آئین، قانون اور جمہوریت

جب سیدنا سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا تو فرمایا کہ کیا سبب ہے کہ ہدہد نظر نہیں آرہا کیا کہی غائب ہو گیا ہے؟ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا ورنہ اپنی غیر حاضری کی کوئی واضح دلیل پیش کرے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ہدہد آموجود ہوا اور کہنے لگا کہ اے تاجدارِ بنی اسرائیل میں نے وہ معلومات حاصل کی ہے جسکی آپ کو خبر نہیں۔ میں آپ کے پاس شہر سبا سے ایک سچی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک عورت ان لوگوں پر حکمران ہیں جسے ہر چیز میسر ہے اور اس کا ایک عظیم الشان تخت بھی ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر دیکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے۔ عزیزانِ من۔ یہ پرندہ ہدہد ہی تھا جس نے ملک سلیمان کے ایک قوم کو جب آئین و دستور خداوندی کے خلاف عمل کرتے دیکھا تو بڑے مہذب طریقہ سے سلیمانی پارلیمنٹ میں اس واقعہ کو بیان کیا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نازل کرکے تا قیامت لوگوں کے لیے ایک مثال بنا دیا۔ ہدہد پرندے کی اتنی جرأت اسی وجہ سے تھی کہ وہ آئین و دستور کو سمجھتا تھا جس وقت شہر سبا کے لوگوں کو خدائی آئین پامال کرتے دیکھا تو چپ نہ رہا بلکہ سیدنا سلیمان جیسے بادشاہ جن و انس کے سامنے مدبرانہ گفتگو کرکے انہیں عملی اقدام اٹھانے کے لیے قائل کیا۔ عزیزانِ من۔ آج میرے اس تحریر کا موضوع بحث بندگان خدا کو ملکی آئین سے روشناس کرانا ہے۔ آئین حقیقتاً ریاست کا ڈھانچہ یا نقشہ ہوتا ہے۔ آئین ہی میں لکھا ہوتا ہے کہ کس طریقے سے ریاست میں حکومت تشکیل دی جائی گی۔ اور ریاست کو کون کون سے ادارے کس طور پر چلائیں گے۔ اور اداروں کو کونسے لوگ اور ان لوگوں کو کس طور پر تعینات کیا جائے گا۔ ہمارے آئین کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی کہتے ہیں جسے 14 اگست 1973 کو پاکستان میں نافذ کیا گیا۔ اس آئین کے مطابق پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہوگا جس کا سربراہ وزیراعظم ہوگا جسے اکثریتی جماعت منتخب کریگی۔ اس آئین کے مطابق ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔ اس آئین کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی مذھب ہوگا اور تمام قوانین کو قرآن حکیم اور سنت سے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہوگا۔ اور ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔ کسی شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو گرفتاری کے وجوہ سے جس قدر جلد ہوسکے آگاہ کئے بغیر نہ تو نظر بند رکھا جائے گا اور نہ اسے اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ یا اس کے ذریعے صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا اور گرفتاری سے 24 گھنٹہ کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوگا۔ ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہوگا۔ کسی شہری کو نسل،مذہب،ذات یا مقام پیدائش کی بناء پر کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔ ریاست 5 سال سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کریگی۔ ریاست مختلف علاقوں کے افراد کو تعلیم،تربیت،زرعی اور صنعتی ترقی کے لیے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں پورا پورا حصہ لے سکیں۔ عصمت فروشی، جؤا اور فحش لیٹریچر پر پابندی عائد کی جائے گی ۔۔۔۔۔۔ عزیزانِ من۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اور جمہوری نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتی ہے۔ جمہوریت کی اولین ترجیح عوام کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ ووٹ کی طاقت سے عوام پارلیمنٹ کے ارکان منتخب کرتے ہیں جو مختلف اداروں کے سربراہان بن کر عوامی خواہشات کے ترجمان ہوتے ہیں نہ کہ عوام کے استحصال کے موجب بنتے ہیں۔ عدالت کی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق عوام کو انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ فوج کا بنیادی کردار عوام کی جان و مال کی حفاظت اور سرحدوں کی رکھوالی کرنا، جبکہ میڈیا کا کردار جمہوری نظام میں سیاسی شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔ یعنی ریاست کے ہر ادارے کا اپنے دائرہ کار میں رہ کر ملک کے استحکام کے لیے آئین کے مطابق فعال ہونا لازمی ہے۔ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر ملک، آئین کی بالادستی میں ہی ریاست کی بقاء پنہاں ہے۔ عزیزانِ من ہدہد جیسے پرندے کو آئین کی سمجھ تھیتب ہی تو اس نے آئین کی پاسداری کرنے کا علم بلند کیا جس کے بدلے پروردگار عالم نے اس کی تقریر کو قرآن حکیم میں ذکر کرکے امر کردیا۔ ہم نے کب آئین کو سمجھنے کی کوشش کی ہے یا اپنے بچوں اس کی تعلیم دی ہے؟ کیا آج ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم میٹرک تک کی تعلیمی نصاب میں آئین اور جمہوریت کی ضرورت اور جدوجہد کے بارے میں خصوصی ابواب شامل کرلیں؟ کیا ہمیں آج اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم انٹرمیڈیٹ سے بیچلرز تک کے تعلیمی نصاب میں آئین کی وہ دفعات شامل کرلیں جن میں عوام کے حقوق اور فرائض ذکر ہوئی ہے؟ کیا ہمیں آج اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو آئین، جمہوریت اور تمام اداروں کی ماں"پارلیمنٹ" کے تقدسپر قائل کرلیں؟ ہم نے بطور قوم کھبی اپنے بچوں کو آئین قانون اور جمہوریت کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں۔ ہمیں آنے والے کل میں ایک آئینی اور جمہوری پاکستان کے لیے اپنے بچوں کو بتانا ہوگا کہ ہم ماضی میں آئین اور جمہوریت کی عدم موجودگی کی کتنی بڑی اور بھیانک قیمت بار بار ادا کرچکے ہیں۔ عزیزانِ من۔ اگر پہلے ہی دن سے ہم آئین کے تقدس کو سمجھتے تو ہم ذوالفقار علی بھٹو کے لیے نہیں بلکہ جنرل ضیاء کی ڈیکٹیٹرشپ کے خلاف آئین اور جمہوریت کی پاسداری کے لیے نکلتے تو شاید ذوالفقار علی بھٹو جیسا عالمی مدبر تختہ دار پر نہ لٹکایا جاتا۔ اگر ہمارے ذہن آئین کے تقدس کے قائل ہوتے تو ہم نوازشریفکے لیے نہیں بلکہ پرویز مشرف کی جمہوریت پر شب خون مارنے کے خلاف آئین اور جمہوریت کے لیے نکلتے تو شاید ایٹمی دھماکے کرنے والا محمدنوازشریف جلا وطن نہ کردیا جاتا۔ اگر ہم بحیثیت مجموعی آئین اور جمہوریت کے لیے کھڑے ہوتے تو شاید جمہوریت کو پروان چڑھانے والی بہادر خاتون بےنظیر بھٹوکو راستے سے نہ ہٹایا جاتا۔آج آئین اور جمہوریت اس ملک کی گلی گلی میں پکار پکار کر پوچھ رہی ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیوں نکالا؟ آج ہم نے مظلوم جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہنے کے بجائے اپنے اوپر نام نہاد تبدیلی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔آج اداروں کی تقدس پامال ہوتے دیکھ کر بھی ہماری آنکھوں سے آنسوں نہیں ٹپکتے بلکہ اس نام نہاد تبدیلی کی رنگینیوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو خوش کرتے ہیں۔ آج سیاست کے علمبرداروں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب میں آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تقدس کے مضامین شامل کرلیں۔ تاکہ ہم ایک ایسی نسل تیار کرسکے جو آئندہ کسی بھی غیر جمہوری حکومت یا کسی آمر ڈیکٹیٹر کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال نہ کریں بلکہ آخری حد تک آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے۔کیونکہ آئین اتنی قیمتی چیز ہے کہ جب بھی کوئی ڈیکٹیٹر آیا اس نے آئین کو معطلتو کیا لیکن منسوخ نہیں کیا۔ شاید ان ڈیکٹیٹرز نے منسوخ اس لیے نہیں کیا کہ وہ بھی اس انتظار میں تھے کہ کب وہ نسل آپہنچی گی جو اس آئین کی مکمل پاسداری کریگی۔ عزیزانِ من۔ اگر ہم ایسا نہیں کرینگے تو ہم قرآن کی اس آیت (اولئک کالانعام بل ھم اضل) "یعنی یہ لوگ جانوروں کی طرح ہے بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے" کا مصداق بن جائینگے۔ یا شاید بن چکے ہیںکیونکہ ہدہد ایک پرندہ تھا پر آئین کو سمجھتا تھا ۔ اور ہم شکل صورت سے انسان ہے لیکن آئین کو نہیں سمجھتے۔
 

Malik Gohar Iqbal Khan
About the Author: Malik Gohar Iqbal Khan Read More Articles by Malik Gohar Iqbal Khan: 34 Articles with 30131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.