید تاخیر نقصاندہ ثابت ہوگی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بیروت میں صدارتی محل میں میشل عون اور سعد حریری نے ملاقات کے بعد کہا کہ ہم نے بہت تاخیر کردی۔ اب حکومت سازی کا عمل شروع کردینا چاہیے۔ حکومت کی تکمیل کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں کم سے کم وقت میں حکومت سازی کا عمل مکمل کرنا ہوگا اس سے قبل 13؍ دسمبر کوسعدالحریری نے کہا تھا کہ سال 2018کے آخر میں حکومت سازی کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے تا حال کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوسکی اور عوام 2019میں داخل ہوچکے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ لبنان کی حکومت کتنے دنوں میں قائم ہوجائے گی اور ملک میں معاشی استحکام اور خوشحالی کیلئے نئی حکومت کس قسم کے اقدمات انجام دیں گی۔

فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے 50 ملین ڈالر کی سعودی امداد
سعودی عرب جو عالمی سطح پر مختلف ممالک کو کئی موقعوں پر امداد فراہم کرتا رہا ہے اور فلسطینی عوام کیلئے سعودی عرب ہمیشہ سے ہی اپنی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان دنوں سعودی عرب نے فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے گذشتہ سال کے اواخر میں 50ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کااعلان کیا ہے۔ مملکت سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی امداد مشرق بعید میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود پر صرف کی جائے گی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق "اونروا" کے ہائی کمشنر بیبر کرینپول نے ایک بیان میں کہاہی کہ سعودی عرب نے ماہِ نومبر2018 کے اواخر میں فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے 50 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ امداد سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے قائم کردہ شاہ سلمان ریلیف سینٹر کی جانب سے ادا کی جائے گی۔ اس رقم کو استعمال کرنیکی نگرانی شاہ سلمان ریلیف سینٹر کے جنرل سپروائزر عبداﷲ بن عبدالعزیز الربیعہ کرینگے۔ رقم کو فلسطینی پناہ گزینوں کی تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے کاموں پر صرف کی جائے گی۔ "اونروا" کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں سعودی عرب کی جانب سے بھاری رقم بطور امداد فراہم کرنے کے اعلان پر ریاض حکومت کا شکریہ ادا کیا اور کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی امداد سے فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے ذمہ دار ادارے کو درپیش مالی بحران کے حل میں مدد ملے گی۔

شام میں امریکی فوجی انخلا کے بعد عراق کا کردار
عراقی عوام گذشتہ ربع صدی سے زائد عرصہ سے عالمی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ امریکہ اور مغربی و یوروپی اتحادی ممالک نے جس طرح عراقی عوام کی ہلاکت، معیشت کی تباہی ، اسلامی عظیم تاریخ کو تباہ و برباد کردیا اور ملک میں جس قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باعث بنی اسے ساری دنیا جانتی ہے۔اب جنگ زدہ ملک شام سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد ذرائع ابلاغ کے مطابق عراقی وزیر اعظم عادل مہدی نے کہا ہے کہ عراق کے فوجی دستے دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف جنگ میں زیادہ وسیع کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں عراقی حکومت اور شام میں صدربشارالاسد کی حکومت کے نمائندوں کے مابین دمشق میں ایک باقاعدہ ملاقات ہوئی ہے۔ عادل مہدی کا کہنا ہیکہ عراق نہیں چاہے گا کہ اسے شام سے امریکی فوج کی واپسی کے منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال ڈسمبر کے وسط میں اچانک اعلان کیا تھا کہ شام میں تعینات تمام امریکی فوجی بہت جلد واپس بلا لیے جائیں گے۔دیکھنا ہے کہ عراقی وزیر اعظم اپنی فوج کو شام میں موجود داعش کے خلاف لڑنے کیلئے کس طرح کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور اس سے کہیں پھر ایک مرتبہ عراق میں داعش اپنی سرگرمیوں میں شدت تو نہیں پیدا کرینگی ایسا ہوتا ہے تو یہ عراقی عوام کیلئے پھر سے ایک نئی مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا ۰۰۰
***
 

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 257218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.