اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج کی عالمی سیاست مکمل
طورپراپنے اقتصادی ومعاشی مفادات کی تکمیل کے گردگھوم رہی ہے اوردنیابھرمیں
جاری عالمی سیاست ارزاں تیل اورگیس کے حصول کیلئے سرگرداں ہے۔یہی وجہ ہے
طاقتورممالک نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے دہشتگردی کے خاتمے کے نام
پرجوبہیمانہ جنگ شروع کررکھی ہے اس کی آڑمیں دراصل کمزورممالک کے تیل وگیس
سمیت دیگرمعدنی ذخائرپرقبضہ کرنے کیلئے وہاں کی سول آبادیوں پرخوفناک
بمباری اوردیگرملکی اسٹرکچرکوتباہ کرکے اپنی فرعونی طاقت کے زورپرقبضہ کرنے
کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہرآئے دن برطانیہ،چین،روس
اوربھارت سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کے پاس توانائی کے وسائل تیزی سے ختم
ہو رہے ہیں،اسی لئے سترکی دہائی سے تیل وگیس کے حصول کیلئے نام نہادبہانوں
سے ان ملکوں پرجنگ مسلط کررکھی ہے جس میں یہ خوداپنے بھی مالی اورجانی
وسائل کاضیاع کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود چند ایک ملک دہشتگردی کوختم کرنے
کے بہانے خوددہشتگردی میں مصروف ہیں جبکہ اس سلسلے میں چین تیل وگیس کے
وسائل کے حصول کیلئے جنگ کی بجائے برابری کی بنیادپرتجارتی تعلقات سے اپنے
معاملات کے حصول کیلئے آگے بڑھنے میں کامیابی حاصل کررہاہے۔
چین نے عالمی سپرطاقت بننے کیلئے اپنی معیشت کومضبوط بنانے کی جومنصوبہ
بندی کی ہے اس میں ''اکنامک کوریڈور''کومرکزی اہمیت حاصل ہے۔پاک چین
اقتصادی راہداری اور گوادرپورٹ کی تکمیل کے بعدچین اپنےاقتصادی اورمعاشی
ایجنڈہ کے مطابق براستہ افغانستان وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچ جائے
گااوریہی وجہ ہے کہ امریکااورچین کے درمیان جاری کشمکش کا مرکزی محورگہرے
پانی کی اہم بندرگاہ گوادرہی ہے چونکہ چین اکنامک کوریڈورکوپائے تکمیل تک
پہنچانے کیلئے شب وروزتیزی سے کام کررہاہے جس کوامریکااپنے معاشی مستقبل
کیلئے انتہائی خطرناک سمجھتاہے کیونکہ امریکاکے بقول پاک چین اقتصادی
راہداری کی تکمیل اورگوادرپورٹ کے مکمل ''فکشنل''ہوجانے کے بعدچین کے اس
خطے میں تیزی سے قدم جم جائیں گے اورآئندہ صدی میں جس ملک کے پاس جس
قدرمعاشی منڈیوں میں اپناخام اورتیارمال فروخت کرنے کی استطاعت زیادہ ہوگی
،وہی ملک نہ صرف معاشی بلکہ فوجی سپرطاقت کااہل ہوگاتاہم اس وقت چین کیلئے
امریکاکی افغانستان میں برسوں سے موجودگی دردِ سربنی ہوئی ہے کیونکہ چین
سمجھتاہے کہ عالمی سیاست پرمعاشی واقتصادی طورپر اہم کرداراداکرنے کیلئے
وسطی ایشیائی ممالک تک آسان اورمحفوظ رسائی میں برسوں سے افغانستان میں
امریکاکی موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے اس خطے میں اپنی موجودگی ضروری
سمجھتے ہیں ۔ماضی میں بھی اس خطے میں اس وقت کاسویت یونین جوافغانستان میں
جارحیت کے نتیجے میں محض روس بن گیاہے،اس نے بھی گرم پانیوں تک رسائی کیلئے
ثورِ انقلاب برپاکیا تھالیکن اس وقت امریکانے پاکستان کی مددسے روس کے گرم
پانی تک رسائی کے خواب کوچکنا چورکردیاتھا۔کیمونسٹ اورسرمایہ داری نظام کے
درمیان زمین آسمان کافرق ہے مگرآج کی دوستیاں اوردشمنیاں صرف اورمحض صرف
اپنے اپنے معاشی واقتصادی فوائد کے حصول کیلئے ہیں۔روس بین الاقوامی سیاست
میں خودکوزندہ رکھنے کیلئے تیل اورگیس کوسیاسی ہتھیارکے طور پراستعمال
کررہاہے ۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعددنیابھرمیں کیمونسٹ بلاک کوجوتاریخی
زوال سے دوچارہوناپڑاتھا،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کی شمولیت
نے بددل اورمایوس ہونے والے کیمونسٹوں کوپھر اپنی طرف متوجہ کرلیاہے۔
بھارت اپنی ابھرتی ہوئی معیشت کیلئے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کیلئے
ایران سے تعلقات مضبوط بنارہاہے چونکہ بھارت کوتیل اورگیس کے حصول کیلئے
مستقبل میں پیش آنے والے مقابلوں کاشدت سے احساس ہے جس وجہ سے اس نے تونائی
کے حصول کیلئے ایران کے علاوہ ترکمانستان ،تاجکستان،آذربائیجان
اورمیانمارسے اپنے تعلقات میں مزیدبہتری لانے کیلئے کوششیں تیزکردی
ہیں۔دوسری طرف تیل وگیس کاسب سے زیادہ استعمال کرنے والے دوممالک روس اور
چین کے درمیان تعلقات کافی حدتک بہتر ہونے سے امریکاکی تیل وگیس کے حصول
کیلئے جاری گریٹ آئل گیم کو شدید دھچکا لگا ہے۔امریکانے دوسری عالمی جنگ کے
بعدسے ہی تیل اورگیس کے حصول کیلئے منصوبہ سازی کی ،عراق پرامریکی حملے کا
مقصدبھی تیل پرقبضہ کرناتھا۔موجودہ دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ
کابنیادی مقصدبھی توانائی سمیت دیگروسائل کے حصول کی جنگ ہے، جس میں کئی
ممالک اپنی برسوں پرانی دشمنیاں ختم کرکے قربت بڑھائی ہے تودوسری طرف کئی
دہائیوں پرانے حریف حلیف میں بدل گئے ہیں ۔
عالمی سردجنگ میں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیااورمشرقِ وسطیٰ کوبڑی اہمیت حاصل
ہوگئی ہے۔ دنیابھرکے تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناطرمیں نت نئی
تبدیلیاں رونماہورہی ہیں جس سے پوری دنیامیں غیریقینی صورتحال اورماحول بن
گیاہے اورعالمی سطح پرجاری کشمکش جیسے ماحول میں
امریکا،برطانیہ،اسرائیل،بھارت،چین ،روس سمیت چنددیگرممالک کمزورممالک
کوڈرادہمکاکر اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیںجس میں تیل وگیس کے حصول کوہی
اوّلیت حاصل ہے۔وسائل کے حصول کیلئے جاری عالمی کشمکش کبھی بھی مظلوم
کاساتھ اورظلم کے خاتمے کیلئے نہیں رہی بلکہ دہشتگردی اورظلم کے خاتمے کی
آڑمیں طاقتورممالک کمزورممالک کے قدرتی وسائل پرقبضہ کررہے ہیں۔
اکتوبر1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے طفیل دنیامیں پہلی بارتیل لے
ہتھیارکوجاناگیااورتیل کی فی بیرل قیمت ساڑھے تین ڈالرسے بڑھ کر بارہ
ڈالرتک پہنچ گئی اورتیل پیداکرنے والے ممالک کی دولت میں راتوں رات تین
گنااضافہ ہوگیالیکن تیل پیداکرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے عرب رکن
ممالک مغربی دنیاکی اسرائیل نوازی کے خلاف یہ مضبوط ترین ہتھیاربس پانچ ماہ
ہی استعمال کرپائے۔آج اس بات کو45 برس ہوچکے ہیں ،بھلاہوتیل کی بندش کاکہ
امریکاکوپہلی مرتبہ خیال آیا کہ آئندہ تیل کی بلیک میلنگ سے بچنے کیلئے
ضروری ہے کہ آڑے وقت کیلئے جتنامحفوظ ذخیرہ کیاجاسکتاہے،ضرورکرلیاجائے
جنانچہ 1975ء میں امریکانے تیل کااس قدرذخیرہ کرلیاجوامریکاکی تین ماہ کی
ضروریات کیلئے وافر تھااوریہ صورتحال اس نے اب تک نہ صرف برقراررکھی ہوئی
ہے بلکہ اس میں کئی گنااضافہ بھی کرتاچلاجارہاہے اوراپنے اتحادیوں کوبھی اس
نے ایساکرنے کا مشورہ دیاتاکہ مستقبل میں کسی ایسی ہنگامی صورتحال کا
بآسانی مقابلہ کیاجاسکے۔
1973ء میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب،متحدی عرب امارات اورکویت نے جب
پہلی اورشایدآخری مرتبہ تیل کوایک مشترکہ ہتھیار کے طورپراستعمال
کیاتوذرادیرکیلئے یوں لگاکہ جیسے ان تمام ممالک کے نوآبادیات گزیدہ تلخ
ماضی نے انہیں آئل ڈپلومیسی کی شکل میں مشترکہ پلیٹ فارم دیدیاہے جس پرکھڑے
ہوکروہ آئندہ بھی فلسطین اسرائیل شاخسانے سمیت علاقائی بحرانوں کے یکطرفہ
حل کے یکطرفہ جھکے پلڑے کومتوازن کرپائیں گے مگرتیل کاہتھیاراستعمال کرنے
کے چندبرس میں ایسی کایاکلپ ہوئی کہ یہ ممالک ایک دوسرے سے شدیدبدظن ہوگئے
یاکر دیئے گئے۔انقلاب ایران کی مبینہ ایکسپورٹ روکنے کے خوف نے عربی عجمی
نفاق پھرسے زندہ کردیا۔ایران اورعراق کے پیچھے دیگرخلیجی ممالک ایران کے
خلاف صف آرأ ہوگئے اورایک عشرہ تباہ کن جنگ میں گزاردیابعدازاں عراق
اورکویت جودونوں امریکااورمغرب کی آنکھ کے تارے تھے،ایسی خوفناک سازش
کاشکارہوکر ایسی چپقلش میں مبتلاہوئے کہ عراقی صدرصدام نے کویت پرقبضہ
کرلیااوریہی سے خطے کی سب سے مضبوط عراقی فوج اوروسائل کی خوفناک تباہی
کاسفرشروع ہوگیاجو بالآخرجہاں سعودی عرب اورکویت کے خزانے کابیشترحصہ
امریکی خزانے میں منتقل ہونے کاسبب بناوہاں عراق کی صدیوں پرانی قیمتی
تہذیب اوروسائل کے ساتھ صدام کی عبرتناک موت بن گیااورلاکھوں بے گناہ عراقی
عوام کی اموات اورتباہی کاایساشاخسانہ بن گیاجہاں آج تک امن قائم نہیں
ہوسکااوراس خطے کایہ نقصان شائداگلی کئی نسلیں اپنے جان ومال کاخراج پیش
کرکے بھی ختم نہ کرپائیں۔
ایران اورعراق کی جاری جنگ کے ختم ہونے کے دوسال بعدہی یہ خطہ جنگ کی ایسی
لپیٹ میں آیاکہ امریکانے جہاں ا س جنگ کاساراملبہ خلیجی ممالک کی حفاظت کے
نام پرایک بھاری تاوان کی صورت میں کئی سوبلین ڈالروصول کیا بلکہ اس خطے
میں مستقل اپنے فوجی اڈے بھی قائم کرلیے جس کے تمام اخراجات کی ادائیگی
خلیجی ممالک کے ذمہ ہیں اوراسی بہانے امریکانہ صرف بحیرۂ عرب پراپنی بے
پناہ فوجی طاقت کے ذریعے مختلف اڈے قائم کرکے باقی دنیاکیلئے گزرنے والے
سارے تیل کے ذخائرکوکنٹرول کررہاہے بلکہ باقی ترقی یافتہ ممالک بھی خلیجی
تیل وگیس کیلئے امریکاکی پالیسیوں کی حمائت کیلئے مجبورہوگئے ہیں۔ امریکی
استعمارکایہ عالم ہے کہ اس کی جنگی مشینری نے تیرہ سال تک جہاں عراق کی
اینٹ سے اینٹ بجادی ہے وہاں خطے کے تمام خلیجی ممالک نے خوشی خوشی اپنے
سابقہ حلیف عراق کے مقابلے میں امریکاکاپہلے سے بڑھ کرساتھ دیااورانہی
دوجنگوں کی کوکھ سے بالآخر''القاعدہ''نے جنم لیااورپھراگلے دس برس میں
افغانستان سے لیبیا،نائجیریاتک اتھل پتھل کانیادورشروع ہوگیاجس نے آج نئے
انڈے بچے دے دیئے ہیں ۔
1973-74ء کے تیل بطورہتھیارتلخ تجربے کے تدارک کیلئے مغربی کمپنیوں نے
دنیاکے دیگر حصوں میں سرمایہ کاری شروع کردی۔چنانچہ بحیرۂ شمالی،خلیج
میکسیکو،نائجیریااورمغربی افریقا کی سمندری حدودمیں تیل کے نئے ذخائرکوترقی
دینے کاکام تیزی سے شروع ہوا۔ان ذخائرکے مارکیٹ میں آنے کے سبب تیل کی
عالمی قیمت کوایک خاص سطح پرمستحکم رکھنے میں مددملی۔
سوویت یونین جیسی سپرپاورکی کمرتوڑنے کے دعویداروں میں اگرچہ جنرل ضیاء
الحق،جنرل عبدالرحمان،جنرل حمیدگل،جماعت اسلامی اوراورافغان مجاہدین سمیت
بہت سے شامل ہیں مگراصل فتح کافائدہ اٹھانے والاکوئی اورہے۔جب ریگن
انتظامیہ نے افغانستان پرسوویت قبضے کے ایک برس بعدسوویت یونین کو''ایول
پاور"یعنی شیطانی سلطنت کاخطاب دیاتب تک امریکی اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پرپہنچ
چکی تھی کہ جوہری ہتھیاروں کے انباروں نے جوتوازنِ دہشت قائم کیاہے اسے
توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ سوویت یونین کواقتصادی خسارے میں مبتلاکرکے اس کی
کمرتوڑی جائے۔روسی معیشت کادارومدارجس زرمبادلہ پرتھااس کابیشترحصہ یاتوتیل
وگیس کی یورپ کو فروخت سے آ رہاتھایاپھرتیسری دنیاکوہتھیارفروخت کرنے
سے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کانظریہ یہ تھا کہ روس جیسے وسیع وعریض ملک کونپولین
اورہٹلرکی طرح فوج کشی کرکے شکست نہیں دی جاسکتی لیکن اگرہتھیاروں کی دوڑ
کوعروج تک پہنچادیاجائے توسوویت یونین کواس دوڑمیں تھکایاجاسکتاہے۔اسے اپنے
وسائل کابیشترحصہ خودکواس دوڑمیں برابررکھنے کیلئے صرف کرنا ہو
گالہندااندرونی کنزیومربیس کوکمزورہوگااوراس کے نتیجے میں سوویت سلطنت میں
نچلی سطح تک جوبے چینی پھیلے گی وہ رفتہ رفتہ اس دلدل کی شکل اختیارکرتی
چلی جائے گی جس میں دھنسنے سے خودکوبچانے کیلئے ماسکوکومشرقی یورپ کی طفیلی
ریاستوں اورغیرروسی وفاقی ریاستوں کابوجھ اپنے کاندھوں سے ہٹاناپڑجائے
گا،یوں شیطانی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور سکڑنے کاعمل شروع ہوجائے گاچنانچہ
مغربی یورپ بالخصوص جرمنی میں نئی نسل کے پرشنگ میزائل کی تنصیب کاغوغاشروع
ہوااورخلاء میں ہتھیاروں کاذخیرہ کرنے اورسٹاروار کیلئے نئے پیچیدہ
اورمہنگے موت کے کھلونے بنانے اور نیوٹرون بموں کی پیداوارشروع کرنے
کاپروپیگنڈہ عروج پرپہنچایاگیا تاکہ روسی ریچھ اس ہانکے سے گھبراجائے۔(آج
خلائی ہتھیاروں اورنیوٹران بموں کاافسانہ کسی کویادبھی نہیں مگراس کام کوتب
تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایاجا سکتا تھاجب تک توانائی کاہتھیاربھی بیک
استعمال نہ ہو۔
سردجنگ کے عروج کے باوجود1975ء کے بعدسے مغربی یورپ کے سرمایہ دارممالک کی
توانائی بالخصوص تیل اورگیس کی ضروریات کا25٪ روسی ذخائرسے پوراہوتا
رہاجبکہ مغربی یورپ کے سوشلسٹ ممالک کادارومدارہی روسی تیل وگیس پرتھا
اوریہی سوویت یونین کیلئے زرِ مبادلہ حاصل کرنے کاسب سے بڑاذریعہ تھا۔
چنانچہ 1985ء میں ریگن اور شاہ فہدکے درمیان یہ خفیہ انڈرسٹینڈنگ ہوئی کہ
اگرسعودی تیل سے عالمی منڈی بھرجائے توقیمتیں لامحالہ نیچے آئیں گی اوراس
کااثرسوویت یونین پراس قدرکمر توڑ ہوگاکہ نہ تو وہ ہتھیاروں کی دوڑ جاری
رکھنے کے قابل رہے گااورنہ ہی اسے تیل وگیس کی فروخت سے اتنازرِمبادلہ مل
پائے گا کہ وہ اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کوتشفی اندازسے پورا کرپائے
چنانچہ 1988ء کے شروع میں سعودی عرب نے بظاہر عراق ایران جنگ کے سبب تیل کی
عالمی رسدمیں کمی پوراکرنے کیلئے اپنی پیداواردوملین بیرل روزانہ سے بڑھا
کرپانچ ملین بیرل کردی ،یوں فی بیرل قیمت جو 1981ء میں 35ڈالرفی بیرل کے
قریب تھی وہ گرکردس ڈالرفی بیرل سے بھی نیچے آگئی ۔ امریکانے انتہائی
چالاکی وہوشیاری کے ساتھ ایک گہری سازش کے نتیجے میں دوہر ی پالیسی کے تحت
اگلے تین سال میں جہاں سوویت یونین کابھٹہ بٹھادیاوہاں سعودی عرب
اوردیگرخلیجی ممالک نے تیل کوبطورہتھیاراستعمال کرنے کے بعدتیل سے جتنی بھی
زائدآمدنی حاصل کی تھی ،اس کو دوبارہ واپس بمعہ سودوصول کرلیا۔اس دوران
افغانستان سے سوویت یونین کاجہاں انخلاء ہواوہاں دیواربرلن ٹوٹ کردوسری
عالمی جنگ کے بعد دونوں جرمنی دوبارہ ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک ملک بن گئے
اورسوویت یونین ٹوٹ کرسات مختلف ریاستوں میں تبدیل ہوگیا۔جہاں سوویت یونین
کے بطن سے چھ اسلامی ریاستیں معرضِ وجودمیں آگئیں وہاں سوویت یونین
سکڑکرروس بن گیااوریوں امریکاایک مرتبہ پھر ورلڈ آرڈرکی تکمیل کیلئے
پاکستان کی برسوں کی انتھک محنت اورافغان جہادکے ثمرات لے اڑا،اورپاکستان
اورافغانستان کوجنگ کی ہولناک تباہیوں کے سپرد کرتا ہوااپنے تمام وعدے
فراموش کرکے خطے سے دم دباکربھاگ گیااور دنیاکی واحدسپرطاقت بن گیا۔
امریکاکاایک ہدف ایران ہے جسے نہ صرف اپنے جوہری پروگرام کے بھگتان میں
مسلسل اقتصادی پابندیوں کاسامناہے بلکہ وہ جوتھوڑابہت تیل فروخت کرسکتاہے
،وہ بھی کوڑیوں کے مول آن پہنچا ہے۔امریکااورسعودی عرب اگرسوچے سمجھے
منصوبے کے تحت حادثاتی طورپرروس اور ایران کی معیشت کوتباہی کے دہانے
پرپہنچارہے ہیں تواس کاخمیازہ ساری دنیاکوبھگتناپڑے گا ۔تیل کاروبارجواب
ایک جنگ میں بدل رہاہے۔دنیاکے تیل پیداکرنے والے ممالک لیبیا،عراق،
نائجیریا اور شام میں بدامنی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی امریکامیں
تیل کی پیداوارمیں اضافے کی وجہ سے بھی ہوئی ہے اورتیل پیداکرنے والے ملکوں
میں سعودی عرب کی حیثیت کیلئے ایک خطرہ بھی ہے اوراس سارے پس منظرمیں روس
اورایران خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے۔روس کی معیشت کاتوانائی کے ذرائع
تیل وگیس پراس حدتک انحصارہے کہ اسے ایک نشے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔اس
معاملے میں تیل کی قیمتوں میں کمی ،روس کوتکلیف دینے کے مترادف ہے اور
ایساہی ہے جیسے ایک عادی نشے بازکانشہ یاموادروک لیا جائے ۔ایساواضح
طورپرعالمی سیاست میں مخصوص مقاصد کے تحت کیاجارہاہے تاکہ روس کی معیشت
کوکمزورکرکے عالمی میدان میں اس کے اثرورسوخ کوکم کیاجاسکے۔
افغانستان میں تیل کے خفیف ذخائرتوہیں لیکن اتنے وسیع نہیں جس قدرعراق میں
ہیں یااس کے پڑوسی ایران میں ہیں لیکن اس لحاظ سے افغانستان کی جغرافیائی
اہمیت ہے کہ یہ تیل وگیس کے وسیع ذخائر کے اہم برآمدی راستے پرواقع ہے
،بالکل اسی طرح جس طرح مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے برآمدی راستے پرمصر کواہمیت
حاصل ہے۔دنیاکی بڑی بڑی کمپنیوں کادیرینہ خواب ہے کہ وسط ایشیاکاتیل اورگیس
کم سے کم لاگت اورسرعت کے ساتھ برآمدکی جاسکے اوریہ خواب افغانستان کے
راستے گوادربندرگاہ پاکستان کے ذریعے ہی شرمندۂ تعبیرہوسکتاہے اوراس میں
کوئی شک نہیں کہ اسی مقصدکے حصول کیلئے طالبان کومنظرعام پرلایاگیاتھا۔اس
زمانے میں وسط ایشیا کے تیل وگیس کی اہمیت امریکااورمغرب کیلئے بہت اہمیت
ہے اوراس کی برآمدکیلئے سینٹ گیس کے نام سے سات کمپنیوںپرمشتمل ایک
کنسورشیم قائم کیاگیاتھاجس میں یونوکیل تیل کمپنی کی قیادت میں چھ بڑی تیل
کمپنیاں اورترکمانستان کی حکومت بھی شامل تھی۔اس کنشورشیم کامنصوبہ
ترکمانستان کے شہردولت آبادسے سات سونوے میل لمبی گیس کی پائپ لائن بچھانے
کاتھاجو افغانستان میں مغربی شہرہرات اورقندھارسے ہوتی ہوئی پہلے پاکستان
میں ملتان تک جاتی ،اس منصوبے میں پائپ لائن کی بھارت میں دہلی تک اورکراچی
کی بندرگاہ تک توسیع بھی شامل تھی۔ اس منصوبے پرلاگت کااندازہ ایک ارب
80کروڑ ڈالرکاتھا۔اسی کے ساتھ قازقستان اورازبکستان سے تیل کی نکاسی
اورترسیل بھی اسی منصوبہ کاحصہ تھا۔
امریکاکے نائب صدرڈک چینی نے 1958ء میں جب وی ایک بڑی تیل کمپنی کے چیف
ایگزیکٹو تھے ،کہاتھاکہ ان کے خیال میں دنیاکاکوئی علاقہ نہیں جوکیسپین کی
طرح اچانک فوجی اہمیت کے علاقے کی صورت میں ابھراہولیکن وہاں سے نکلنے والے
تیل اور گیس کی قدروقیمت نہیں،جب تک یہ دولت برآمدنہ ہوسکے ،واحدراستہ
جوسیاسی اوراقتصادی طورپردستیاب ہے،وہ افغانستان ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں
کہ کیسپین اوروسط ایشیاکے دوسرے ملکوں کے تیل وگیس کی برآمد کیلئے
افغانستان سے بہتر کوئی اورراستہ نہیں ہے۔اگر اس تیل وگیس کی ترسیل روس
یاآذربائیجان کے راستے سے ہوتی ہے تواس کی بدولت وسط ایشیاپرروس کے سیاسی
اوراقتصادی اثرمیں اضافہ ہوگااورظاہرہے کہ امریکااورمغرب کے ممالک یہ نہیں
چاہیں گے اورنہ یہ ممالک چاہیں گے کہ یہ تیل ایران کے راستے برآمدکیاجائے۔
اس میں اب کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں طالبان کے قیام میں امریکی تیل
کمپنی یونوکیل کی قیادت کاگہراتعلق تھا۔شروع شروع میں طالبان کو اسلحہ
اورمالی اعانت کاسب سے بڑاذریعہ یہی کنسورشیم ہی تھا اوربلاشبہ اس میں
پاکستان کی بھی بھرپورپشت پناہی شامل حال تھی ۔پاکستان کے مشورے پرطالبان
کاایک اعلیٰ وفددسمبر1997ء میں امریکاگیاتھااورٹیکساس میں یونوکیل کے اعلیٰ
عہدیداروں سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفدمیں طالبان کے امیرخان متقی بھی
شامل تھے اور یونوکیل نے اس وفدکی امریکاکے نائب وزیرخارجہ کارل انڈرفرتھ
سے ملاقات کااہتمام کیاتھا لیکن 1998ء میں مشرقی افریقہ میں امریکی
سفارتخانوں پربم حملوں کے بعدافغانستان میں اسامہ بن لادن کے تربیتی مراکز
پرامریکی میزائل حملوں کے بعدامریکی حکومت کے دباؤ کے نتیجے میں یونو کیل
کنسورشیم سے علیحدہ ہوگئے اوربالآخریہ کنسورشیم بھی ختم ہوگیا۔اس زمانے سے
امریکااور طالبان کے درمیان ہرقسم کے روابط اورتعلقاے ٹوٹ گئے ۔اس دوران
وسط ایشیاکے تیل اورگیس کی بنیادپرایک طرف امریکااورمغربی ممالک اوردوسری
طرف روس اورچین کے درمیان عراقی تیل پلانٹ اقتصادی اورسیاسی اثراوراجارہ
داری کی جنگ جاری ہے۔
یہ ہرکوئی جانتاہے کہ پوری دنیاکی معیشت تیل وگیس پرچل رہی ہے۔جب تیل کی
قیمتیں گرتے
گرتے 26ڈالرتک آگئیں توسعودی عرب نےتیل پیداکرنے والے ممالک کی عالمی تنظیم
اوپیک کی سفارشات کے باوجودروزانہ پیداوارمیں کمی سے انکارکردیا۔ان کامؤقف
یہ تھاکہ یہ کساد بازاری ہمارے خلاف امریکی سازش ہے اورہم اس کا مقابلہ
کریں گے مگراگلے سال یعنی 2015ء میں شاہ عبدللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے
بعدشاہ سلمان بادشاہ بنے جس کے ساتھ ہی ان کے بیٹے محمدبن سلمان جواس وقت
ولی عہد تھے ،انہوںنے مملکت کے تمام اختیارات اورفیصلے اپنے ہاتھ میں لے
لئے ۔ڈونالڈٹرمپ کے امریکی صدربننے کے بعدحالات میں ایسی ڈرامائی تبدیلی
آگئی اور امریکااور سعودی عرب تاریخ کے اہم موڑ پر ایک دوسرے کے اتنے قریب
آگئے کہ ٹرمپ نے سعودی عرب کے کہنے پرایران کے ساتھ بین الاقوامی فورم
پرکیاگیانیوکلیئرمعاہدہ منسوخ کردیا اورنومبر2018ء سے ایران پرامریکاکی
جانب سے معاشی پابندیوں کاآغازہوچکاہے۔اس وقت ایران کی پٹرولیم ایکسپورٹ
میں واضح کمی آچکی ہے ۔
دوسری طرف لاطینی امریکاکے اوپیک ممبروینزویلامیں بحران کی وجہ سے وہاں کی
حکومتتیل نکالنے میں دشواریاں محسوس کررہی ہے ۔وینزویلاکی یومیہ
پیداوارپندرہ لاکھ بیرل یومیہ ہے جبکہ ایران کی دس لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ان
دوممالک کے آؤٹ ہونے کی وجہ سے تیل کی پیداوارمیں واضح کمی آئی ہے جس کی
وجہ سے مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں چڑھناشروع ہوگئی ہیں ۔اس صورتحال میں
امریکانے سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی دس لاکھ بیرتروزانہ
پیداوارکوبڑھاکردگنی یعنی بیس لاکھ بیرل یومیہ کردے تاکہ دنیامیں پٹرول کی
سپلائی اورقیمتوں میں استحکام لایاجاسکے ۔سعودی عرب نے امریکاکویقین
دلایاہے کہ وہ دوملین بیرل یومیہ پیداوار کرسکتاہے حالانکہ ماہرین اس پرلچک
کااظہارکرتے ہیں کہ سعودی عرب کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اپنی یومیہ
جاری پروڈکشن کودگناکرسکے لیکن سعودی عرب کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ اب عالمی
مارکیٹ میں ایک طرف تیل کی قیمتیں بڑھنے سے اس کی تیل کی آمدنی میں اچھا
خاصا اضافہ ہوگیاہے اوردوسرااس کے تیل کی سیل دوگناہوگئی ہے گویااس وقت
سعودی عرب کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اوراس وافر فروخت سے سعودی عرب کی
آمدنی کئی گنابڑھ جائے گی اورشام ویمن میں ہونے والے جنگی اخراجات اورگزشتہ
کسادبازاری سے ہونے والے سارے نقصانات پورے ہو جائیں گے۔
مشرقِ وسطیٰ کاعلاقہ اپنی خاص اسٹرٹیجک پوزیشن اورمالامال قدرتی
ذخائرکاحامل ہونے کے سبب ہمیشہ ہی تسلط پسندطاقتوں کی خودغرضی پرمبنی
پالیسیوں کانشانہ اورمختلف سازشوں کے خطرے میں رہاہے۔ان سازشوں میں،نئے
مشرقِ وسطیٰ کاسازشی منصوبہ بھی ہے جس کا محورو مرکز اسرائیل کوسیکورٹی
فراہم کرنااورعلاقے میں انرجی کے ذخائرپرتسلط جماناہے، اس تجزیئے کے
تناظرمیں شام میں امریکاکے جاری فوجی اقدامات کے سلسلے میں کہناچاہئے کہ
شام میں داعش کی شکست کی شکست کے باوجوداس ملک کے کچھ حصوں پرامریکاکے قبضے
کاخطرہ موجودہے کیونکہ شام کے تیل وگیس کے اہم کنوئیں فرات کے مشرق میں
ہیں۔امریکاشروع سے ہی شام کے انرجی کے ذخائرپرتسلط حاصل کرنے کی مکروہ کوشش
کرتا رہاہے اوراگرخطے کے ممالک امریکی خواہش کوتسلیم نہیں کریں گے توانہیں
نئی مگرخطرناک جنگوں اوران کے بھاری اخراجات برداشت کرناپڑیں گے۔
خلیج فارس کے کئی ممالک کے مابین ابھی پس پردہ بحران موجودہے جوٹرمپ کے
علاقے کے دورے کے بعدشروع ہواہے۔ قطرکی گیس کے وسیع ذخائرپرقبضے کیلئے
امریکااوربعض عرب حکام کی سازشوں کاسلسلہ جاری ہے۔ان امورکے پیش نظریہ
کہاجاسکتاہے کہ علاقے میں تیل و گیس کی جنگ کے پیچھے امریکاکاہاتھ ہے۔حالیہ
دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے لبنان کے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنے
کیلئے اس کی بحری حدود میں اقدامات تیزکردیئے ہیں ۔امریکا صہیونی حکومت کے
ساتھ لبنان کے سرحدی اختلافات کے حل کیلئے ثالثی کی کوشش کے بہانے مداخلت
کررہاہے تاکہ لبنان میں اپنے اوراسرائیل کے مذموم مقاصدکے حصول کیلئے زمین
ہموار کی جاسکے۔اس کیلئے کچھ بعیدنہیں کہ حزب اللہ کورام کرنے کیلئے ایران
پرجاری پابندیوں میں مزیدشدیداضافہ کردیاجائے اوربعدازاں ان پابندیوں میں
نرمی لانے کیلئے درپردہ ایران کوحزب اللہ پراپنے اثرورسوخ کو استعمال کرنے
کی کڑی شرط کے ساتھ منسلک کردیاجائے تاکہ خطے سے حزب اللہ کوخاموش کرنابھی
ان کے ایجنڈے میں شامل ہے حالانکہ شام میں حزب اللہ کے کردارنے کسی بھی
مسلم اتحادکوابھی تک کامیاب نہیں ہونے دیا۔
لیبیاجس کی یومیہ تیل کی پیداوار ساڑھے آٹھ لاکھ بیرل ہواکرتی تھی ،اس وقت
وہاں پٹرول میں پیداوارمکمل طورپربندہوچکی ہے کیونکہ سیاسی طور
پرلیبیاکودوحصوں مشرقی لیبیااورمغربی لیبیامیں تقسیم کرنے کی جوجنگ جاری ہے
،اس کی وجہ سے وہاں تیل نکالنے کاکام بری طرح متاثرہوا ہے۔ عالمی سطح پرتیل
کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں لیبیاکاتنازع بھی شامل ہوگیاہے۔2001ء
میں جب امریکانے عراق پرحملے کامنصوبہ بنایا تواس پرسب سے زیادہ احتجاج
امریکی اورمغربی ممالک کے شہریوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔یہ ایک تاریخی
حقیقت اورریکارڈ کی بات ہے کہ جب ایک ہی دن دنیاکے 100بڑے شہروں میں بیک
وقت مظاہرے کئے گئے تھے اوران مظاہرین نے جوبینر اٹھا رکھے تھے ،ان پر لکھا
ہوا تھا"نوبلڈفارپٹرول"یعنی پٹرول کی خاطر
خون مت بہاؤ۔ میں خوداپنے ساتھیوں سمیت ان مظاہروں میں شریک رہاہوں
اوریقیناً لندن کی سڑکوں پرآج تک اس سے بڑامظاہرہ میں نے پچھلی چاردہائیوں
سے نہیں دیکھاتھا۔
اس وقت مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اورایران کے درمیان جوتنازع خونریزی کی طرف
بڑھ رہا ہے اس کابنیادی نقطہ یہی ہے کہ یہ پٹرول پرقبضے اورمفادات کی جنگ
ہے جس میں امریکا نے سعودی عرب کاساتھ دینے کافیصلہ کیاہے ۔اگرچہ یہ سلسلہ
اسی طرح چلتارہاتوٹرمپ کے اگلے الیکشن 2020ء سے پہلے تصادم کے امکانات بہت
زیادہ بڑھ جائیں گے۔ماہرین کے مطابق 2019ء میں تیل کی اوسط قیمت 66ڈالرفی
بیرل ہوگی۔ اگر مشرقِ وسطیٰ میں ایران اورسعودی عرب کے درمیان تصادم کی
نوبت آئی توپٹرول کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔اس ضمن میں شام اوریمن پر
کنٹرول حاصل کرنے کے سنہری خواب جس طرح چکناچورہوئے ہیں ،سعو دی عرب
کوسوچنا ہو گاکہ ایران ان دونن سے زیادہ مشکل ہدف ہے اوراگرایک دفعہ جنگ
شروع ہوگئی توحالات پر سعودی عرب اورخودامریکاجواس سازش کاسب سے
بڑاکردارہے،اس کے بس اورگرفت میں بھی نہیں رہے گی۔
صنعت ومعیشت کاآپس میں چولی دامن کاساتھ ہے ۔جس وقت ہماری دنیابائی پول(روس
اورامریکا) سے گزررہی تھی ،اس وقت روس صنعتی اور معاشی اعتبارسے دنیاکی
دوسری بڑی طاقت تھا،اب بکھرے ہوئے روس کی وسط ایشیائی ریاستوں کاجھکاؤروس
کی بجائے چین کی طرف زیادہ ہے مثلاً ازبکستان سینکلنے والی گیس کاسب سے
بڑاخریدارچین ہے ، راس کے پاس بھی گیس ہے اورروس کی معیشت کادارومدار80٪سے
زائدتیل و گیس پرہے بلکہزیادہ تیل پرہے جبکہ تیل کی عالمی قیمتیں اب شائداس
دورمیں واپس نہ جاسکیں جہاں روس اورسعودیہ جیسے ممالک تیل پر مکمل
انحصارکرسکیں۔امریکاکوتیل کی بابت کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اپنی ضرورت
کا75٪وہ خودپیداکرتاہے اورعلاوہ ازیں اس نے اپنے ملک کی یومیہ استعمال کے
پیش نظرچھ ماہ کاتیل الگ سے ذخیرہ بھی کر رکھاہے اورامریکاجلدہی شالے
ٹیکنالوجی کے حصول کے بعدیہ 25٪بیرونی تیل خریدنے سے بھی بے نیازہوجائے گا
اورکھل کردوسروں کے تیل کوعالمی بساط پرحریفوں کو سیدھاکرنے کیلئے استعمال
کرپائے گا۔امریکااس وقت چین سے میچ کھیل رہاہے اورخلیجی ریاستیں آج بھی
امریکی الیون کاحصہ ہیں۔
سابقہ سردجنگ اسلامی نظریاتی جنگ میں بمقابلہ اشتراکیت سمجھ میں آتی ہے جس
میں سرمایہ دارانہ نظام یاامریکانظرنہیں آتالیکن اس نے سردجنگ کے دورمیں
اپنے مفادات کیلئے اسلام کو استعمال کیاجبکہ آج پھرہمیں گروہی اورمذہبی رنگ
میں رنگی ہوئی سیاست کودیکھنے کاموقع مل رہاہے جس میں روس پھرسے سرگرام
کرداراداکرنے کیلئے پرتول رہاہے جبکہ چین دنیاکومعاشی میدان میں مات دینے
کیلئے تیاربیٹھاہے تودوسری طرف امریکا کاعالمی اثرورسوخ دن بدن کم ہوتا
جارہاہے۔یورپ ویسے ہی جمودکاشکارہے ۔امریکاچین سے معاشی طورپرخفانظرآتاہے
تودوسری طرف امریکاکو شمالی کوریاکی دہمکیاں اورٹرمپ کی ایران کوایٹمی ڈیل
ختم کرنے کی دہمکی۔ جنوبی ایشیامیں بھارت کواہم کرداراداکرنے کیلئے تیار
کرنا،افغان ایشوکوکسی حل کی طرف نہ لے جانا،روس کانئے نئے ایٹمی ہتھیاروں
کاتجربہ شام پربعض اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ کاحملے کااحمقانہ
فیصلہ جبکہ روسی اڈاوہاں پہلے ہی موجودہے،کیاایسے میں روس، چین ،شمالی
کوریا،ایران،افغانستان اورکسی حدتک پاکستان اوربعض اتحادیوں کی مخالفت
اورامریکاکاکم ہوتا عالمی اثرورسوخ کہیں دنیاکوسرد جنگ سے نکال کرتیسری
عالمی جنگ کی طرف تونہیں دھکیل رہا؟ |