میزائلوں کی جنگ میں دنیا منٹوں میں تباہ ہو جائے گی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا میں جتنی ترقی ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے،اس سے
انسانی زندگی میں کافی سہولتیں میسر آگئی ہیں۔ اب دنیا بھر سے رابطہ محض
لمحوں کی بات ہے۔ لیکن اس حیرت انگیز ترقی اور انقلاب کے پیچھے ایک طوفان
بھی چھپا ہے۔ اب دنیا میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ بھی انسانی جان ہی ہے۔ دنیا
بھر میں ایٹمی اسلحہ کے حصول کی جو دوڑ لگی ہے اور دشمن پر پیشگی حملہ کا
جو تصور سامنے آیا ہے،وہ انتہائی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی غلطی
لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کو منٹوں میں ماضی کی داستان بنا سکتی ہے۔
مستقبل میں لڑی جانے والی جنگیں سالوں یا مہینوں پر محیط نہیں ہوں گی بلکہ
میزائل کا ایک بٹن دبانے سے دشمن کا قصہ ختم ہو جائے گا۔ اس میں شدت سرد
جنگ کے زمانے میں پیدا ہوئی،جب دنیا امریکی اور روسی بلاکوں میں بٹی ہوئی
تھی اور دونوں ملکوں نے انسانی تباہی کے جو ایٹمی ہتھیار بنائے اگر ان میں
سے چند ہی چل جاتے تو آدھی سے زیادہ دنیا کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ روس
کے ٹوٹنے کے بعد اب تک امریکا دنیا بھر سے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے اور
میزائل سسٹم کو ناکارہ بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ یہ بھی دوعملی
کا مظاہرہ ہے کہ امریکا ایک طرف ایٹمی ٹیکنالوجی کو روکنے کی دھمکیاں دے
رہا ہے اور دوسری طرف وہ خود اپنے میزائل ڈیفنس پروگرام کو خاصی ترقی دے
چکا ہے۔ جنوری2004ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی
تعداد 10640ہے، ایک اور رپورٹ میں تعداد 10585 بتائی گئی ہے۔ امریکا نے یہ
اعلان بھی کیا تھا کہ2002ء تک ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کر دی جائے گی لیکن
ابھی تک اس پرعملدرآمدنہیں ہوسکا۔ امریکا کا میزائل سسٹم ایٹمی ہتھیاروں کو
تیرہ ہزار کلو میٹر تک اپنے نشانے پر پہنچا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آئی سی بی
ایم ہتھیاروں کی تعداد500 ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیفنس سسٹم کسی بھی ملک کے
ایٹمی میزائل کو فائر ہونے کے بعد منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس مقصد کیلئے امریکا نے ایسے تمام ممالک کے
قریب اپنے اڈے قائم کر لیے ہیں جو ایٹمی قوت بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں
یا بن چکے ہیں۔
26اپریل 2004ء کو فرانس،رومانیہ،روس،اسپین،برطانیہ،شمالی آئرلینڈ اور
امریکا نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد نمبر1540 پیش کی
تھی۔28اپریل کو اس کی منظوری دے دی گئی، جس میں ایٹمی کیمیائی اور جراثیمی
ہتھیار اور ان کے آلات کا کاروبار کرنے والوں کو سزا دینے کی حمایت کی۔ اس
قرارداد کے تحت اقوامِ متحدہ کے تمام 191 رکن ممالک نے بڑے پیمانے پر تباہی
پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور آلات
کا کاروبار کرنے والے افراد کو سزا دینے کے پابند تھے۔ اس حوالے سے سابق
امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکا
کیلئے واضح حکمتِ عملی اپنائی اور اپنی میزائل دفاع پالیسی کا اعلان کیا
اور 2000ء سے2005ء تک کے عرصے کیلئے چھ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکا کو اپنے دفاع پر سب سے زیادہ رقم خرچ
کرنا پڑی۔ چنانچہ اس نے میزائل سسٹم کو زیادہ کامیاب اور بہتر بنانے پر
توجہ دی۔ اس وقت امریکاکافوجی بجٹ دنیا کا سب سے بڑا بجٹ ہے،جس کیلئے
تقریباًچارسوارب ڈالر مختص کیے گئے۔ جبکہ روس نے اس مد میں 65/ارب ڈالر،چین
نے47/ ارب ڈالر،جاپان نے 42/ارب ڈالر، برطانیہ نے 4ء38/ ارب ڈالر،فرانس
نے5ء29/ارب ڈالر،جرمنی نے 9ء24/ ارب ڈالر،سعودی عرب نے 3ء21/ ارب ڈالر،اٹلی
نے 4ء19/ ارب ڈالر دفاع پر خرچ کیے۔ جبکہ درجنوں ممالک ایسے ہیں جو فوجی
ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ایک ارب ڈالر سے بھی کم رقم خرچ کر رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت تک 128000 ایٹمی وار ہیڈ بنائے گئے ہیں،جن میں
صرف روس نے 55000ایٹمی ہتھیار بنائے تھے جو کل ایٹمی وار ہیڈ کا 43 فیصد
تھے۔ 1940ء سے 1995ء تک امریکا 5ء3ٹریلین ڈالر ایٹمی جنگ کی تیاری پر خرچ
کر چکا ہے۔ امریکا نے حال ہی میں روس کو کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کیلئے
45 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم دی ہے جو دنیا میں میزائل سازی کے حوالے سے سب سے
خطرناک ملک شمار کیا جاتا ہے۔ روس 1949ء میں ایٹمی طاقت بنا تھا۔ سرد جنگ
کے خاتمہ کے بعد اس نے اپنا ایٹمی پروگرام محدود کر دیا۔ اقتصادی بدحالی کے
بعد وہ اپنے پروگرام کو جاری رکھنے کے قابل نہیں ہے۔ اس وقت بھی روس کے پاس
جو میزائل ہیں وہ بارہ ہزار کلو میٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اسٹارٹ ٹو معاہدے کے تحت روس اور امریکا نے اپنے 3500تباہ کن ایٹمی ہتھیار
ضائع کر دیےجبکہ 24مئی 2000 ء کو ہونے والے ماسکو معاہدہ میں انسانی تباہی
کا سبب بننے والے 1500سے 2200 کے درمیان خطرناک ایٹمی میزائل اور ہتھیار
2012ء تک ضائع کر دینے کااعلان بھی کیاگیاتھا۔ اس وقت روس کے پاس اسٹراٹیجک
نیوکلیئر ہتھیاروں کی تعداد پانچ ہزار ہے جبکہ 3400 روایتی ایٹمی ہتھیار
ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر 7400 ایٹمی ہتھیار اور میزائل اب بھی روس کے پاس
ہیں۔ سرد جنگ میں شکست کھانے کے بعد روس ابھی تک متحرک ہے۔
بھارت،ایران اور عراق کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس پر الزام لگایاجاتا
رہا ہے کہ وہ ان ممالک سے تعاون کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں روس نے امریکا سے
شدید الفاظ میں ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی مخالفت ہی نہیں بلکہ وہ
ایران کے ایٹمی پروگرام میں مکمل تعاون کر رہا ہے۔ روس نے واضح کیا ہے کہ
ان کا ایران کے ساتھ تعاون محض اس لیے ہے تاکہ ایران کی توانائی کی ضرورت
کو پورا کیا جاسکے۔
شمالی کوریا نے ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں میں خاصی ترقی کی ہے۔ ایک
امریکی ترجمان نے 1980ء میں انکشاف کیا تھا کہ شمالی کوریا ایٹمی ہتھیار
بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے اور 1986ء میں امریکا کے رسالے"آرمی
سائنسٹفک اینڈ ٹیکنیکل اینٹیلیجنس بولیٹن"میں بھی یہ انکشاف واضح طورپر کیا
گیا تھا کہ اس نے کیمیکل ہتھیار وسیع پیمانے پر بنانا شروع کر دیے ہیں اور
آنے والے بیس سالوں میں وہ حیرت انگیز ترقی کرے گا۔ اس حوالے سے بھارت پر
الزام لگایا گیا تھا کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام میں بھرپورمدد کی
ہے۔اس سلسلہ میں کچھ بھارتی کمپنیوں پر امریکا نے پابندی بھی لگائی تھی اور
اب صورتحال یہ ہے کہ شمالی کوریا نے میزائل ٹیکنالوجی میں اس حد تک ترقی کی
ہے کہ امریکا اس کے میزائل پروگرام کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھنے لگا
ہے اور اس نے اپنا بیلسٹک میزائل سسٹم بھی جدید ٹیکنالوجی پر استوار کر لیا
ہے۔ امریکا کے اسلحہ کنٹرول کے اعلیٰ عہدیدار اسٹیفن ریڈ میکر نے دسمبر
2004ء میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شمالی کوریا
کسی بھی وقت لمبے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کر سکتا
ہے جو وار ہیڈ کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور امریکا کے کئی حصوں تک
مار کر سکتا ہے۔ جس میزائل کا ذکر اسٹیفن ریڈمیکر نے کیا تھا اس کے بارے
میں بتایا گیا تھا کہ تین مرحلوں پر مشتمل یہ میزائل 15 ہزار کلو میٹر تک
کئی سو کلو گرام کے لوڈ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو امریکا کے کئی شہروں
کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس انکشاف کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ نے اپنا
رویہ تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکا شمالی کوریا کے خلاف جارحانہ
عزائم نہیں رکھتا اور نہ ہی اس پر حملے کا کوئی ارادہ ہے۔ شمالی کوریا کی
سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نے 2004ء میں 2100
مرتبہ شمالی کوریا میں اپنے جاسوس طیارے بھیجے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد شمالی
کوریا سے جنگ نہ کرنے کے بیانات محض دھوکا ہیں۔ حال ہی میں یہ بھی انکشاف
ہوا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس پانچ سواسکڈ میزائل،سو کے قریب "نوگونگ "میزائل
اور دس(1)پائیکوسن ہیں لیکن عام طور پر اس کے جس ایٹمی میزائل کو عالمی سطح
پر تشویش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ،وہ"ٹائپو ڈونگ" ہیں میزائل،جو انتہائی
خطرناک ہے اور زبردست تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
اکتوبر 2000ء میں شمالی کوریا اپنا میزائل پروگرام بند کرنے پر رضامند
ہوگیا تھا۔ یہ رضامندی امریکا کی اس وقت کی وزیرِ خارجہ میڈیلن البرائٹ نے
شمالی کوریا کے لیڈر جونگ ول سے ملاقات کے بعد ظاہر کی تھی،اس ملاقات میں
انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کا ایک خط بھی پہنچایا تھا۔ اس کے
بعد شمالی کوریا کی حکومت نے اپنے رویے سے بھی ثابت کیا کہ وہ اپنے وعدے پر
قائم ہے۔ جارج ڈبلیو بش نے صدر بننے کے بعد شمالی کوریا پر نہ صرف دباؤ
ڈالا بلکہ حملہ کرنے کے اشارے بھی دیے تھے۔ انہوں نے 20فروری 2002ء کوجنوبی
کوریا کے صدر کم ڈائی جون سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے
اس عزائم کا اظہار کیا کہ وہ عوام کی آزادی اور بیرونی دنیا سے مذاکرات کی
شمالی کوریا کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ جس کے جواب میں شمالی کوریا کی حکومت
نے امریکی صدر سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنے میزائل پروگرام
کو پرامن قرار دے کر اس کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ شمالی کوریا کی حکومت
کے ترجمان نے یہ دھمکی دی کہ جارحیت کی گئی تو امریکا کو 1950ء کے عشرے سے
بھی زیادہ رسوا کن شکست دیں گے۔
8جنوری 2003ء کو شمالی کوریا کے رہنما کم یانگ ای نے دھمکی دی کہ وہ اپنے
ایٹمی پروگرام اور جراثیمی ہتھیار ہمسایوں اور امریکا کے خلاف استعمال کریں
گے جو ٹائم اسکوائر اور وہائٹ ہاؤس کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ اس بیان
سے قبل نیوز ویک نے کم یانگ اور شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں
ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شمالی کوریا کو
چند لاکھ افراد ہلاک کرنے میں کوئی عار نہیں ہو گا۔ اس وقت شمالی کوریا سے
جاپان کو بھی خطرہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان پرانی محاذ آرائی ہے۔ اس وقت
جاپان عالمی اتحاد کا ممبر ہے جبکہ شمالی کوریا اس اتحاد کے مخالفین میں
نمایاں ہے۔اس وقت کے جاپانی وزیراعظم جونی چیروکوئزومی نے 22مئی2004ء کو
شمالی کوریا کا دورہ کیا تھا،جس کا جواب حکومت نے سرد مہری سے دیا،خود
جاپان کے اخبارات نے وزیراعظم پر تنقید کی کہ اگر اسے اس دورے سے کوئی
فائدہ نہیں ہو سکتا تھا تو انہیں شمالی کوریا کا سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔
جنوبی کوریا بھی اس وقت شمالی کوریا کے نشانے پر ہے۔ امریکا نے جنوبی کوریا
میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ شمالی کوریا نے 300سے 500 کلو میٹرتک مار
کرنے والے اسکڈ بی اور اسکڈ سی میزائل بھی بنائے ہیں۔اس کے علاوہ
سوکلومیٹررینج کے "نوڈونگ" میزائل بھی اپنی سرحدوں پر نصب کر رکھے ہیں۔
ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش کی آڑ میں عراق پر جس انداز سے حملہ کیا گیا اور
انسانی جانوں کا جس وسیع پیمانے پر ضیاع ہوا،اس کی مذمت خود یورپی یونین
اور اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان کر چکے ہیں۔ جہاں تک عراق کے
ایٹمی پروگرام کا تعلق ہے تو گلف وار کے خاتمہ کے بعد اقوامِ متحدہ کے
ماہرین نے چارلاکھ80 ہزار کیمیائی مادہ اور 28لاکھ لیٹر بھاری پانی تباہ
کیا ہے۔اس کے باوجود اقوامِ متحدہ کے انسپکٹروں کو سی آئی اے نے بتایا تھا
کہ عراق نے ایٹمی ہتھیار خفیہ مقام پر چھپائے ہوئے ہیں۔ جن تک اسلحہ
انسپکٹروں کی رسائی نہیں ہے۔ عراق کے پاس 300 کلو میٹر تک مار کرنے والے
اسکے بی میزائل تھے جنہیں عراق ایران جنگ میں استعمال کیا گیا۔ الحسین
میزائل ایٹمی ہتھیار600کلومیٹرتک مارکر سکتے تھے۔ ان کو بھی ایران،عراق جنگ
میں ایران کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ العباس میزائل900 کلو میٹر تک مار
کر سکتے تھے، اس کا تجربہ ۱۹۸۸ء میں کیا گیا تھاجبکہ "کنڈور2" 900کلو میٹر
تک مار کر سکتے تھے۔ یہ ابھی تیاری کے مرحلے میں ہی تھے کہ عراق نے1989ء
میں1800 کلو میٹر تک مار کرنے والے"التموذ"میزائل کاتجربہ کیاجوکامیاب نہیں
ہوسکا۔اب تو عراق کے تمام میزائل عراق پر اتحادی فوجوں کے حملے کے بعد ضائع
کردیئے گئے ہیں۔
ادھراسرائیل صدام حسین کے میزائل پروگرام کواپنے لئے سب سے بڑاخطرخطرہ
سمجھتاتھا لیکن پس پردہ ایران اپنے آپ کومضبوط کرتا رہااوراس نے میزائل
ٹیکنالوجیمیں شہاب تھری کا تجربہ کرنے بعد تنبیہ کی کہ اگر ان کے پر امن
ایٹمی پروگرام کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو اس کےسنگین نتائج نکلیں گے۔
1992ء میں ڈی آئی اے کی رپورٹ"ویپن ایکزیشن سٹرٹیجی آف ایران" میں انکشاف
کیا گیا تھا کہ عراق‘ چین اور شمالی کوریا کے تعاون سے زمین سے زمین تک مار
کرنے والے میزائل بنا رہا ہے اور وہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو
گیا ہے۔ اب اسرائیل اس کی زد میں آسکتا ہے۔ ایران نے عراق جنگ میں شہاب ون
کو عراق کے خلاف استعمال کیا تھا۔ شہاب ون اسکڈ بی اتنا طاقتور نہیں تھا۔
اس کے بعد شہاب۔2 اسکڈ سی کا تجربہ کیا گیا جو پانچ سو کلو میٹر تک دشمن کو
نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ شہاب تھری چودہ سو کلو میٹر تک ایٹمی
ہتھیار پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب ایران مخالف ممالک بھی اس کے نشانے
پر آگئے ہیں۔
نیشنل سکیورٹی نمائش کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی اکبر ہاشمی رفسنجانی
کے ان الفاظ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر امریکا نے ایران پر حملہ
کیا تو دنیا تبدیل ہو جائے گی اور ہم دنیا کو تبدیل کرنے کی کسی کو اجازت
نہیں دیں گے۔ انہوں نے اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی
صورتحال اورامریکی مفادات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو مزید
ترقی دینی ہے۔ ایرانی حکومت نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ان کا ایٹمی
پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے اور اس کو بجلی کی پیداوارکیلئے ترقی دی
جارہی ہے جبکہ ان کا میزائل پروگرام دفاعی نقطۂ نظر سے ترقی کر رہا ہے۔
اگر امریکا اور اسرائیل نے ان کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو
وہ اپنے دفاع میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی دھمکیوں کے پیشِ نظر بش
انتظامیہ کے سخت گیر ارکان اور نیو کنزرویٹو سمیت یہودی و صیہونی لابی
ایران میں خفیہ آپریشن یا فوجی قوت کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کاپلان بھی
بنایاجوابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا۔
ادھر امریکا نے عالمی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اے پر دباؤبڑھادیاکہ وہ ایران
کا ایٹمی پروگرام نہ صرف بند کرائے بلکہ اس سلسلہ میں ایران جو پیش رفت
کرچکا ہے اسے ضائع کرایا جائے۔ سقوطِ کابل اور سقوطِ بغداد کے
بعد"ورلڈآرڈر"کے تحت دنیا پر اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے والی قوتیں
نمایاں ہوکرسامنے میدان میں اترآئیں ۔ انہی دنوں ایران کے نیوکلیئر پروگرام
کے متعلق امریکا اور یورپی ممالک کے بیانات سے معلوم ہوتا تھا کہ امریکا
ایران پر حملہ کرنے کیلئے زمین ہموار کر رہا ہے۔ حسن روحانی کی پریس
کانفرنس کے بعدان سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ اپنے ایٹمی منصوبے کی تفصیلات25
نومبر 2004ء تک ادارے کو پیش کر دے ورنہ اس کا معاملہ سلامتی کونسل میں پیش
کر دیا جائے گا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے جون 2004ء میں بل پاس کیا تھا جس میں
حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھے۔ ایران نے
ستمبر 2004ء میں قومی پریڈ میں 1250کلو میٹر رینج تک مار کرنے والے شہاب
تھری کی پہلی مرتبہ نمائش بھی کی۔ قومی پریڈ کی تقریب کے موقع پریہ بینر
بھی نمایاں نظر آرہا تھا ’’نقشے سے اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا‘‘۔ اس نمائش
سے پہلے ہی ایران کے ایک اعلیٰ افسر نے (اگست 2004ء) اسرائیل کو دھمکی دی
تھی کہ اسرائیل اورامریکاایران پرحملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ
ایران کے میزائل اسرائیل میں کسی بھی مقام کواپنانشانہ بناسکتے ہیں۔ایران
کی اس دھمکی سے صرف ایک ہفتہ پہلے ایران نے شہاب تھری بیلسٹک میزائل کیلئے
اوربہتر ماڈل کاتجربہ کیاتھا جبکہ اس سے پہلے سادہ شہاب تھری بھی اسرائیل
اورخلیج میں امریکی ٹھکانوں کواپنا نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
انقلاب گارڈز کے سیاسی بیورو کے سربراہ یاد اﷲ جوانی نے اس موقع پر کہا کہ
اسرائیل کی تمام تر ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی ہتھیار پوری صیہونی ریاست اس
وقت ایران کے ترقی یافتہ میزائل کی زد میں ہیں۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ
ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملوں سے ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ناکارہ
بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کا بڑا حصہ زیرِ زمین تعمیر کیا گیا ہے۔
ایران کی جوابی حکمتِ عملی سے امریکا اور بھی پریشان ہو گیا جبکہ امریکا کی
طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران کے دو اہم شہروں کا مواصلاتی نظام جام
کر دیا گیا ہے۔اگرامریکا ایران کا یہ نظام معطل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو
یقیناایران اس کے متبادل نظام کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ادھرسرائیل اب بھی
امریکا کوایران کی ایٹمی تنصیبات پرحملہ کرنے کیلئے اُکسا رہا ہے۔ امریکی
نائب وزیرِ دفاع ڈگلس جے فیتھ نے اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کو دیے گئے
انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام ختم کرنے کیلئے
جاری سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں تو امریکا ایران پر حملہ کر سکتا ہے جبکہ
امریکی ہفت روزہ اٹلانٹک نے اپنے جریدے میں انکشاف کیاجس کے مطابق امریکا
ایران کی عسکری قوت کے خاتمے کیلئے حملے کے پہلے مرحلے میں انقلابی گارڈز
کو ختم کرے گا جبکہ دوسرے مرحلے پر ایران کی ایٹمی تنصیبات پرحملہ کیاجائے
گااورپھرحتمی قبضے کیلئے ایران پرپانچ اطراف سے زمینی حملہ کیاجائے
گا۔تیسرے مرحلے میں افغانستان،خلیجی ریاستوں،عراق،آذربائیجان اور جارجیا کی
سمت سے براہِ راست تہران پرحملے کیے جائیں گے تاکہ ایران کی موجودہ قیادت
کوہٹایاجائے۔ان تیاریوں کے باوجود ایران کے حوصلے بلند تھے۔ایران کویقین
تھاکہ تمام تر اقدامات کے باوجود شہاب تھری کاایک میزائل بھی اپنے ایٹمی
ہتھیاروں کے ساتھ چلنے میں کامیاب ہوگیاتوپھرلاکھوں انسانوں کو مدد کیلئے
پکارنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
اس تمام صورتحاک کے پیش نظرمشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور ان کی سرپرستی کرنے
والوں نے ایٹمی میزائلوں اور ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کیا ہواہے اور امریکا
نے تویہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ برطانیہ،فرانس،جرمنی اور روس بھی اپنے
اپنے مفادات کے حصول کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل بھی عرب
اسرائیل دو جنگیں جیتنے کے بعد خطے کا چودھری بن بیٹھا ہے۔عراق کی تباہی
اورفلسطینی عوام پرمظالم ڈھانے کے بعد وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے
والا کوئی نہیں ہے لیکن خطے کے اسلامی ملکوں کایہ حال ہے کہ وہ اب بھی
امریکااوراقوامِ متحدہ کے سامنے ہی دہائیاں دے رہے ہیں کہ وہ خطے میں امن
قائم کرنے کیلئے اسرائیلی مظالم کو روکے،عراق اور ایران کی طرح اسرائیل پر
بھی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرے۔ اسرائیل اور
اس کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف پہلے بھی عرب دنیا متحد ہو کر دباؤ ڈالتی
رہی ہی اور احتجاج کرتی رہی لیکن امریکی سرپرستی کے باعث اسرائیل کسی کو
خاطر میں نہیں لاتا۔ سعودی عرب کے شاہ فہد اور مصر کے سربراہ حسنی مبارک کے
دورسے اب تک خطے کے تمام ممالک امریکاپرواضح کررہے ہیں کہ اسرائیل کے ایٹمی
ہتھیاروں کاتلف ہونا ضروری ہے اوراسرائیل کے ایٹمی ہتھیارمشرقِ وسطیٰ کے
امن کیلئے خطرات کا سبب ہیں لیکن خطے کی موجودہ صورتحال نے خودعربوں کے
مؤقف کونہ صرف کمزوربلکہ ختم کردیاہے۔ ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار کی موجودگی
کواسرائیل نے کبھی نہیں چھپایا بلکہ یہ بات اسرائیل کی سیاسی اورفوجی قیادت
ہمیشہ کہتی رہی ہے کہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیارہیں اوروہ ایٹمی ہتھیار عربوں
کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔ 1967ء کی چھ روزہ اور 1973ء کی جنگ میں
اسرائیل نے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر دونوں
مرتبہ روس کی ایٹمی مداخلت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔4 ستمبر1974ءکوامریکی
سی آئی اے نے اپنی حکومت کو مختصر رپورٹ بھیجی تھی،جس میں بتایا گیاتھاکہ
اسرائیل تیزی سے ایٹمی ہتھیاروں کواکٹھاکررہاہے اور یہ کوشش بھی کررہا ہے
کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی دوسراملک ایٹمی طاقت نہ بن سکے۔اسی وجہ سے اسرائیل
نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر"اوسیراک"کو تباہ کردیا تھا۔
پہلی خلیجی جنگ میں امریکا نے ایٹمی ہتھیاراورمیزائل استعمال کیے
تھے۔امریکاخود بھی اسرائیل کوایٹمی پروگرام کیلئے بھاری امداددیتارہاہے
اوراسرائیل کے"ایرو"میزائل پروگرام کیلئے بھی امریکا نے ہی مدد دی
ہے۔اسرائیل نے انہی دنوں"جیریکوون"کاکامیاب تجربہ کرکے اسے اپنی فوج کے
حوالے بھی کردیا، یہ میزائل ایٹمی ہتھیار کو پانچ سو کلو میٹر تک پھینک
سکتا ہے جبکہ 1984/85میں "جیریکوٹو"کاکامیاب تجربہ کیااوراس کی رینج اٹھارہ
سوکلومیٹرتھی جبکہ میزائل "جربوپاپئی"بھی فوج کے حوالے کیاجاچکاہے۔ اسرائیل
نے اپنے ایٹمی پروگرام کوفرانس کے تعاون سے 1950ء سے 60کے درمیانی عرصہ میں
ترقی دیتھی اورانہیں سابق امریکی صدر نکسن کے دورمیں بہت زیادہ مراعات ملی
تھیں۔ اس وقت اس کاایئر کرافٹ سسٹم بھی بہت بہتراورایٹمی حملے کیلئے مکمل
تیارہے۔ اس کے علاوہ سمندرمیں بھی اسرائیل نے میزائل نصب کررکھے ہیں۔ عراق
کی حالیہ جنگ کے آغازمیں امریکی بحریہ نے جو ٹام ہاک میزائل بغداد کے عین
مغربی کنارے پر فائرکیے تھے،اس سے ملتے جلتے میزائل اب اسرائیل کے پاس بھی
ہیں۔
"ٹربو"میزائل تباہی پھیلانے والامیزائل ہے۔ایران اورعرب دنیا کوتباہ
کرنااسرائیل کامقصد ہے۔ یہ تنازعہ اتناطول پکڑچکاہے کہ کسی لمحے بھی کوئی
میزائل تباہی پھیلاسکتاہے۔اس سارے تنازعہ کا حل صرف یہی ہے کہ مسئلۂ
فلسطین حل کیاجائے اورہوس ملک گیری کوترک کرکے فلسطینی ریاست کے قیام میں
رکاوٹ نہ ڈالی جائے اوریہودیوں کوباہرسے لاکراسرائیل میں آباد کرنے کا
سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔
برطانیہ 1952ء میں ایٹمی قوت بناتھا،اس کے علاوہ اس کا میزائل سسٹم جدید
بنیادوں پراستوار ہے۔ اس کے میزائل گیارہ ہزارکلومیٹرتک ٹارگٹ کوکامیابی سے
تباہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت برطانیہ کے پاس 185وارہیڈزہیں،جو اس کی دفاعی
ضرورت کے عین مطابق ہیں،وہ گیارہ ہزارکلومیٹرکی حدود میں اپنے دشمنوں
کوتباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کی آرمزفورسز کے پاس جدید سب میرین
بیلسٹک میزائل ہیں۔ امریکا نے برطانیہ کو48 نیوکلیئروار ہیڈزدیے ہیں اوراس
کے پاس حملہ آور ہونے والے میزائل کو تباہ کرنے والا جدید سسٹم بھی ہے،جسے
امریکاThrident-II D-5 کی مدد سے زیادہ جدید بنایا گیا ہے۔یہ وہ خطرناک
میزائل ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں لوگوں کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا
ہے۔ یورپی یونین کے اہم ملک فرانس کے پاس 425کے قریب ایٹمی اور کیمیائی
ہتھیار ہیں جبکہ فرانس کے میزائل"ٹی"گیارہ ہزار کلو میٹر تک تباہی پھیلا
سکتے ہیں اور 350نیو کلیئر ہتھیاروں کو میزائل سسٹم کے ذریعے داغا جاسکتا
ہے۔
فرانس نے 2008ء میں"ایس ایس بی ایم ایس-ٹی"بیلسٹک میزائل بنالیاتھااوراب اس
کا ایٹمی پروگرام دنیا کا چوتھا بڑا پروگرام ہے۔زمین سے زمین تک مار کرنے
والے میزائل کاذخیرہ بھی موجودہے، سمندر میں بھی فرانس کے میزائل کانیٹ ورک
موجودہے۔"ایم51"اور"ٹی این76" فرانس کی سالمیت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے
ہیں۔ اس کے علاوہ این 2000اور ایٹمی اور کیمیائی اسلحہ لے جانے والے سپر
فائر طیارے شارٹ رینج میزائل "اے ایس ایم پی"بھی فرانس کی دفاعی قوت میں
نمایاں ہیں،دشمن کو تباہ کرنے کیلئے ایئرکرافٹ"رافالڈ" کو نیوکلیئر مشن کے
تحت بنایا گیا ہے۔
چین کا ایٹمی اور میزائل سسٹم خاصا ترقی یافتہ ہے۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار
پھینکنے والے میزائل کا نظام ترقی یافتہ ہے۔1980ء کے بعد چین نے میزائل
ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی ہے،اُس کے حوالے سے چین پر الزام لگایا جاتا ہے
کہ وہ ایران اور شمالی کوریا کی میزائل سازی میں مدد کرتا رہا ہے۔ چین کو
اس میدان میں اس لیے آناپڑا کہ روس اور امریکا کے ایٹمی میزائل سمندر،فضا
اور زمین سے زمین تک مار کرنے میں خاصی ترقی کر چکے ہیں۔ امریکا کے دفاعی
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے پندرہ سالوں میں یہ ٹیکنالوجی زیادہ
ترقی کرے گی۔ اس وقت امریکا کیلئے اقتصادی حوالے سے سب سے بڑا خطرہ چین ہی
ہے۔اس خطے میں جہاں ہندوستان اورپاکستان جوایٹمی قوت بن چکے ہیں جبکہ
اسرائیل اورایران ایٹمی دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،دونوں کے درمیان
کشیدگی تباہی کاپیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بین الاقوامی
ایٹمی معاہدہ کویکسرمنسوخ کرکے اس کی بنیادرکھ دی ہےجبکہ امریکااوراسرائیل
کی شہہ پر بھارتی متعصب ہندوسیاستدان بھی اکثرسوشل میڈیاپرایسے احمقانہ
بیانات داغ کرپاکستان پردباؤ بڑھانے کے زعم میں رہتاہےجبکہ سب کوعلم ہے کہ
ایسی حماقت تولمحوں میں اسے صفحہ ہستی سے نیست ونابودکرسکتی ہے۔ |