در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
افتخار عارف کا یہ شعر آج ہمارے وطن میں پیش آنے والے واقعہ پر صادق آتا ہے۔
گڈ گورننس اور ویلفیئر سٹیٹ کیا ایسی ہوتی ہے جہاں بے گناہ شہریوں کی جان
سلامت نہ ہو۔ اور خوشیاں ماتم سے بدل دی جائیں وہاں وحشت کا چلن ہوا کرتا
ہے۔ معاشرے سے سکون مٹ جاتا ہے اور خوف کے بادل ماحول کو تاریک کر دیتے ہیں۔
ایک وہ وقت تھا جب میرے وطن میں دہشت گردوں نے عام شہریوں کا جینا دوبھر کر
دیا تھا تو یہی پولیس کے بہادر جوان تھے جنہوں نے دہشت گردی کے اس عفریت کو
وطن عزیز سے نکالنے میں پاک افواج کے ساتھ بڑھ چڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف
آپریشن میں حصہ لیا اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ یہی پولیس کے جوان ہمارے
ہیرو تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کی حمایت اور تعریف و توصیف میں کیمپینز چلائی
گئیں اور دل کھول کر داد تحسین پیش کی گئی۔ سی ٹی ڈی پولیس کی سپیشل فورس
ہے جس کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ اور اس کا تدارک ہے۔ شومئی قسمت آج یہ
فورس مجرموں کی بجائے بے گناہ شہریوں کے لیے دہشت کی علامت بن گئی۔ مسیحا
ہی درد بن گئے، چارہ ساز بیچارگی کی تصویر بنے اپنے ہی شہریوں پر ظلم ڈھا
گئے۔
ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں
یہ سارا واقعہ کسی بھیانک خواب کی مانند تھا جو عرصہ دراز تک انسانی سوچ کو
وحشتوں سے بھر دیتا ہے۔ سوال تو بہت ہیں اور سارے ضروری اور جواب طلب بھی
مگر میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ کی تحقیقات ضرور ہوں اور متاثرین کو انصاف بھی
دلایا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کے محرکات کا بغور جائزہ لیا
جائے۔ سی ٹی ڈی کیوں ان کار سواروں پر حملہ آور ہوئی؟ ان کی کیا انفارمیشن
تھی جس کے نتیجے میں یہ آپریشن عمل میں لایا گیا؟ تاکہ ان محرکات کا سدباب
کیا جا سکے اور دوبارہ ایسا کوئی درد ناک واقعہ پیش نہ آ سکے۔ اور ہمارے
محافظ جنھیں لوگ اب قاتل اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارنے لگے ہیں، ان کا
اعتماد بحال ہو سکے اور ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ قانون کے
محافظ بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے قانون
پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ ورنہ معصوم شہری یہی سوال کریں گے
محترم قانون سازو یہ بھی کیا قانون ہے
ایک بھی قانون عائد آپ پر ہوتا نہیں
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقصد قانون کا قیام ہے نہ کہ قانون کی
پامالی۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کسی کو قانون سے بالا قرار نہیں
دیا جا سکتا۔ اگر قانون کا اطلاق نہ ہو تو دنیا لاقانونیت اور جنگل کا منظر
پیش کرے گی۔ اس مضمون کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے
فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن
قانون سے قانون کو بدلا نہیں جاتا
لیکن اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی خلاف ورزی کریں تو یہ بات
انتہائی غیر موزوں ہے۔ ایک اور شاعر نے قانون کی لاقانونیت کو یوں بیان کیا
ہے
میں جہاں میں کسی آئین کا پابند نہیں
میرے گھر آپ ہی قانون ڈھلا کرتا ہے
صورت حال متقاضی ہے کہ معاملے کی انصاف کے تقاضوں پر تفتیش کی جائے اور
مجرمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر قانون کی محافظت کا یہ حال ہی رہے
تو قانون اپنا اعتماد کھو دے گا۔
قانون جیسے کھو چکا خود کا اعتماد |