حق خود ارادیت

حق خود ارادیت سے متعلق اقوام متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 1میں تفصیل موجود ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ ہر کسی کو حق خود ارادیت حاصل ہے۔ اس کے تحتلوگ اپنے سیاسی سٹیٹس کا آزادانہ تعین کرسکتے ہیں، آزادی سے اپنی معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی پر توجہ دے سکتے ہیں۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے نامیبیا، مغربی سہارا، مشرقی تیمور کیسز سے متعلق اسی اصول کو اپنایا۔ مگر کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کے لئے بھارت پر دباؤ نہ ڈالا جا سکا۔ آج ایک بار پھر یوم حق خود ارادیت منایا جا رہا ہے۔نریندر مودی کی سرپرستی میں بی جے پی بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کے ایجنڈے پر گامزنہے۔کشمیری طلباء، ملازمین، کاروباری افراد کا بھارت میں جینا حرام کیا گیا ہے۔ 5جنوری 1949کواقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی ۔ جس میں جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی غیر جانبدارانہ اور شفاف رائے شماری کرانے کا کہا گیا۔ لیکن بھارت کشمیر میں نام نہاد الیکشن کو ہی رائے شماری کے متبادل کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ 5جنوری 1949 کی قراداد اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت نے منظور کی۔کمیشن امریکہ کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا ۔جس کے ارکان میں ارجنٹائن،بیلجیئم،کولمبیا اورچیکو سلواکیہ شامل تھے۔کمیشن نے پاکستان اور بھارت کی جانب سے کشمیر میں رائے شماری کرانے کے اصول اور طریقہ کارتسلیم کرنے کے بعد ہی سلامتی کونسل میں قراردادپیش کی ۔قرارداد کے تحت ریاست کے الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کمیشن کی رضامندی سے رائے شماری ایڈمنسٹریٹر نامزد کریں گے۔ جو بین الاقوامی شہرت یافتہ اور قابل اعتماد شخصیت ہو گی ، اسے رسمی طور پر جموں و کشمیر گورنمنٹ رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تعینات کرے گی۔بھارت نے 23دسمبر 1948اور پاکستان نے25دسمبر1948کو اقوام متحدہ کے کمیشن کو لکھے گئے اپنے مکاتیب میں رائے شماری کے طریقہ کار کو تسلیم کیا۔بھارت اور پاکستان کی جانب سے تحریری طور پر تسلیم شدہ اصول جن کی اقوام متحدہ نے توثیق کی، کا خلاصہ ذیل میں ہے:

1۔ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے ہو گا۔2۔رائے شماری،یو این کمیشن کے 13اگست1948کی قرارداد کے پہلے اور دوسرے حصہ کے تحت انتظامات مکمل ہونے پر ہو گی۔ 3۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کمیشن کی رضامندی سے رائے شماری کرانے کے لئے ایڈمنسٹریٹر نامزد کریں گے۔ 4۔ رائے شماری ایڈمنسٹریٹر جموں و کشمیر کی حکومت سے وہ تمام اختیارات حاصل کریں گے جو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے لئے موزون ہوں گے۔
5۔ رائے شماری ایڈمنسٹریٹر اپنے معاونین اور مبصرین کے تقرر کا اختیار ہو گا۔ 6۔جموں و کشمیر سے تمام بیرونی عناصر کا انخلاء کیا جائے گا۔
7۔جموں وکشمیر کے مہاجرین کو واپس گھروں کو آنے کی آزادی ہو گی۔ 8۔تما م قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ 9۔اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان و بھارت نے قراداد میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی کرنے،جنگ بندی کی نگرانی کے لئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی اور مسلہ کشمیر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی بات کی ۔ 5جنوری 1949 کی قرارداد میں پاکستانی وزیر خارجہ ظفر اﷲ خان کے اقوام متحدہ کو مکتوب کے بعد رائے شماری کو پاکستان اور بھارت سے الحاق تک محدود کر دیا گیا۔جبکہ جموں و کشمیر کے عوام غیر محدود و غیر مشروط رائے شماری کا مطالبہ کر رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ قوم پرست جماعتیں یوم حق خود ارادیت کو احتجاجکے طور پر مناتی ہیں۔تا ہم 5جنوری 1949 کی قرارداد سے کشمیریوں کی اکژیت اتفاق کرتی ہے۔ 13اگست1948کی قراررداد کی روشنی میں آج بھی اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جنگ بندی لائن پر دونوں ممالک کے سیز فائر کی نگرانی کر رہے ہیں۔بھارت کی کوشش ہے کہ یہ فوجی مبصرین واپس چلے جائیں۔بھارتی حکمرانوں نے اس سلسلے میں اسلام آباد کو بار ہا سبز باغ دکھائے۔معاشی اور سیاسی رعایتیں دینے کا جھانسہ دیا،دوستی کی باتیں کیں،وفود کے تبادلے کئے، بیک چینل ڈپلومیسی کا سہارا لیا، لیکن بات نہ بنی۔ بھارت چاہتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے تعاون سے سلامتی کونس کے زریعے فوجی مبصرین واپس چلے جائیں۔ وہ سرحدوں کو گرم کر رہا ہے۔ اس کا زور اب جنگ بندی لائن، ورکنگ باؤنڈری پر ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایک ساتھ 2013کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل ممبر رہے ۔بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے سر گرم لابی میں مصروف ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو شکست ہو چکی ہے ۔جس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔دنیا افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دے کر اسے اس خطے کا چوکیدار بنا رہی ہے۔افغان فورسز اور پرائیویٹ ملیشیا کو بھارت تربیت دے رہا ہے۔افغانوں کو ڈیورنڈ لائن توڑنے پر تیار کیا جا رہاہے۔ پاکستان معاشی معاملات میں ایسے پھنسا ہے کہ اس کی دنیا کے تیزی سے بدلتے سنگین حالات پر شاید بہت کم توجہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کا تختہ الٹنے اور اقتدار کے حصول کی زیادہ فکر ہے۔اس صورتحال میں کشمیر ی عوام کایوم حق خود ارادیت منانا دلچسپ بات ہے۔الحاق پاکستان کے حامیوں کے لئے اس کو منانے کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ بھارت اشتعال پر اتر آیا ہے۔ جنگ پر اکسا رہا ہے۔پاکستان میں مشاورت یا کسی اجلاس کی کارروائی یا پارلیمنٹ میں بحث یا منظوری یا پارلمینٹ کی کشمیر کمیٹی کی تشکیل نو کی کارروائی میں مسلہ کشمیر پر بحث کی کسی کو فرصت نہیں۔ جبکہ اس پر بحث کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو یہ موجودہ حکومت کی مجبوریوں اور کمزوریوں کے ساتھ ساتھ حماقتوں کو آشکار کرے گا۔ ماضی کی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو گمان تھا کہ ان کا وقت ملک کے لئے سنجیدہ فیصلوں کا تقاضا نہیں کرتا ۔مگر انھوں نے کشمیر کو عالمی تنازعہ کے خانے سے اٹھا کر پاک بھارت مسائل میں ڈال کر بڑی نادانی کی۔جب کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اب بھی بھارت کی مخالفت کے باوجودجموں وکشمیر کی جنگ بندی لائن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ 5جنوری کا بھی یہی تقاضا ہے کہ یوم حق خود ارادیت کے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھا جائے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں عسکریتکم ہو چکی ہے تو پھر سات لاکھ سے زیادہ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستے رکھنے، ریاستی دہشتگردی کے تحت قتل عام، تشدد، گرفتاریوں کا کیا جواز ہے؟۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484769 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More