آزادکشمیر کی رضیہ سلطانہ اورمیثاق تعلیم کی ضرورت

آزادکشمیر کی رضیہ سلطانہ اورمیثاق تعلیم کی ضرورت

آزاد جموں وکشمیر آؤ جاؤ کھاؤ اے جے کے مخفف ایسا بھنور جیسا لب و لہجہ لگتا ہے جس کا اظہار بظاہرناپسندیدہ مگر بہت لمبی چوڑی بحث کو ختم کرنے کا راز دارانہ گفتگو ‘ شنید کا راز چلا آ رہا ہے جس کا زیادہ اظہار سرکار اور اس سے جڑے اُمور والوں میں ہوتا ہے یا اس کے متاثرہ لوگوں کی آب بیتی کا عنوان اور ختم شد نتیجہ بھی بن جاتا ہے جب انصاف میرٹ مساوات کے مغائر ظلم ناانصافی کا بڑا یا چھوٹا واقعہ درپیش ہو حق دار کا حق مارا جائے تو اس مایوس کن کیفیت میں مایوس ہونے والے کا حوصلہ توڑنے اس سے جان چھڑانے کا یہ انداز کارگر ثابت ہوتا کہ چاہے جو مرضی کر لو تمہیں کچھ نہیں ملے گا جاؤ اور کوئی کام کرو یہ وہ رحجان ہے جس کے شکنجے میں سارے نظام کی مشینری زنگ گردوغبار میں لت پت دِن گزار رہی ہے ‘ ایک پرزہ نکلتا ہے تو دوسرا جگہ لے لیتا ہے مگر بدلتا کچھ نہیں ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ بغیر کسی بڑے تعلق واسطے یا زر اور زور سے محروم کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے یہ رو کر اور چپلیاں گھسا گھسا کر حالات کے ہاتھوں گم ہو جاتے ہیں ۔ اور اس نظام میں ایسے سیاست دان آفیسران منسلک شعبہ جات کے افراد جو خوف خدا رکھتے ہیں اور اسے درست کرتے ہوئے خلق خدا کو انصاف میرٹ کی فراہمی کے لیے لڑتے ہیں ان کو بھی سازشوں دباؤ اور مختلف حربوں کے ذریعے ناکام بنا دیا جاتا ہے ۔
لِسے کا کی زور محمد نس جانا یا رولینا

آئین قانون نظام سب کچھ اچھا ہو جانے کے باوجود ان کی کیفیت و مقام الماریوں میں پڑے کتابوں کے ڈھیر جیسی ہے عملاً وہ آئین قانون ہے جو اس نظام کے غلاف کے اندر اپنا نظام بنائے اپنی مرضی ‘ اپنی دلچسپی کے انداز اطوار کو مفاد یقینی بناتا ہے ‘
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت مشکل ہے خزان کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا

یہ سارے نظام بشمول اس کے محافظ معاشرے کا اصل چہرہ ہے جسے قدرت کے مکافات عمل کے زاویوں نے سحرش سلطان اور اس کے بوڑھے چچا کو اپنے حق کیلئے ڈٹ جانے کا حوصلہ دے کر بے نقاب کر دیا ہے گو کہ یہ انہونی ہوئی ہے مگر اس نے کنٹرول لائن غلطی سے عبور کر جانے والے ہیلی کاپٹر سے زیادہ شہرت ‘ بحث و اہمیت اختیار کر لی جس کے حق میں حمایت برائے حمایت کم مخالفت برائے مخالفت زیادہ کرنے والوں کے بجائے جامعہ کشمیر مظفر آباد سمیت وہ تمام طلبہ مبارکباد کے حق دار ہیں جنہوں نے اخلاق ‘ احساس ‘ درد انسانیت کے جذبوں سے حق دار کے حق کی آواز میں آواز ملائی ہے اور سحرش سلطان سب کی سماعتوں و زبانوں کے اظہار میں رضیہ سلطانہ جیسا تعارف بن گئی ہے اس کو اس کا حق بھی جرات حق سے مل رہا ہے جو سب تعارف اثر و رسوخ مال زر سے محروم حق داروں کیلئے روشن مثال ہے کہ اپنے جائز حق کیلئے ان بچوں کی طرح کم ازکم ضرور شور مچاؤ جو دودھ پینے کیلئے اپنی ماں کو تمام کام چھوڑ کر اپنی بھوک پیاس بجھانے پر مجبور کر دیتے ہیں تاکہ یہ نظام بھی ماں جیسا بن جانے پر گامزن ہو جس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قبیلائی ‘ علاقائی لسانی پیشہ سمیت ہر طرح کے تعلق واسطے سے ہٹ کر خالصتاً انسانیت کی بنیاد پر اصل مرض کو ختم کرنے کیلئے ہر عام شخص خصوصاً طلبہ نوجوان اپنا اپنا کردار ادا کریں ‘ آواز سے آواز ملاتے ہوئے اس کو تعمیری بامقصد تحریک بنا دیں نہ کہ بحث برائے بحث کا تناؤ بنا کر اس کی افادیت کو تہہ تیغ کرتے ہوئے ایسے واقعات کے اسباب و ہاتھوں کو مضبوط کریں درحقیقت تعصبات اور تعصبات کے اندر تعصبات کے ڈھیر کام چوری آؤ جاؤ کھاؤ کی نفسیات نے اخلاقی سیاسی تباہی بربادی مچائی ہوئی ہے ہر وقت ہر جگہ اسلام ریاست تشخص اُصول کا چرچا کرنے والے سب شعبوں کے خود ساختہ باکرداروں نے جھوٹی زبانی ہمدردیوں مخالفانہ چربہ سازی سے خود کو تحفظ دیا ہوا ہے جس کا ایک ہی حل ہے کہ نظام کے تمام ستونوں کو ہلایاجائے یہاں کے ججز ‘بیورو کریٹس ‘جریدہ غیر جریدہ تمام ملازمین کو چاروں صوبوں اور انکے ججز‘ آفیسرز ملازمین کو یہاں لا کر مامور کیاجائے جب سب جانتے ہیں کہ معطلی تبادلہ اور انکوائری محض ڈرامہ ہے سب نے یہاں ہی رہنا ہے اور چہرے دیکھ کر کام کرنے ہیں تو پھر ایسا ہی ہوتا رہے گا اگر اسمبلی واقعتا سپریم اتھارٹی ہے تو اس کو کم از کم تعلیم ‘ صحت ‘ انصاف ‘ قانون سے جڑے اداروں کو سیاست ‘ تعصبات سے پاک کرنے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے اور آل پارٹیز کانفرنس کر کے میثاق انصاف تعلیم پر اتفاق کرنا ہو گا ورنہ سب دھوکہ ہے ؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 131489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.