وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے

"وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے
ہم جو سن نہ سکے، زندہ ہیں"
دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، انسان کے چاند اور مریخ پر پہنچنے کے دعوے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اور عالمی عدالتِ انصاف کے موجود ہونے کے باوجود اگر کہیں بچے بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مر رہے ہوں، تو یہ پوری انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ غزہ، جہاں کے بچوں کے پیٹ میں نوالہ نہیں، زخموں پر مرہم نہیں اور پیاس بجھانے کے لیے پانی تک نہیں، وہاں انسانی زندگی کی تذلیل نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے سلادیا ہے۔
غزہ پٹی کو اکثر "دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل" کہا جاتا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ناکہ بندی، دوسری طرف مصر کی سرحدی بندش، اور تیسری طرف خاموش عالمی برادری۔ یہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ بچے ہیں، جن کے لیے تعلیم، غذا، دوا اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات خواب بن چکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF اور WHO کی رپورٹس کے مطابق
2024 کے اختتام تک غزہ کے 95 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہو چکے تھے۔
غذائی قلت کی وجہ سے ہر دوسرا بچہ جسمانی اور دماغی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
طبی سہولیات کی تباہی نے زچگی، بچوں کی ویکسینیشن اور عام بیماریوں کے علاج کو ناممکن بنا دیا ہے۔
بھوک، پیاس اور دوا کی قلت سے مرنے والے بچے نہ تو کسی جنگی محاذ پر ہیں، نہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے، ایک ایسی سرزمین پر جہاں زمین سے زیادہ قبرستان آباد ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے اسپتالوں، ایمبولینسوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنانا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم نسل کشی کی کوشش ہے۔ خوراک کی ترسیل کو روکا گیا، فلاحی اداروں کے قافلوں پر حملے کیے گئے، اور بجلی و ایندھن کی بندش نے اسپتالوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
غزہ میں دوا نہ ہونا صرف بیماریوں کا نہ علاج ہونا نہیں، بلکہ موت کی باقاعدہ اجازت ہے۔ نیو بارن یونٹ میں آکسیجن ختم ہو جائے تو وہ نومولود جو ماں کی آغوش میں کھیلنے سے پہلے دنیا کو الوداع کہہ دے، وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کینسر، گردے کی بیماری، شوگر، ہارٹ اور دیگر لاعلاج مریض دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ یا تو دوا نہیں، یا ڈاکٹر مار دیے گئے۔
جب ایک بچہ بھوک سے بلک بلک کر دم توڑتا ہے اور دنیا صرف سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے جذباتی ہو کر خاموش ہو جاتی ہے، تو یہ ضمیر کی نیند کی دلیل ہے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلامی دنیا کی حکومتیں، سب کے سب صرف مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔ انسانیت کے علمبردار ممالک نے اس ظلم کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی پابندیاں لگائیں۔
"جو ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے، وہ بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔"
غزہ کا یہ ظلم آنے والی نسلوں کے لیے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک وہ جو ظالم کے ساتھ ہے، اور دوسرا وہ جو مظلوم کا ساتھ دینے کی جرات نہیں رکھتا۔ تیسرا طبقہ، جو واقعی بیدار اور باعمل ہے، نہایت کمزور اور بےاثر بنا دیا گیا ہے۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 232 Articles with 202023 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.