اب یہ لوگ تحفے نہیں لے سکیں گے، حکومت نے مراسلہ
جاری کردیا ہے، کہہ دیا گیا ہے کہ حکومتی عہدیداران اور سرکاری افسران کو
غیر ملکی وفود اور سفیروں وغیرہ کی طرف سے جو تحفے ملتے تھے، اب یہ نہیں
چلے گا۔ اگر کسی کو مجبوری کی صورت میں تحفہ لینا بھی پڑ گیا تو وہ فوری
طور پر توشہ خانہ میں جمع کروانا ہوگا۔ ملنے والے تحفے اور افراد کی فہرست
سے بھی وزارتِ خارجہ اور متعلقہ وزارت فوری طور پر کابینہ ڈویژن کو آگاہ
کیا جائے گا۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان اس
پابندی سے مستثنیٰ ہیں، اور سکیل پانچ سے نیچے کے سرکاری ملازمین بھی نقد
تحفہ لے سکتے ہیں۔ تحفوں کے بارے میں قوانین تو یقینا پہلے سے ہی موجود ہیں،
مگر دیگر معاملات کی طرح عمل کا فقدان ہی پایا جاتا ہے۔ توشہ خانہ میں تحفے
پہلے بھی جمع ہونے کی خبر ہے، اور یہ بھی کہ تحفہ لینے والے کو اس بات کی
رعایت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سستے داموں وہی تحفہ خرید سکتا ہے، خیال کیا جاتا
ہے کہ بیشتر افراد اس رعایت سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر سے کام نہیں لیتے
ہوں گے۔تحفوں کے تبادلہ سے محبت بڑھتی ہے، مگر جب کارِ سرکار درمیان میں
آجائے تو محبت کے یہ سلسلے بھی قانون کی نگاہ میں آجاتے ہیں، جب بات قانون
کی آجائے تو پھر عمل درآمد کا مسئلہ بھی ضرور سراٹھاتا ہے۔ چونکہ تحفوں کے
بارے میں حکومت نے قانون بنا رکھا ہے، اس لئے بحث بلا جواز ہے کہ تحفہ لینے
والے کے دل پر اس وقت کیا گزرتی ہوگی، جب وہ ملنے والے بیش قیمت تحفے کو
توشہ خانہ میں جمع کرواتا ہوگا۔ یہاں یہ بھی سچ ہی ہے کہ یہ تحفہ آخر ملا
بھی اس لئے کہ صاحب کسی حکومتی عہدہ پر فائز ہیں، ایسا نہ ہوتا تو انہیں
تحفہ بھی نہ ملتا۔
خبر سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ تحفہ لینے سے انکار کیسے کیا جائے؟ اگر باہر
سے کوئی وفد آیا ہے، یا کوئی سفیر کسی حکومتی یا سرکاری افسر سے ملتا اور
اسے تحفہ دیتا ہے، تو تحفہ لینے والے کے پاس انکار کا کیا جواز ہوگا؟ اس کا
حل حکومت کے کسی زرخیز ذہن کو بتانا چاہیے تھا، حل موجود نہ ہونے کی وجہ ہی
ہے کہ حکومت نے اتنی اجازت دے رکھی ہے کہ’’ اگر مجبوری میں تحفہ لینا پڑ
جائے‘‘ ۔ خبر میں یہ وضاحت بھی نہیں کہ یہ سارا ہنگامہ تحفہ نہ لینے پر
برپا ہورہا ہے، اگر کسی آنے والے وفد یا کسی اہم غیر ملکی شخصیت کو جو تحفے
ہمارے ہاں سے حکومتی عہدیداران یا سرکاری افسران عطا کرتے ہیں، ان کے بارے
میں قانون کیا کہتا ہے، کیا قانون کی نظر میں تحفہ لینے والا ہی جرم دار
ہوگا ، یا تحفہ دینے والے بھی اسی طرح قانون کے پابندہوں گے؟ ظاہر ہے اگر
یہاں سے کوئی تحفہ دے گا تو وہ اپنی جیب سے تو دینے سے رہا، یہاں تو کسی
بھی عہدے پر فائز ہو جانے کے بعد اپنی جیب پر بوجھ ڈالنا حرام قرار دے لیا
جاتا ہے، زندگی کی تمام تر سہولیات سرکاری خزانے سے حاصل کی جاتی ہیں، بعض
اوقات تو ضرورت سے بے حد زیادہ مراعات بھی حکومت اپنے افراد کو عنایت
کردیتی ہے۔ شاید باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو تحفہ دینے پر ابھی حکومت نے
پابندی نہیں لگائی، ہونا تو یہی چاہیے کہ اگر تحفہ لینے پر پابندی ہے تو
دینے پر بھی ہونی چاہیے، سابق حکمرانوں نے اپنے ہم منصب حضرات کو جو جاندار
اور بے جان اشیاء کی مد میں تحائف دے رکھے ہیں، انہیں ماضی کا حصہ سمجھ کر
برداشت کرلیا جائے۔ ورنہ حکومت چاہے تو نیب کے لئے یہ راستہ بھی کھول سکتی
ہے، کہ اور کسی کا نہ سہی، مخالفین کی حد تک تو تحقیق ہو سکتی ہے کہ کس نے
کس کو کتنی قیمت کا تحفہ دیا، اور اسے جرم ظاہر کر کے سابق حکمرانوں کے سر
تھوپا جا سکتا ہے۔
ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ صدراسلامی جمہوریہ پاکستان تحفے لے سکتے ہیں،
یعنی ان کے تحفے توشہ خانہ کی رونق نہیں بڑھائیں گے، یا ان کے منصبِ جلیلہ
کے احترام کا تقاضا ہے کہ مناسب نہیں لگتا کہ اُن سے اس قسم کی چھوٹی چھوٹی
باتوں کے متعلق سوال کئے جائیں۔ سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جنہیں
ممنون حسین کہا جاتا تھا، کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ پاکستان کے صدور
میں سے سب سے زیادہ تنخواہ وصول کرنے والے صدر تھے، انہوں نے کن خدمات کی
آٹھ لاکھ ماہانہ سے زائد (مراعات کے علاوہ )صرف تنخواہ پائی، کسی کو نہیں
معلوم۔ پاکستان میں کسی بھی صدرمملکت کے ریٹائر ہو جانے کے بعد بھی بے شمار
مراعات قبر تک ان کا پیچھا کرتی ہیں، ان کے لئے رہائش، آسائش، اخراجات سمیت
سب کچھ حکومت کے ذمے ہوتا ہے، یعنی یہ ہاتھی بعد از حیاتِ مستعار سوا لاکھ
کے ہو جاتے ہیں۔زندگی کی تمام تر آسائشیں دستیاب ہونے کے باوجود دل ہے کہ
بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ سرکاری مراعات ہیں کہ ’چُھٹتی نہیں ہیں کافر
منہ کو لگی ہوئی‘۔ ویسے دستور بھی نرالا ہی ہے کہ تحفے انہی کو ملتے ہیں جو
پہلے سے شکم سیر ہوتے ہیں، جس کو مدد اور تعاون کی ضرورت ہے، وہ صرف صاحب
سے تحفہ پکڑ کر منزل مقصود تک پہنچانے کا فریضہ ہی سرانجام دینے پر مامور
ہے۔ رہ گئے سکیل پانچ سے کم والے اہلکاران ، تو انہیں کس قدر نقدی تحفہ
ملتی ہے، یا کون اور کتنے تحفے ان میں تقسیم کرتا ہے؟ اندازہ نہیں لگایا
جاسکتا۔ چلیں خیر حکومت نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو اس پر مکمل عمل کی نوبت
آجائے تو غنیمت جانئے۔ ورنہ یہاں تو کوئی ہی ہوگا جو ایمانداری کا دامن
تھامے ہوئے ہو، بدگمانی نہ جانی جائے تو صاحب لوگ یہ نہیں چاہیں گے کہ ان
کے تحفے کسی کے علم میں بھی آئیں، تاکہ نہ ان کی فہرست وزارتوں میں جمع
کرانی پڑے اور نہ ہی اسے توشہ خانے میں جمع کروانے کی نوبت آئے۔ |