شائد آج پھر کسی پولیس افیسر نے اپنی ترقی کی خاطر خواتین
سمیت 4افراد کی جان لے لی ، افسوس کہ پولیس میں ترقی پانے کیلئے شائد نہتے
شہریوں کا خون کرنا لازم ہے ،کیونکہ کسی بھی پولیس مقابلہ کے بعد پولیس کی
طرف سے پہلے سے ہی تیار شدہ موقف میڈیا کو بجھوا دیا جاتا ہے لیکن پولیس کی
طرف سے بجھوائی جانے والی پریس ریلیز کی بجائے حقیقت کا سراغ لگا نے کی
کوشش کی جائے تو اس امر کا انکشاف ہو تا ہے کہ پولیس مقابلے میں مر نے والا
خطر ناک اشتہاری ، ڈکیت یا نہتا شہری پہلے ہی پولیس کی حراست میں تھا اور
اس کو چھوڑنے کے عوض ورثاء کے ساتھ ’’مک مکا‘‘ کیا جا رہا تھا لیکن معاملہ
طے نہ ہو نے کی بناء پر وہ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
بقول شاعر ’’افضل مہناس‘‘
مٹی نے پی لیا ہے حرارت بھرالہو
جوش نموملابدن قاش قاش ہے
بتایاجاتا ہے کہ پاکستان میں پولیس مقابلوں کا رواج کس حکمران نے ڈالا لیکن
یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں پولیس مقابلوں کی سرپرستی جمہوری دور
میں بہت زیادہ ہوئی تاریخ گواہ ہے کہ ملتان شہر میں جس پولیس مقابلے کا
کافی چرچا ہوا تھا وہ غلام مصطفی کھر کے دور میں ہوا تھا جب کھر گورنر
پنجاب تھا تو س وقت یہ تاثر پنجاب میں عام تھا کہ پنجاب جی ایم کھر کی ذاتی
جاگیر ہے اور وہ پنجاب کو ایک جاگیردار کی حیثیت سے چلا رہا ہے جبکہ کھر کے
خلاف مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ہی کسی کی شکایت سننے کے مجاز تھے لیکن مسٹر
زیڈ اے بھٹو اس وقت کھر کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہ کرتے تھے لہٰذا
مسٹر کھر واقعی پنجاب کو ایک جاگیرداری اصول کے ساتھ بھگتا رہا تھا۔ اس وقت
ملتان میں پرانی کوتوالی کا ایس ایچ او ایک انسپکٹر شیر علی خان نام کا تھا
جو غالباً مسٹر کھر کے ہی کسی علاقے لیہ وغیرہ کا رہائشی تھا۔ یہ شخص نہایت
بے رحم اور طوطا چشم تھا۔ یہ اپنے کسی افسر کو خاطر میں نہیں لاتا تھا
کیونکہ اس کی سرپرستی گورنر کرتا تھا اور شیر علی براہ راست ٹیلیفون پر
گورنر کھر سے ہدایات لیتا تھا۔ ایک دن شیر علی نے شراب نوشی کے بعد بے
توازن ہو کر اپنے تھانے کی حوالات سے ایک ملزم کو نکالا اور اسے ملتان سے
باہر لے جا کر سرکاری ریوالور سے گولی مار دی۔ اس پولیس مقابلے کا بڑا چرچا
ہوا اور لوگوں کو پہلی دفعہ عدالتوں سے ماورا پولیس کے انصاف کا پتہ چلا۔
اس کے بعد پاکستان میں شریف برادران کی خاندانی بادشاہت کی طرز رکھنے والی
جمہوریت جب قائم ہو گئی توپولیس مقابلے شروع ہو گئے۔ پولیس کے چھوٹے افسران
میں سے کئی چھوٹے تھانیداروں کے گروہ بنائے گئے اور پولیس مقابلوں کے عوض
انعامات کے طور پر ان چھوٹے افسروں کو تیزی سے ترقیاں دی گئیں۔
ایسا ہی کچھ آج ساہیوال میں تھانہ یوسف والا کی حدود میں قادر آباد کے قریب
واقعہ پیش آیا ،جس میں سی ٹی ٖڈی اہلکاروں نے دوخواتین سمیت چار افراد کی
زند گی چھین لی ، طے شد ہ فارمولے کے مطابق ترجمان سی ٹی ڈی نے میڈیا کو
بیان جا ری کردیا کہ گاڑی کو روکنے پر اغوا کاروں نے سی ٹی ڈی پر فائرنگ کی
جس پر جوابی کارروائی میں دو خواتین سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔ گاڑی کی
تلاشی لینے پر ڈگی سے دو بچے بھی برآمد کیے گئے جن کو ڈی ایچ کیو اسپتال
منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ گاڑی کو تحویل میں لے کر پولیس لائن بھجوا دیا ہے۔
کارروائی فیصل آباد میں 16 جنوری کو ہوئے آپریشن کا حصہ تھی۔ یہ گروہ کافی
عرصہ سے سی ٹی ڈی کو مطلوب تھا۔
دوسری جانب پولیس، سی ٹی ڈی اور عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد ہونے کی
وجہ سے اس کارروائی کو مشکوک قرار دیا گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گاڑی
کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ فائرنگ سے دو خواتین اور دو مرد مارے
گئے۔ایک خاتون کی عمر 40 سال اور دوسری کی عمر 13 سال تھی۔ بچوں نے بیان
دیا کہ مارے جانے والے ہمارے والدین تھے۔ ہم اپنے رشتہ داروں کے گھر جا رہے
تھے، والدین نے پولیس کی بہت منتیں کیں لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔اور گولیاں
برسادیں، حسب روایات آئی جی پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے آر پی او ساہیوال سے
رپورٹ طلب کر لی اور وزیراعظم عمران خان نے بھی ساہیوال میں کار پر فائرنگ
کے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ پولیس مقابلے جمہوریت کیلئے انتہائی ضروری مال و
اسباب سمجھے جاتے ہیں اور سندھ حکومت بھی حکومت پنجاب سے پیچھے نہیں رہی
وہاں بھی کراچی میں پولیس مقابلے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ پاکستان کی
حکومتوں نے پولیس مقابلوں کا سہارا شاید اس لئے لیا کہ پولیس کی ناقص تفتیش
اور ایک لمبی تھکا دینے والی عدالتی کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
اہم مجرمان سزا نہیں پاتے لیکن اس سارے گورکھ دھندے کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا
کہ پولیس مقابلے بذات خود مشکوک ہوتے گئے اور اس قسم کے عدالت ماورا فیصلے
عوام میں بذات خود خوف کی علامت بن گئے۔ کراچی میں راؤ انوار نامی پولیس
افسر پولیس مقابلوں کے حوالے سے کافی بدنام ہوا۔ یہ پولیس افسر اے ایس آئی
بھرتی ہوا اور اپنی ملازمت کے آغاز سے ہی اس نے یہ راز پا لیا کہ
سیاستدانوں کی سرپرستی میں ترقی پوشیدہ ہے لہٰذا سیاسی چھتری کے نیچے اس نے
بڑی تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں پھلانگی اور یہ ایس ایس پی کے عہدے تک جا
پہنچا۔ راؤ انوار نے 250 انسانوں کو یا اس تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کو
پولیس مقابلوں میں قتل کیا۔ ماورا عدالت پولیس مقابلوں کے ذریعے پاکستانیوں
کو قتل کرنے کا سلسلہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ انتظامیہ اور سیاسی
حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہ عدالتوں کے فیصلوں پر اعتبار اور اعتقاد
نہیں رکھتے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ پولیس مقابلے اس ملک میں امن لے آئیں
گے؟ یا اس سچ کو مان لیا جائے کہ اس قتل و غارت کے ذریعے جو ملک پہلے ہی تن
خستہ کے ساتھ زندہ ہے وہ ایک دفعہ پھر سرکاری دہشت گردی کا شکار ہو جائے
گا۔ یہ بات ضرور یاد رہے کہ جن والدین کے بچے اور بچوں کے والدین سرکاری
بندوقوں کا شکار ہوتے ہیں ان بوڑھے والدین کی آہیں اور بددعائیں رائیگاں
نہیں جاتیں۔ |