بالآخروہی ہواجس کاخدشہ بنگلا دیش کی تمام سیاسی پارٹیوں
نے انتخاب سے قبل عالمی میڈیاکے سامنے کئی مرتبہ کیاتھاتھایعنی بنگلا دیش
کے الیکشن کمیشن نے شیخ حسینہ واجدکو فاتح قراردے دیاہے تاہم حزب اختلاف نے
انتخابات کو مضحکہ خیزاوردھاندلی کی پیداوارقرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی
ہے اور ساتھ ہی نئے انتخابات کامطالبہ کیا ہے۔ان کی جماعت نے اب تک آنے
والے نتائج کے مطابق 350 نشستوں کے ایوان میں سے 281 نشستیں جیت لی ہیں، جب
کہ حزبِ اختلاف کے حصے میں صرف سات نشستیں آئی ہیں تاہم بڑے پیمانے پر
دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے
دیکھا کہ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ سٹیشنوں میں
لائے جا رہے ہیں۔حزبِ اختلاف کے رہنما کمال حسین نے کہا: "ہم الیکشن کمیشن
سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان مضحکہ خیز نتائج کو فوری طور پر کالعدم قرار
دے۔ ہم ایک غیر جانب دار حکومت کے زیرِ اہتمام نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے
ہیں ۔"
بنگلا دیش کے الیکشن کمیشن نے خبررساں ادارے رائٹرزکو بتایا کہ اس نے ملک
بھر سے دھاندلی کے الزامات سنے ہیں اور وہ ان کی تحقیقات کرے گا۔ پولنگ کے
دوران پر تشدد واقعات میں آخری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد بڑھ
کر 17 ہو گئی تھی جبکہ ان واقعات میں کئی درجن پولیس اہلکارزخمی بھی ہوئے
حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلا دیش نیشنل پارٹی کے ایک مرکزی
امیدوارکوچاقوؤں کے وارکرکے زخمی کردیا گیا تھا۔رائٹرز نے پولیس حکام سے
بات کر کے خبر دی تھی کہ حزب اختلاف کے امیداور صلاح الدین احمد پر حملے کی
تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔رائٹرزکے نامہ نگاروں نے پہلے ہی بتادیاتھاکہ
ان انتخابات میں پولنگ کا تناسب کم رہے گااورواقعی ایساہی ہوا۔ جنوبی ایشیا
کے بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں نے پہلے ہی اس بات کاقوی خدشے کااظہارکیاتھاکہ
ان انتخابات میں شیخ حسینہ واجد کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں کیونکہ ان
کے آزادانہ ہونے کے قطعی امکانات نہیں ہیں۔
انتخابات کے دوران تشدد کے خدشات کے پیش نظرملک گیر پیمانے پرسکیورٹی کے
سخت انتظامات کیے تھے اورتقریباًچھ لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو ملک کے طول و
عرض میں تعینات کیا تھا۔نتخابات میں تقریباً دس کروڑ لوگ ووٹ دینے کے اہل
تھے۔ ان انتخابات میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے جیتنے کے امکانات اس لئے بھی
روشن تھے کیونکہ ان کی اہم مخالف بیگم خالدہ ضیا بدعنوانی کے الزامات میں
جیل میں ہیں۔ایک سرکاری نے اپنی شناخت کوخفیہ رکھنے کی شرط پر یہ بھی
بتایاکہ ووٹنگ کے اختتام تک ہائی سپیڈ موبائل اور انٹرنیٹ مواصلات کو بند
کر دیا گیا تھا تاکہ افواہوں اور جاری دھاندلی کے نتیجے میں کوئی بدامنی نہ
پیدا ہو سکے۔ ووٹنگ سے تھوڑی دیر قبل بی بی سی اوردیگرعالمی نشریاتی اداروں
کے نامہ نگاروں نے چٹاگانگ (لکھن بازار ، چٹاگانگ، حلقہ 10) میں ایک بیلٹ
باکس کو ووٹوں سے بھرا ہوا پایا۔جب اس بوتھ کے پریزائڈنگ آفیسر سے اس کے
متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ملک کے دوسرے سب سے
بڑے شہر کے اس پولنگ سٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کے نمائندے تھے اور یہی حال
کئی دوسرے پولنگ سٹیشنوں کا تھا۔
بنگلا دیش 16 کروڑ آبادی والا مسلم اکثریتی ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے
خطرناک اثرات سے لے کر غربت و افلاس اور بدعنوانی کے مسائل سے نبرد آزما
ہے۔جولائی سنہ 2016 میں دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک بڑی بیکری پر دولت
اسلامیہ کی جانب سے کیے جانے والے دھماکے کے بعد سے حکومت نے اسلام پسندوں
کے خلاف انتہائی سختی کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ ملک حال میں پڑوسی ملک میانمارکے
لاکھوں روہنگیامسلمان پناہ گزینوں کے سبب سرخیوں میں رہا ہے۔ حکومت کی بین
الاقوامی سطح پران لوگوں کوملک میں پناہ دینے کے قدم کی تعریف کی گئی ہے
لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے اس کی سخت تنقید بھی کی جارہی ہے۔یہ
انتخابات دسیوں ہزارنوجوانوں کے مظاہرے کے بعد ہورہے ہیں جس میں انھوں نے
سڑک پر ہونے والی اموات کے خلاف احتجاج کیے تھے۔یہ بنگلادیش کے نوجوانوں کی
جانب سے غصے کے اظہارکاغیرمعمولی اقدام تھا جسے حکام اورحکومت نوازگروپوں
نے سختی سے دبادیا تھا ۔ایک17سالہ لڑکے نے اگست میں بی بی سی سے بات کرتے
ہوئے کہاتھا:"ہم صرف اتناچاہتے ہیں کہ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے جاری
بدعنوانی ختم ہواورعوامی لیگ کے نوجوانوں میں بتاشے کی طرح اسلحہ کے
لائسینس دینا بند ہوں۔پرتشددواقعات کے ساتھ انتخابی مہم کاآغاز ہوااورحکومت
نے اپنے مخالفین کی آواز دبانے کیلئے ان پر کریک ڈاؤن کیا۔ اس حکومت کے
بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ گذشتہ دس برسوں میں مزید آمریت پسند اور
استبدادی ہوئی ہے۔
شیخ حسینہ عوامی لیگ کی سربراہ ہیں اور اس پارٹی کا سنہ 2009 سے ملک میں
اقتدار جاری ہے۔ وہ تیسری بار عہدے کیلئے انتخابات میں کامیاب ہوئی ہیں۔ان
کے والد شیخ مجیب الرحمان جو ملک کے پہلے صدر تھے ،1975 میں اپنی ہی فوج کے
ہاتھوں ان کاساراخاندان قتل کر دیا گیا تھا اور تین دن تک شیخ مجیب الرحمان
کی لاش سیڑھیوں پرموجودرہی۔اس واقعے میں صرف حسینہ واجدہی بچ گئی تھیں
کیونکہ یہ اس وقت بھارت میں مقیم تھیں۔
خالدہ ضیاکی (بی این پی) نے سنہ 2014 میں گذشتہ عام انتخابات کابائيکاٹ
کیاتھا کیونکہ عوامی لیگ نے ایک نگراں حکومت کے زیرانتظام انتخابات کرانے
سے انکارکردیاتھا۔اب بہت سے تجزیہ نگاراس فیصلے پرسوال کرتے ہیں کہ آیاوہ
ہوشمندانہ فیصلہ تھا!پارٹی سربراہ خالدہ ضیا کورواں سال بدعنوانی کے
الزامات میں جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی انتقام
ہے۔ان کے تازہ جرم کے تحت انھیں رواں انتخابات میں انتخاب لڑنے سے بھی روک
دیاگیاہے۔ خالدہ ضیا کی عدم موجودگی میں عوامی لیگ کے سابق وزیر اور شیخ
حسینہ کے حلیف کمال حسین حزب اختلاف جاتیہ اویکیا فرنٹ کی رہنمائی کر رہے
ہیں جس میں بی این پی بھی شامل ہے۔بہر حال 81 سالہ وکیل جنھوں نے ملک کے
آئین کی تشکیل کی ہے وہ ان انتخابات میں امیدوار نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حزب اختلاف کی جیت ہوتی ہے تو کون ان کا سربراہ
ہوگا۔بہت سے سرگرم کارکنوں، مبصرین اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کا پولنگ سے
قبل کہنا تھا کہ یہ انتخابات صاف شفاف نہیں ہوں گے۔ بی این پی کی قیادت
والے حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات واقعی صاف شفاف ہوئے تو عوامی
ليگ کو اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس
واچ کا کہنا ہے کہ ووٹنگ سے قبل حکومت نے دھمکانے کی مہم کا سہارا لیا
ہے۔ادارے کے ایشیا ڈائریکٹربریڈ ایڈمزنے کہا:حزب اختلاف کے اہم ارکان
اورحامیوں کوگرفتارکرلیاگیا،بعض کوقتل کیاگیاہے جبکہ بعض لاپتہ بھی ہیں جس
سے خوف اورگھٹن کا ماحول پیدا ہوااوریہ کسی بھی قابل اعتبارانتخابات سے ہم
آہنگ نہیں ہے۔بی این پی کاکہنا ہے کہ ان کے ہزاروں ارکان اوررضاکاروں کے
خلاف گذشتہ سال پولیس مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ بی این پی کے ساتھ شامل
پارٹی جماعت اسلامی کو انتخابات میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی ہے لیکن
ان کے 20 امیدوار بی این پی کے امیداوارکی حيثیت سے میدان میں تھے۔
ادھرپچھلے پانچ ماہ سے بنگلا دیش میں امریکی سفارتکارپرحملے نے بھی امن
وامان کی مخدوش صورتحال کابھانڈہ اس وقت پھوڑدیاجب بنگلادیش میں واشنگٹن کی
سفیرمارسیابرنیسنٹ کے ساتھ گزشتہ گرمیوں میں ہوا،مارسیا4اگست کوڈھاکامیں
رات کے کھانے کے بعدایک پارٹی سے نکلیں تو موٹرسائیکل سواروں نے پیچھاکرکے
ان کی گاڑی پرپتھراؤکیااورنقصان پہنچائے بغیرچلےگئے۔ امریکی سفیر پرمسلح
موٹرسائیکل سوارکاحملہ کرنا کوئی عام بات نہیں ہوتیتاہم ابھی تک اس حملے
میں ملوث کسی فردکانام سامنے نہیں آسکا۔اس واقعہ سے بنگلادیش میں بڑھتے
ہوئے تشدد اورسیاسی لڑائی کااندازہ ہوتاہے،جوملک کوتبدیل کرنے کی پوری
صلاحیت رکھتاہے۔ حالیہ برسوں میں بظاہرایک جمہوری اورماڈرن مسلم ملک
میں(ڈکٹیٹرشپ)ایک جماعتی نظام نافذ ہوچکا ہے۔ واشنگٹن کے پالیسی
سازبنگلادیش پرکم ہی توجہ دیتے ہیں،اس کے باوجودحملے سے واضح ہوتا ہے کہ
امریکا کو بھی ملک کی گندی سیاست میں کھینچ لیاگیا ہے۔ امریکی سفیر پر حملے
سے کچھ دن قبل29جولائی کودونوجوانوں کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت پرپورے ڈھاکا
میں احتجاج کیاگیا، مظاہرین جن میں اکثریت طالبعلموں کی تھی حکومت سے سڑکیں
محفوظ بنانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرے تو پرامن تھے مگر مظاہرین کے خلاف
سخت کریک ڈاؤن کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ڈھاکا کے مضافات میں حکومتی
جماعت عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم کے ارکان نے مظاہرین پر حملہ کردیا، اس
دوران کوریج کرنے والے صحافیوں پر بھی تشدد ہوا اور کیمرے چھین لیے گئے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے احتجاج روکنے کیلئے یونیورسٹی کیمپس میں گھس
آئے۔ حکومت کے مظاہرین سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں الجزیرہ
کوانٹرویو دینے کے بعد سماجی کارکن شاہد عالم کو پولیس نے اٹھا لیا، مقامی
میڈیا کے مطابق دوران حراست شاہد پر تشدد بھی کیاگیا۔شاہدکوتین مہینے سے
زیادہ قیدرکھنے کے بعدبھی بنگلا دیش کے اٹارنی جنرل ہائیکورٹ کاحکم سپریم
کورٹ میں چیلنج کرناچاہتے ہیں۔ بنگلادیش میں تنقید کرنے والوں سے جابر
حکومت کارویہ ایک افسوسناک معمول بن چکا ہے،اس کیلئے کئی مواقع پر ڈھاکانے
قانون کاسہارابھی لیاہے۔پارلیمان نے ایک نیاقانون"ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘‘کے
نام سے منظور کیا ہے۔یہ قانون آن لائن اور سوشل میڈیاپرمواد کے حوالے سے
ہے، اس قانون میں مبہم الفاظ میں لکھاگیاہے کہ’’ناپسندیدہ اورجارحانہ
مواد‘‘پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ صحافیوں کا کالم پسند نہ آنے پر حکومت
ان کے خلاف بغاوت اور ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کرسکتی ہے۔ حکومت نے ریاست
کے اعلیٰ عہدوں پرموجودافرادکے خلاف بھی کاروائی تیزکردی ہے۔
گزشتہ نومبر میں سپریم کورٹ نے ججوں کی برطرفی کے اختیار کے حوالے سے
حکومتی آئینی ترمیم کو مسترد کردیا، جس کے بعد حکومت نے عدالت کے فیصلے
پرشدیدغصے کااظہار کیا اور چیف جسٹس سورندرکمارسہناکوبیرون ملک جانے
پرمجبورکردیا۔ بعد میں حکومت نے دعویٰ کیاکہ وہ چیف جسٹس پربدعنوانی کے
الزام میں مقدمہ چلاناچاہتی تھی۔ بعد ازاں بنگلادیش کے احتساب بیورونے
اعتراف کیاکہ چیف جسٹس کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ اب
جسٹس سہنا امریکی حکومت سے پناہ طلب کررہے ہیں۔
بنگلادیش کی موجودہ جمہوریت انتہائی خوفناک ہے۔ ’’رپورٹر وِد آؤٹ
بارڈر‘‘کے مطابق آزادی صحافت میں بنگلادیش کانمبر180ممالک میں144واں
ہے۔2014ءسے2017ء کے درمیان ’’اکنامک انٹیلی جنس یونٹ‘‘کے جمہوری انڈکس
میں167ممالک میں بنگلادیش85 سے 92 نمبر کے درمیان رہا۔ سب سے بدترین تجزیہ
مارچ 2018ء میں سامنے آیا،جب’’برٹلس مین‘‘رپورٹ میں بنگلادیش کوآمریت کی
درجہ بندی میں شامل کرلیا گیاکیونکہ وہ جمہوریت کے کم ترین
معیارپرپورااترنے میں ناکام رہا تھا،جیسے شفاف الیکشن۔2014ء کے انتخابات
میں عوامی لیگ دوبارہ منتخب ہوئی توکئی بیرونی مبصرین نے انتخابات کوناقابل
اعتبارقراردیا۔ یہاں تک کہ انتخابات کی نگرانی کیلئے یورپی یونین نے تواپنے
مبصرین بھی بھیجنے سے انکارکردیا۔ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ’’ بی این
پی‘‘نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے الیکشن
کرانے کیلئے نگراں حکومت قائم کرنے کے قانون کاخاتمہ کرناتھا۔ حزب اختلاف
کے بائیکاٹ پر300 میں سے 153نشستوں پر امیدواربلامقابلہ منتخب ہوگئے،یعنی
پارلیمان کی آدھی سے زیادہ نشستوں پر انتخابات ہی نہیں ہوئے۔گزشتہ چار
برسوں میں حکومت نے حزب اختلاف کو کچل کررکھ دیا۔ اپوزیشن جماعتوں بی این
پیاورجماعت اسلامی کے ارکان کوجیل بھیج دیاگیاہے۔ حکومت اپنے کریک ڈاؤن
کوجائزبنانے کیلئے اس کوانسداد دہشتگردی مہم کانام دیتی ہے۔ حکومت کے مطابق
جماعت اسلامی کے جماعت المجاہدین سے تعلقات ہیں،جو ایک دہشتگرد تنظیم ہے،
جس نے حالیہ عرصے میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔حزب اختلاف بھی
سیاسی تشددکاراستہ اختیار کرتی ہے۔2014ء میں انتخابات کے خلاف پرتشدد
احتجاج کے دوران لندن میں بنگلادیشی سفارت خانے کو نقصان پہنچا، لیکن ان
کادہشتگر دوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ڈھاکا حکومت کے اقدامات نے رہنماحزب اختلاف خالدہ ضیاءاوروزیراعظم حسینہ
واجد کے درمیان طویل تلخ تعلقات کوانتہائی زہریلابنادیاہے۔ حکومت
اوراپوزیشن میں سے کوئی بھی مفاہمت کرنے کیلئے تیارنہیں۔ حالیہ انتخاب میں
بنگلادیش ایک جماعتی ریاست بن کررہ گیاہے۔ گزشتہ فروری میں رہنماحزب اختلاف
خالدہ ضیاء کوبدعنوانی کے الزام میں گرفتارکرکے جیل بھیج دیاگیا۔ بی این پی
نے خالدہ ضیاء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اس کوانتخابی دھاندلی قراردیا۔
پارٹی رہنماؤں کاکہنا تھاکہ اگرخالدہ ضیاء کورہانہیں کیا گیا توالیکشن کا
بائیکاٹ بھی کر سکتے ہیں۔ نیشنلسٹ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کوبھی شدید
دباؤکاسامناہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما ’’مرزا فخر الاسلام‘‘نے اکتوبرمیں
ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیاتھاکہ پارٹی کے خلاف 30دن میں 4100 مقدمات
درج کیے گئے ہیں۔ اس دوران حسینہ واجد نے توقع کے مطابق اعلان کیا کہ
انتخابات کے انعقاد کیلئے حالات سازگار ہیں۔ بنگلادیش کے چیف الیکشن کمشنر
کا کہنا تھاکہ میں منصفانہ انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ رواں برس کئی
جگہوں پر بلدیاتی انتخابات ہوئے اور پولنگ کے دوران بے قاعدگیوں کی شکایات
سامنے آئیں۔
امریکی پالیسی سازوں کیلئے بنگلادیش میں غیر جمہوری طاقتوں کا مضبوط ہونا
خاص معاملہ نہیں۔ موجودہ دور میں مضبوط لیڈر اور آمرانہ رجحانات دنیا بھر
میں پروان چڑھ رہے ہیں، جس میں خود امریکا بھی شامل ہے۔ امریکی سفیر پر
حملے سے واضح ہوگیاتھا کہ امریکا بنگلادیش کی سیاست کے گرداب میں پھنس گیا
ہے، یہ واشنگٹن کیلئے مکمل طور پر حیران کن نہیں تھا۔ حملے سے قبل امریکی
سفارتخانے اورحکومت کے درمیان کشیدگی موجودتھی،امریکی سفیرنے حکومت پرکھلے
عام تنقید کی تھی،جون میں نیشنل پریس کلب میں تقریرکے دوران امریکی سفیرنے
بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن رہنما کوالیکشن لڑنے پردھمکیاں دینے کی خبروں
پرتشویش کااظہارکیاتھاجس کے جواب میں وزیراعظم حسینہ واجد کے بیٹے نے فیس
بک پیغام میں امریکی سفیرکو بی این پی کا ترجمان قراردے دیاتھا۔امریکی
سفیرپرحملے کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی حکومت نے امریکی سفارت خانے پرتنقید
بھی کی۔ حملے کے ایک دن بعدوزیر اطلاعات حسن الحق نے امریکا پرداخلی
معاملات میں مداخلت کرنے کاالزام عائد کیا۔ یکم اگست کووزیر قانون انیس
الحق نے امریکی سفیر پر حکومت کوکمزور کرنے کی سازش کاالزام عائدکیا۔ حملے
کے بعد امریکی سفارتخانے کے فیس بک پرجاری بیان میں پرامن احتجاج کے حق کی
حمایت اورمظاہرین کے خلاف پرتشدد حکومتی کریک ڈاؤن پرتنقید کی گئی۔اب بھی
امریکی سفارت خانے کی جانب سے حکومتی پالیسی پر تحفظات کے اظہارکاسلسلہ
جاری ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی سفیرکی جانب سے’’ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘‘کے ذریعے
آزادی اظہار رائے کو جرم بنادینے کے خدشے کااظہارکیا گیا۔
ڈھاکا میں مارسیا برنیسنٹ کی امریکی سفیر کی حیثیت سے مدت مکمل ہونے والی
ہے۔ بنگلادیش کی سیاسی کشیدگی اب براہ راست واشنگٹن کوبھی متاثرکررہی
ہے۔ستمبر میں کئی دن تک بی این پی کے عالمگیر نے واشنگٹن کا دورہ کرکے اہم
شخصیات، پبلک ریلیشن فرم کے سامنے اپنی پارٹی کامقدمہ پیش کیا۔ اس دوران
ڈھاکاسے حکومت نے بنگلادیش پرنظررکھنے والوں کو ای میل پیغام بھیجا، جس میں
ڈھاکا حکومت کی کئی کامیابیوں،آزادمیڈیا اورحکومت کوحاصل وسیع عوامی حمایت
کاذکرکیا گیا۔ان پیغامات میں حکومت پرتنقید کرنے پرسماجی کارکن شاہد عالم
کی گرفتاری کا دفاع بھی کیاگیا اوردعویٰ کیاکہ’’اس نے جوکچھ کہاتھا،وہ
خطرناک جھوٹ تھا‘‘۔ اسی دن مختلف پبلک ریلیشنز گروپس نے بنگلادیش
پرنظررکھنے والوں کوبڑے پیمانے پران بکس پیغامات بھیجے جس میں حکومت کے
دعوؤں کی تردید کی گئی۔ سب سے پہلے ڈھاکا حکومت کی نمائندگی کرنے والی ایک
تنظیم نے دوپہر کے کھانے کے وقت حکومتی کامیابیوں کے حوالے سے پیغامات
بھیجے۔ جس کے چند گھنٹے بعد بی این پی کے ایک گروپ نے ’’بنگلادیش میں
جمہوریت کیسے تاریک ہوئی‘‘کے پیغامات بھیجے۔ لگتا ہے کہ واشنگٹن بنگلادیش
کی حکومت اوراپوزیشن کے درمیان جاری بیانیے کی جنگ کا میدان بن گیا ہے
اورکسی بھی وقت میدان گرم ہوسکتاہے۔ اس تمام صورت حال میں ٹرمپ انتظامیہ
کااپنانقطۂ نظر ہے۔
بنگلادیش میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ ریاست کے خلاف غصہ ہے
اورانتہاپسندعناصر اس کافائدہ اٹھاتے ہیں۔ بنگلادیشی اسلام پسندوں اورداعش
کے مقامی حامیان کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی جاتی ہے،ان عناصر
کے خلاف گزشتہ دو برس سے بڑے پیمانے پر ریاستی کریک ڈاؤن جاری ہے،جس سے
اسلام پسندوں کو نقصان پہنچاہے۔ حکومت کے اپوزیشن کے خلاف جابرانہ اقدامات
سے انتہاپسندی کی نئی لہرپیداہونے کاخطرہ ہے۔انتخاب اگرغیر منصفانہ ہوئے
توحزب اختلاف کی جانب سے حکومت کی مخالفت اوربڑھ جائے گی، اپوزیشن میں ایسے
عناصر بھی شامل ہیں جو پرتشدد کاروائیوں میں ملوث ہیں اوران کے دہشتگردوں
سے خفیہ تعلقات بھی ہیں۔ یہ صورتحال امریکاکیلئے انتہائی تشویش ناک ہونی
چاہیے کیونکہ امریکا طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں استحکام کواپنا عظیم
ترین مفاد سمجھتا ہے۔خیال کیاجاتاتھاکہ واشنگٹن کی طرف سے بنگلادیش پردرست
اقدامات کیلئے دباؤڈالاجا سکتاہے، جیسے الیکشن کی نگرانی کیلئے حکومت
اورحزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل نگراں حکومت کا قیام اور الیکشن سے قبل
پارلیمان کوتحلیل کرنالیکن امریکی سفارت خانے اورڈھاکا حکومت کے درمیان
کشیدگی کی وجہ سے امریکی دباؤکارگرثابت نہیں ہوااوربنگلادیش میں انتہائی
سیاسی کشیدگی کے ماحول میں حکومت سے اس طرح کے اقدامات کی امید کرنابہت بڑی
بے وقوفی تھی۔
اس وقت بنگلادیش میں جمہوریت درمیان میں جھول رہی ہے اور30دسمبرکوہونے والے
انتخابات کے بارے میں جن خدشات کااظہارکیاگیاتھااس سے بھی بڑھ کردھاندلی کے
ثبوت سامنے آ رہے ہیں ۔چند ہفتے قبل میری عوامی لیگ اور بی این پی کے
نوجوان کارکنان کے گروپ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے میری کئی باتوں سے اختلاف
کیا،مگرحیران کن طورپروہ میری ایک بات سے متفق تھے ’’آزادانہ اورمنصفانہ
انتخابات ہی ملک کوبہتری کی طرف لے جاسکتے ہیں۔‘‘اس حوالے سے چند ماہ قبل
ایک سروے بھی کیاگیاتھا،جس سے پتالگا کہ جمہوریت کے استحکام کیلئے حکومتی
کارکردگی پرعوام کاعدم اعتمادبڑھتاجارہاہے اورعوام کی بڑی تعداد انتخابات
میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ رائے عامہ کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ
بنگلادیشیوں کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون میں اضافہ چاہتی
ہے۔ حالیہ دنوں میں عوامی لیگ اوربی این پی کے سابق اوربڑے رہنماؤں
پرمشتمل نیااتحاد’’جاتیااوکیان فرنٹ‘‘کے نام سے تشکیل دیاگیاتھا، جس سے
دوجماعتوں کی لڑائی میں پھنسے عوام کیلئے ایک تیسرے راستے کی امید پیدا
ہوئی تھی۔تاہم عوامی لیگ کی جانب سے اوکیان فرنٹ سے انتخابات
پردوبارمذاکرات کیے گئے مگر دونوں کسی نتیجے پرنہیں پہنچ سکے تھے۔
بنگلادیشیوں میں قابل اعتبارانتخابات اورسیاسی ہم آہنگی کے ماحول کی جس
قدر شدید طلب موجود تھی اسی قدربدقسمتی سے حسینہ واجدنے نہ صرف جمہوری
قوتوں کی خواہشات کوشدیدنقصان پہنچایابلکہ ایک مرتبہ پھردھاندلی کرکے ثابت
کردیاکہ اپنے مربی ہندوبنئے کی مددسے بنگلادیش کوبھارت کی کالونی بنانے میں
اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ |