آلوک ورما کے معاملے میں مودی سرکار کی خواری قابلِ دید
ہے۔ یکم فروری ۲۰۱۷ کو انہیں سی بی چیف کے عہدے پر فائز کیا گیا ۔۳۱ جنوری
۲۰۱۹ کو وہ سبکدوش ہونے والے تھے لیکن اس سے ۹۹ دن قبل اچانک نوٹ بندی کی
مانند نصف شب میں تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر مودی جی نے ان کی
چھٹی کردی۔ ایسا لگتا ہے وزیراعظم نے سی بی آئی کو اپنی چائے کی دوکان
سمجھ لیا تھا کہ جب چاہا جسے چاہانکال دیا اور جس کو مرضی میں آیا سربراہ
بنادیا۔ مودی جی اگر ۹۹ دن صبر کرلیتے ۔ آلوک ورما نےاگر رافیل گھوٹالے کی
فائلیں بھی طلب کرلی تھیں تو انہیں ٹال مٹول کرکے سنبھال لیتے تو یہ نوبت
نہیں آتی لیکن ایسے ظرف کا سنگھ پریوار میں شدید فقدان ہے۔ جن لوگوں میں
تھوڑی بہت پخگیی موجود ہے مودی جی کو ان سے خدا واسطے کا بیر ہے اس لیے
سارے احمقانہ فیصلے وہ خود کرتے ہیں اور پھر اس طرح ان کا خمیازہ بھگتنا
پڑتا ہے ۔ اس سے نہ صرف سرکار کے ذریعہ نامزدکردہ عبوری سی بی آئی چیف کو
بے آبرو کرکے ہٹا دیا جاتا ہے بلکہ حکومت کے سینے پر مونگ دلنے والے سی بی
آئی چیف کو بحال کردیا جاتا ہے۔ اس کامیابی کے بعد اگر آلوک ورما اپنی
سبکدوشی کے بعد سیاست میں قدم رکھیں گے تو لوگ اروند کیجریوال کو بھول
جائیں گے۔
عدالتِ عظمیٰ میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم
جوزف کی بنچ نے گزشتہ سال۶ دسمبر کو آلوک ورما کی عرضی پر سماعت پوری کر دی
تھی لیکن نہ جانے کیوں فیصلہ محفوظ کردیا گیا۔ اس کے ۳۳ دنوں کے بعد چیف
جسٹس رنجن گوگوئی کی عدم موجودگی میں جسٹس کول اور جسٹس جوزف نےیہ تاریخی
فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف آلوک ورما کو بحال کیا بلکہ ان جگہ نامزد کردہ
ایم ناگیشور راؤ کوبرخواست کردیا۔ سپریم کورٹ نے اپنا یہ فیصلہ ضابطے
کےمطابق سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا ہے جہاں سی جے آئی، وزیر اعظم اور حزب
اختلاف کے رہنما ایک ہفتے اندر یہ طے کریں گے کہ ورما کو ان کے عہدے سے
ہٹایا جانا چاہیئے یا نہیں۔ اب ظاہر ہے حزب اختلاف کے رہنما کھڑگے تو اس کی
اجازت نہیں دیں گے اس لیے اگر خدا نخواستہ آلوک کمار کو ہٹایا بھی گیا تو
وہ فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں ہوگا اور ایک نیا تنازع کھڑا ہوجائیگا ۔
وزیراعظم اور سی اے جی میں موجود بی جے پی ارکان کی بھلائی اسی میں ہے کہ
اب اصرار کے بجائے اعراض کا راستہ اختیار کریں ۔ ان ۲۳ دنوں میں کوئی پرلیہ
(قیامت) نہیں آنے والااس لیے دھیرج رکھیں ۔ اس طرح حواس باختہ ہونے کی
چنداں ضرورت نہیں ہے۔
جانچ بیورو کے ڈائریکٹر آلوک ورما کے ذریعہ اسپیشل ڈائریکٹرراکیش استھانا
پر لگائے جانے والے بدعنوانی کےالزامات کےبعد حکومت کو چاہیے تھا کہ
مؤخرالذکر کو عارضی طور پر معطل کرکے ان کے خلاف
تفتیش کا آغاز کیا جاتا ۔آلوک ورما کی سبکدوشی کے بعد اپنے من پسند آدمی
کو سربراہ بنا کر استھانا کو بچا لیا جاتا ۔ کانگریس یا کوئی پارٹی اقتدار
میں ہوتی تو یہی کرتی لیکن مودی سرکارنے ۲۳ اکتوبر کو ہڑ بڑاہٹ کے عالم
دونوں افسروں کوجبری رخصت پر روانہ کردیا۔ یہ معاملہ جب عدالت عظمیٰ میں
پہنچا تو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے حکومت نے کہا اعلیٰ ترین ایجنسی کے
افسران بلیوں کی مانند لڑنے لگے تھے اور خدا جانے یہ لڑائی کہاں تک جاتی اس
لیے مجبوراً یہ اقدام کرنا پڑا ؟ سرکار کے اس موقف نے بد عنوانی کے الزامات
کا شکار سی بی آئی کی پوری طرح مٹی پلید کردی ۔ عدالت عظمیٰ نےسی بی آئی
کا وقار بحال کرنےکی خاطر سی وی سی تفتیش کی نگرانی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ
جج اے کے پٹنائک کو سونپی دی تھی۔
آلوک ورما نے اگر راکیش استھانہ کے علاوہ کسی اور افسر کے خلاف کارروائی
کی ہوتی تو شاید سرکار اس معاملہ کو نظر انداز کردیتی ۔ راکیش استھانہ مودی
جی کے منظور نظر تھے ۔ سی بی آئی کے دوسرے نمبر کے افسر آرکے دتہ کا
وزارت داخلہ میں تبادلہ کرکے انہیں گودھرا سے خاص مشن پر لایا گیا۔ ان کی
آمد سے قبل دتہ کو ورما کا ولی عہد سمجھا جارہا تھا مگر راکیش استھانہ کو
لاکر عبوری سربراہ بنادیا گیا۔ معروف وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت عظمیٰ میں
استھانہ کے تقرر پر اعتراض داخل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فروری ۲۰۱۷
میں آلوک ورما کو سی بی آئی کا سربراہ بنایا گیا ورنہ تو استھانہ کے لیے
زمین ہموار کردی گئی تھی۔ آلوک ورما نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد استھانہ
کے خصوصی ڈائرکٹر کےعہدے پر تقرر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا ان پر لگے
الزامات کے سبب وہ سی بی آئی میں رہنے کے لائق نہیں ہیں۔ وہیں سے اس
مہابھارت کا آغاز ہوا جس میں پہلے سی بی آئی کا وقار اور پھر مودی سرکار
کاآہنکار(انا) بلی چڑھ گئے۔ راشٹر کی اس مہان سیوا کے لیےپردھان سیوک
ہمیشہ یاد کیے جائیں گے ۔ بقول شاعر؎
اب بھی آتی ہے تری یاد پہ اس کرب کے ساتھ
ٹوٹتی نیند میں جیسے کوئی سپنا دیکھا |