چنگی امر سدھو کے مکین لوگ خوشی خوشی اپنی زندگی بسر کر
رہے تھے وہیں پر خلیل اور نبیلہ اپنے چار بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے
تھے خلیل کے بڑے بھائی کے بیٹے کی شادی بھوریوال گاؤں میں ہونا تھی خلیل کے
بھائی عمران اور جمیل بھی شادی پر جانے کے لیے تیار ہوئے انہوں نے اپنا
کیری ڈبہ کروایا اور دونوں فیملیز اس میں سوار ہوئے خلیل نے کہا کہ میں
اپنی گاڑی علیحدہ سے بک کرواؤنگا خلیل نے اپنے ہمسائے ذیشان سے بات کی جسکا
خلیل کے سپر جنرل سٹور کیساتھ ہی اپنا جنرل سٹور تھا اس سے کہاکہ ہمارے
ساتھ چلو گاڑی رینٹ پر لی ،ذیشان نے ڈرائیوکی اور گھر سے شادی کا سامان
اپنے بیگ میں پیک کرکے گاڑی میں رکھا اور تیار ہو کر نکل پڑے اور ایک بھائی
گھر میں اپنی ماں کے ساتھ موجود رہا جوکہ کینسر کا بھی مریض ہے خیر جب یہ
لوگ رستے میں ساہیوال روڈ پر پہنچے تو سی ٹی ڈی کی دو گاڑیوں نے انکا رستہ
روکا اس وقت عمران اور جمیل جس کیری ڈبے میں سوار تھے وہ انسے آگے نکل چکے
تھے خلیل کی گاڑی سی ٹی ڈی نے روک کر اپنی گنز نکالیں اور گاڑی کو گھیرے
میں لے لیا فائر کرنا شروع کیے ذیشان اور خلیل کو جب سامنے سے فائر کیے وہ
کہتے رہے ہم سے پیسے لے لو ہماری جان بخش دو مگر انہوں نے اپنی فائرنگ جاری
رکھی حالانکہ بچوں کی ماں نبیلہ گاڑی میں سو رہی تھی اور جب فائرنگ ہوئی
نبیلہ نے اٹھ کر فوراً اپنے تین چھوٹے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کردیا
جس سے عمیر کی ٹانگ پر تو گولی لگ گئی اور خلیل کی بیٹی اریبہ کو بھی
گولیاں لگیں ماں نے بھی فائر نگ کی ذد میں آکر اپنی جان دے دی سی ٹی ڈی نے
گاڑی کی ڈگی سے سامان نکالا جو بچے بچ گئے انکو بھی نکالا جس میں ایک بچہ
عمیر اور اسکی دو چھوٹی بہنیں تھی عمیر کی ٹانگ میں گولی لگی مگر جان بچ
گئی اسی طرح چھوٹی بہن کا ہاتھ گاڑی کا شیشہ لگنے سے زخمی بھی ہوا ۔ان بچوں
کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور لے گئے پھر گما
پھرا کر وہیں قریب کے پیٹرول پمپ پر چھوڑگئے ،اتنی دیر میں عمران اور جمیل
کی فیملی کو شبہ ہوا کہ خلیل کی گاڑی ابھی تک نظر نہیں آئی وہ کہاں رہ گئے
انہوں نے موبائل پر کال کی مگر آگے سے کوئی پک نہیں کر رہا تھا پھر انہوں
نے اپنا کیری ڈبے کا رخ واپس موڑا اور دیکھا گاڑی لہولہان ہوچکی تھی اب
انکے پیاروں کی صرف خاموش لاشیں ہی اس گاڑی میں موجود تھیں ۔عمیر اور اسکی
چھوٹی دو بہنوں کو جب پیٹرول پمپ کے باہر دیکھا تو اتنے میں مقامی پولیس
اور میڈیا وہاں پر پہنچ گیا جنہوں نے ان بچوں کو ہسپتال منتقل کیا شادی پر
جانے والی اس فیملی نے شادی میں شرکت کرنے سے پہلے موت کے منہ میں شرکت
کرلی ،عمیر اور اسکی دو بہنوں نے اپنے ماں باپ کو اپنی آنکھوں سے اک لمحہ
میں ملک کے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا جو مناظر پاکستان کا کوئی
کیمرہ اپنی ویڈیو میں محفوظ نہ کرسکا وہ مناظر عمیر نے اپنی آنکھوں میں
محفوظ کرلیے،سی ٹی ڈی نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گرد تھے اور
ہمیں اطلاع ملی تھی انکے پاس اسلحہ بھی موجود ہے حالانکہ گاڑی کی ڈگی سے جو
سامان نکالا گیا بعد میں اسی سامان کو بچے کہ دیا گیا یعنی سی ٹی ڈی کا
کہنا تھا گاڑی کی ڈگی سے بچے برامد کیے گئے کیونکہ دہشت گرد بچوں کو اغواء
کرکے لے جا رہے تھے ۔پھر ذیشان کے بارے میں کہا گیا کہ اصل دہشت گرد یہ تھا
حالانکہ ذیشان کا اپنا بھائی حامد ڈولفن پولیس میں اہلکار کے طور پر اپنی
ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے کیا ڈولفن پولیس میں دہشت گرد فیملیز کے لوگوں کو
بھرتی کر رکھا ہے؟ سہی کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اسی لیے سی ٹی ڈی
بوکھلاہٹ میں طرح طرح کے بیان بدل بدل کر پیش کر رہی ہے۔
بہرکیف سب بچے اپنے بچپن کے دو ر میں بہت زیادہ خوش اسی وقت ہوتے ہیں جب
انکے ماں باپ انہیں تیار کرکے کہیں گھمانے پھرانے کی غرض سے لے کر جائیں وہ
گاڑی میں مستیاں کرتے جاتے بچے اپنے ماں باپ سے کس قدر خوش ہونگے کہ آج
ہمیں شادی میں لیجایا جا رہا ہے لیکن اس گاڑی میں بیٹھے خلیل اسکی بیگم
نبیلہ ،انکی بیٹی اریبہ اور ذیشان جو خلیل کا دوست اور ہمسایہ تھا وہ یہ
کہاں جانتے تھے کہ آج وہ اتنی دردناک موت حاصل کرنے کے بعداس دنیا کو چھوڑ
کر دوسری دنیا میں چل بسیں گے ،عمیر اور اسکی دو معصوم بہنوں کو کیا معلوم
کہ وہ آج شادی پرپہنچنے سے پہلے اپنے ماں باپ کھو کر ہمیشہ کیلیے یتیم اور
مسکین ہو جائیں گے ،خلیل کی ماں کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا آج وہ اپنے
بیٹے اور اسکی فیملی کو شادی میں جانے کے لیے سر پر پیار نہیں دے رہی بلکہ
اپنی زندگی کی آخری ملاقات کر رہی ہے ان سے،اور خلیل کے گھر والوں کو جب یہ
خبر ملی کہ آپکے بھائی خلیل ،بھابھی اور انکی بیٹی کو رستے میں قانون نافذ
کرنے اور اس ملک کے عوام کے محافظوں نے سرعام گولیاں مار کر قتل کر ڈالا ہے
اس وقت انکا جسم وہیں ساکن ہو گیا مگر خلیل کی ماں کو کمرہ میں بند کرکے یہ
بتایا کہ ہمسایہ میں کسی کے ہاں فوتگی ہوئی ہے آپ آرام کریں ،ذیشان جو گاڑی
ڈرائیو کرکے اپنی دوستی نبھا ہ رہا تھا اسکی ماں تو ویسے بھی معذور ہے اس
طرح گھر اجڑے کہ لفظ ختم ہوئے ہمارے،لیکن مجھے فکر عمیر اور اسکی دو بہنوں
کی ستائے جا رہی ہے جن پر اپنے ماں باپ کے خون کے چھینٹے گرے کہیں وہ بڑے
ہو گر ملک وقوم سے اپنے ماں باپ کا بدلہ لینے کے لیے واقعی دہشت گرد نہ بن
جائیں ،جس طرح انکے ماں باپ کو انکی آنکھوں کے سامنے دہشت گرد کہ کر مار
دیا گیا وہ کیسے برداشت کرگئے ؟انکی اگلی زندگی میں کیا ہوگا آج کوئی نہیں
جانتا وہ بڑے ہو کر کیا کریں گے کسی کو اس بارے نہیں معلوم ،اور اگر ان
بچوں کے دل میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے تو جن لوگوں نے یہ ہمت کی اور اسکے
پیچھے کیا عزائم تھے سب سے پردہ اٹھنا چاہیے اور ان اہلکاروں کو جنہوں نے
یہ حکم دیا ان سب کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔باقی جو وزیراعظم عمران خان
نے مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگایا تھا میں پہلے دن سے ہی اس بات کے خلاف ہوں
کیونکہ مدینہ کی ریاست کی بنیاد اپنے جلسوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی ڈانس
پارٹیز ارینج کرکے نہیں رکھی جاتی ،بہرکیف خوش قسمتی سے میڈیا کو وقتاً
فوقتاً کوئی نہ کوئی ایسی ویڈیو موصول ہوتی رہی جس میں سی ٹی ڈی کی ہر بات
جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئی ،ساہیوال پولیس سے جب میڈیا حضرات نے رابطہ کیا تو
جواب ملا ہمیں اس واقع کے بارے میں آگاہ نہیں رکھا گیا یہ سی ٹی ڈی کے کچھ
کام ملک کے مفاد اور سلامتی رائج کرنے کے لیے ہوتے ہیں اس لیے وہ بہتر طور
پر بتا سکتے ہیں ہمیں اس بارے میں کوئی آگا ہی نہیں ،چنگی امرسدھو کا پورا
علاقہ بلکہ پورے پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے کی آنکھو ں میں آنسو آگئے جب عمیر
خلیل کی گفتگو کی ویڈیو موصول ہوئی ۔مگر جب بات وزیر اعظم عمران خان تک گئی
انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ٹیلی فون کیا اور ہدایت کی کہ فوری طور
پر ہسپتال پہنچو ،عثمان بزدار میانوالی سے فوراً ساہیوال ہسپتال پہنچے اور
بچوں کو یہ یقین دلایا کہ آپکے ماں باپ کو اس بے دردی سے قتل کرنے والوں کو
جلد از جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا ۔لیکن کچھ لوگ استعفیٰ استعفیٰ کی
رٹ لگا رہے ہیں اوراس مائینڈسیٹ کو فرغ دینے والے خود عمران خان اور انکے
حواری ہی ہیں جو ہر بات پر مسلم لیگ ن سے انکے وزیراعلیٰ پنجاب اور
وزیرقانون کا استعفیٰ لینے پر اتر آتے تھے اور میڈیا میں پریس کانفرنس کرکے
طرح طرح کے الزامات لگاتے پھرتے تھے۔اور آج اس واقعہ کے بارے میں وزیراعظم
عمران خان خود وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو کہ رہے ہیں جاؤ ذرا
ہسپتال کا دورہ کرآؤ بات بہت آگے بڑھ چکی ہے،اب عثمان بزدار کس قسم کے
وزیراعلیٰ ہیں جنہیں اتنے بڑے واقعہ کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں اور
وزیراعظم کال کرکے ہدایت کر رہا ہے کہ جا کر دیکھوکیا صورت حال ہے؟اس بات
کا جواب دینا میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا عثمان بزدار پنجاب کو اچھی طرح
سمبھال پارہے ہیں یا پرانے پاکستان کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب ان
سب معاملات کی آگاہی بخوبی رکھتے تھے؟یا کبھی پرانے پاکستان میں نواز شریف
نے کال کرکے کہا ہو کہ شہباز آپکواطلاع دینا تھی لاہور میں فلاں واقعہ پیش
آیا ہے ذرا ہسپتال کا چکر لگا لینا؟
|