نہر سوئز

مصر میں جاری سیاسی بحران کے عالمی بحران میں تبدیل ہونے کے خدشات میں اس امریکی دھمکی کے بعد اضافہ ہوگیا ہے ۔ جس میں امریکہ نے کہا ہے کہ نہر سوئز کی بندش پر سفارتی ‘ اقتصادی حتیٰ کہ فوجی طاقت سے جواب دے سکتے ہیں ، امریکا نے اپنے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ خطے میں اپنی عسکری سرگرمیوں میں ردو بدل کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا جس کی بڑی وجہ شمالی افریقہ میں پایا جانے والا عدم استحکام ہے۔ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز مائس نے واضح کیا ہے کہ نہر سوئز تیل سپلائی کا اہم ذریعہ ہے اور مصر میں جس نے بھی اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے بند کرنے کی کوشش کی وہ یقیناً ایک بہت بڑی غلطی کرے گا۔ اس کے علاوہ اس عمل کے شدید اقتصادی نقصانات برداشت کرنے ہونگے۔ جنرل جیمز مائس مصر سے پاکستان تک وسیع خطے میں امریکی فوجی آپریشنز کے نگران ہیں۔ ان کا یہ پالیسی بیان اس بات کا اظہار ہے کہ اس خطہ میں امریکہ اسرائیل کے مفادات کا پاسبان ہے۔ دوسری جانب مصر میں غیر یقینی سیاسی صورت حال کے سبب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مصر میں پرتشدد واقعات اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کی وجہ سے نہر سوئز کے راستے تیل بردار بحری جہازوں کی آمد و رفت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ لندن میں مارچ کے سودوں کے لئے برینٹ نارتھ سی کروڈ آئل کی قیمت ایک سو دو ڈالرز فی بیرل سے تجاوز کر گئی۔ یہ ستمبر دو ہزار آٹھ کے بعد فی بیرل تیل کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ نیویارک کی مارکیٹ میں بھی مارچ کے سودوں کے لئے فی بیرل تیل کی قیمت نو سینٹس اضافے کے ساتھ نوے ڈالرز چھیاسی سینٹس پر بند ہوئی اسی بحران کے تناظر میں امریکی جنرل کا کہنا ہے کہ مصر میں جو کوئی بھی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نہر سوئز کو بند کرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ ایک بہت بڑی غلطی کرے گا کیونکہ اس کے اقتصادی اثرات خوفناک ہوں گے۔ ایسے اقدام میرے تصور سے بھی باہر ہے‘۔جنرل جیمز ماٹس سے، جب یہ سوال کیا گیا کہ حسنی مبارک کے 30 سالہ دورِ اقتدار کے خلاف مظاہروں اور ہنگاموں کے سبب اگر بحری جہازوں کے سب سے اہم چینل، نہر سوئز کے روٹ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو کیا امریکہ جوابی کاروائیاں کرنے کے لئے تیار ہے؟ جنرل جیمز ماٹس کا کہنا تھا ’ اگر ایسا ہوتا ہے تو امریکہ، سفارتی، اقتصادی اور فوجی ہر طرح کی کاروائی کرسکتا ہے، تاہم میرے لئے یہ سب مفروضاتی ہے اور میں سیاسی لیڈروں کا اس سلسلے میں احترام کروں گا‘۔ مصر کے بحران میں شدت آنے کے ساتھ ہی رواں ہفتے کے اوائل ہی سے اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان رہا۔ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت مصر میں جاری پرتشدد مظاہرے دوسرے عرب ملکوں تک بھی پھیل سکتے ہیں اور تیل کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ یہ خدشہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی سے نہر سوئز کو بند کیاجا سکتا ہے۔ ایک طرف مصری عوام غربت، کرپشن اور پسماندگی سے تنگ آ چکے ہیں تو دوسری جانب نہر سوئز تیل کی سپلائی کا ایک اہم روٹ ہے اور اس کے ذریعے یومیہ ایک ملین بیرل تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ اس ترسیل کا اہم ذریعہ نہر سوئز ہے۔ جس سے امریکہ یورپ اور اسرائیل کے مفادات بندھے ہوئے ہیں۔ امریکی سینیٹ نے جنرل جیمز ماٹس کو گزشتہ اگست میں امریکی سینٹرل کمانڈ کا سربراہ مقرر کیا تھا اور انہوں نے جنرل پیٹریاس کی جگہ یہ اہم عہدہ سنبھالا تھا، جو افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کی سربراہی کر رہے تھے۔

تیل کی عالمی تنظیم اوپیک کے سیکرٹری جنرل عبد اللہ البدری نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ تیل کی سپلائی میں خلل آنے کی صورت میں تیل کی مجموعی پیداوار بڑھا دی جائے گی۔

قاہرہ میں اقتدار کی جنگ جاری ہے اور تحریر اسکوائر میں پرامن مظاہرین پر حسنی مبارک کے حامیوں کے روپ میں حملہ کرنے والے پولیس والوں کے وحشیانہ تشدد کے باوجود مظاہرین کے حوصلے بلند ہیں۔ پرامن ملین مارچ کے بعد 82 سالہ مصری صدر حسنی مبارک نے کہا ہے کہ وہ چند ماہ بعد اقتدار سے دست بردار ہو جائیں گے۔ لیکن عوام نے اس بات کو مسترد کردیا ہے اور فوری اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مصر کو برطانوی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے فوج میں ہم خیال افراد کا ایک گروہ تشکیل دیا تھا۔اسی گروہ نے 23 جولائی 1952ء کو بغاوت کرتے ہوئے حکومتی دفاتر، ریڈیو اسٹیشنوں، تھانوں اور قاہرہ میں فوج کے صدر دفتر پر قبضہ کرلیا۔ اس بغاوت کے نتیجے میں 1948ءکی عرب اسرائیل جنگ کے ہیرو جنرل محمد نجیب مصر کے صدر بن گئے۔

ناصر 1958ء میں ٹائم میگزین کے سرورق پر جمال عبدالناصر کی تصویر شائع ہوئی تھی، 23 جون 1956ء کو مصر کے صدر بنے۔ ان کے دور صدارت کے کارناموں میں نہر سوئز سے برطانوی افواج کا انخلا اور اسوان ڈیم کی تعمیر ہیں۔صدر ناصر شروع شروع میں ایک ایسی پالیسی پر عمل پیرا تھے جو مغربی ملکوں کے خلاف نہیں تھی لیکن 1954ءکے بعد وہ روس اور اشتراکی ممالک کی طرف زیادہ جھکنے لگے اور اس طرح مصر اور مغربی ممالک کے درمیان براہ راست کشمکش شروع ہوگئی جس کا پہلا بڑا اظہار اسوان بند کی تعمیر کے سلسلے میں ہوا۔مصر کی خوشحالی کا تمام تر انحصار دریائے نیل پر ہے، جس کی وجہ سے مصر کو تحفی نیل کہا جاتا ہے۔ نیل کے پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے مصری حکومت نے اسوان کے مقام پر پرانے بند کی جگہ ایک نیا اور زیادہ بڑا بند تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا تاکہ مصر میں مزید زمین زیر کاشت آسکے اور پن بجلی بڑی مقدار میں حاصل ہوسکے۔ امریکہ، برطانیہ اور عالمی بینک نے اس منصوبے کے لیے قرضہ فراہم کرنے کا وعدہ بھی کرلیا تھا لیکن ان ملکوں نے جب دیکھا کہ مصر روس اور اشتراکی ممالک کی طرف مائل ہورہا ہے اور ایک ایسی پالیسی پر چل رہا ہے جو ان کے مفاد کے خلاف ہے تو انہوں نے جولائی 1956ءمیں قرضہ دینے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ سوئز بحران اسوان بند کی تعمیر مصری معیشت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی تھی اس لیے مصر میں امریکہ اور برطانیہ کے فیصلے کے خلاف شدید ردعمل ہوا صدر ناصر نے فرانس اور برطانیہ کی زیر ملکیت نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا اور اعلان کیا کہ اسوان بند نہر سوئز کی آمدنی سے تعمیر کیا جائے گا۔برطانیہ اور فرانس نے مصر کے اس فیصلے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر سازش کے تحت 29 اکتوبر 1956ءکو اسرائیل کے ذریعے مصر پر حملہ کرادیا جس کے دوران اسرائیل نے جزیرہ نمائے سینا پر قبضہ کرلیا۔ اگلے ہفتے برطانیہ اور فرانس نے بھی نہر سوئز کے علاقے میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ برطانیہ اور فرانس کی اس جارحانہ کاروائی کا دنیا بھر میں شدید رد عمل ہوا، امریکہ نے بھی پرزور مذمت کی اور روس نے مصر کو کھل کر امداد دینے کا اعلان کیا۔ رائے عامہ کے اس دباؤ کے تحت برطانیہ اور فرانس کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں اور اسرائیل نے بھی جزیرہ نمائے سینا خالی کردیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے دستے مصر اور اسرائیل کی سرحد پر متعین کردیئے گئے تاکہ طرفین ایک دوسرے کے خلاف جنگی کاروائی نہ کرسکیں۔یہ واقعہ "سوئز بحران" کہلاتا ہے۔ غیر ملکی افواج کے کامیاب انخلا سے ناصر عرب دنیا میں ہیرو اور فاتح کی حیثیت سے ابھرے۔

روس کی مدد سے اسوان بند کی تعمیر یکم جنوری 1960ء کو شروع اور 1970ء میں مکمل ہوئی۔ بند کی تعمیر کے نتیجے میں جو جھیل وجود میں آئی اسے جھیل ناصر کا نام دیا گیا۔

روسی اثر کا بڑھنا
ناصر اور خروشیف9 سے 26 مئی 1964ء تک مصر کے دورے کے دوران سوویت وزیراعظم نکیتا خروشیف نے ناصر کو "ہیرو آف سوویت یونین"، آرڈر آف لینن" اور "سوویت گولڈن اسٹار" کے اعزازات سے نوازا۔

اسوان بند کی تعمیر کی ذمہ داری بھی روس نے قبول کرلی اور وسیع پیمانے پر اسلحہ بھی مصر کو فراہم کرنا شروع کردیا۔ مصر نے یہ پالیسی اگرچہ مغربی اثرات سے آزاد رہ کر قومی مقاصد کو اپنی مرضی کے مطابق پورے کرنے کے لیے اختیار کی تھی لیکن مغرب سے پوری طرح کٹ جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصر کی غیر جانبدارانہ پالیسی ختم ہوگئی اور مصر نہ صرف اپنی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل بلکہ اپنی بقا کے لیے بھی روس کا محتاج ہوگیا۔ مصر کی حالت تقریباً اس قسم کی ہوگئی تھی جو سوئیکارنو کے آخری دور میں انڈونیشیا کی تھی۔ ناصر نے اگرچہ انقلاب کے آغاز میں ہی کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیا تھا لیکن اس کے باوجود اشتراکی نظریات پہلے سے زیادہ شدت سے مصر میں عام ہونا شروع ہوگئے اور صدر ناصر کے دور میں مصر میں جن سماجی اور اقتصادی نظریات کا غلبہ ہوا وہ روس کے اشتراکی نظریات سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔

نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے کر برطانیہ اور فرانس کے حملوں کا جرات کے ساتھ مقابلہ کر کے ناصر نے جس ہمت کا ثبوت دیا اس کی وجہ سے وہ عربوں میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم مصر کا وقار بڑھ گیا لیکن مصر کے وقار میں اس اضافے کے ساتھ ساتھ مصر پر روس کے اثرات میں اضافہ ہوگیا۔ اب تک مصر کے بیشتر ترقیاتی منصوبے امریکہ اور مغربی ممالک کی امداد سے مکمل کئے جاتے تھے لیکن ہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کے بعد مغربی ممالک سے مصر کے تعلقات ختم ہوگئے۔ اس طرح بیرونی امداد کے معاملے میں جو خلا پیدا ہوا اسے روس اور دیگر اشتراکی ممالک نے پر کرنے کی کوشش کی۔صدر ناصر چونکہ عرب دنیا کی مقبول ترین شخصیت بن چکے تھے اس لیے انہوں نے اپنی اس حیثیت سے فائدہ اٹھاکر عرب اتحاد کےلیے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ اس مقصد کی تکمیل میں عرب ملکوں کے بادشاہی نظام اور غیر اشتراکی نظام سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ ناصر نے ان کو ختم کرنے کے لیے جمہوری طریقوں کے بجائے سازشوں کا طریقہ اختیار کیا اور عرب ملکوں میں براہ راست مداخلت شروع کردی۔ اس طریقہ کار نے عرب ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ناصر عرب اتحاد نہیں بلکہ اپنا اقتدار چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ممالک کے اختلافات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے۔

عرب اتحاد کا نعرہ عرب اتحاد کے نقطہ نظر سے 1958ء سے 1960ء تک کا زمانہ سب سے کامیاب زمانہ کہا جاسکتا ہے۔ فروری 1958ء میں شام میں اشتراکیوں کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے شام نے مصر سے الحاق کرلیا اور اس طرح دونوں ملکوں پر مشتمل متحدہ عرب جمہوریہ وجود میں آئی۔ بعد میں یمن اس جمہوریہ کا تیسرا رکن بن گیا لیکن صدر ناصر کی آمرانہ پالیسی کی وجہ سے متحدہ عرب جمہوریہ کی گاڑی زیادہ دن نہ چل سکی۔ سب سے پہلے شام نے بغاوت کی اور وہ 30 ستمبر 1961ء کو مصر سے علیحدہ ہوگیا۔ اس کے بعد یمن کو خود مصر نے متحدہ عرب جمہوریہ سے خارج کردیا۔ اس کے باوجود مصر اپنےلیے 10 سال یعنی ستمبر 1971ء تک متحدہ عرب جمہوریہ کی اصطلاح استعمال کرتا رہا۔

عرب ممالک میں مداخلت صدر ناصر اگرچہ اپنے حامیوں کی مدد سے عراق، شام اور اردن میں مداخلت کررہے تھے اور سعودی عرب کے خلاف انہوں نے مسلسل مہم چلائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام ممالک میں مغربی کٹھ پتلی حکومتیں بادشاہت کی صورت میں قائم تھیں اور ہر فیصلے کے لیے مغرب کی محتاج تھیں۔ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سب سے نمایاں مثال یمن کی ہے۔ یہاں انہوں نے پہلے تو یمنی حریت پسندوں کے ایک گروہ سے سازش کرکے ستمبر 1965ء میں امام یمن کا تختہ الٹ دیا اور جب اس کے نتیجے میں شاہ پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو صدر ناصر نے اپنے حامیوں کی مدد کے لیے وسیع پیمانے پر فوج اور اسلحہ یمن بھیجنا شرع کردیا اور چند ماہ کے اندر یمن میں مصری فوجوں کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ گئی۔ بلاشبہ صدر ناصر کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے عرب کے ایک انتہائی پسماندہ ملک یمن میں بادشاہت کا قدیم اور فرسودہ نظام ختم ہوگیا اور جمہوریت کی داغ بیل ڈال دی گئی لیکن یہ اقدام خود مصر کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔

صدر ناصر یمن کی فوجی امداد کے بعد اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب مصر دنیائے عرب کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے وہ اسرائیل کے مقابلے میں روس پر مکمل بھروسہ کر سکتا ہے چنانچہ ایک طرف تو انہوں نے طاقت کے مظاہرے کے لیے ہزاروں فوجی یمن بھیج دیئے اور دوسری طرف اسرائیل کو دھمکایا۔ اقوام متحدہ کی جو فوج 1956ء سے اسرائیل اور مصر کی سرحد پر تعینات تھی صدر ناصر نے اس کی واپسی کا مطالبہ کردیا اور آبنائے عقبہ کو جہاز رانی کے لیے بند کرکے اسرائیل کی ناکہ بندی کردی۔ اسرائیل اس جنگ کے لیے پوری طرح تیار تھا اورامریکہ اس کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ انھوں نے مصر کی کمزوری کا اندازہ کرکے جون 1967ءکے پہلے ہفتے میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصر پر حملہ کردیا اور مصر کا بیشتر فضائی بیڑہ ایک ہی حملے میں تباہ کردیا۔ مصر کی فوج کا بڑا حصہ یمن میں تھا جسے بروقت بلانا ممکن نہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دن کی مختصر مدت میں اسرائیل نے نہ صرف باقی فلسطین سے مصر اور اردن کو نکال باہر کیا بلکہ شام میں جولان کے پہاڑی علاقے اور مصر کے پورے جزیرہ نمائے سینا پر بھی قبضہ کرلیا۔ ہزاروں مصری فوجی قیدی بنالئے گئے اور روسی اسلحہ اور ٹینک یا تو جنگ میں برباد ہوگئے یا اسرائیلیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ عربوں نے اپنی تاریخ میں کبھی اتنی ذلت آمیز شکست نہیں کھائی ہوگی اور اس کے اثرات سے ابھی تک عربوں کو نجات نہیں ملی۔ اسرائیل کے مقابلے میں اس ذلت آمیز شکست کے بعد صدر ناصر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سعودی عرب اور اردن سے مفاہمت پیدا کی اور شاہ فیصل سے تصفیہ کے بعد جس کے تحت مصر نے یمن میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا، مصری فوجیں یمن سے واپس بلالی گئیں۔ مصر کی شکست کی سب سے بڑی وجہ مصری فوج کی نااہلی اور مصری فوجی نظام کے نقائص تھے لیکن مصری فوج اور اسلحہ کی بڑی تعداد کو یمن بھیجنا بھی شکست کی ایک بڑی وجہ تھی۔

جون 1967ءکی جنگ کے نتیجے میں غزہ (فلسطین)، اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل (ایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر) کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا، نہر سوئز بند ہوگئی اور مصر جزیرہ نمائے سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہوگیا۔ صدر ناصر نے شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے فوراً استعفی دے دیا لیکن ایک آمرانہ نظام میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ آمر کی جگہ لینے والا آسانی سے نہیں ملتا۔ مصر میں بھی یہی ہوا چونکہ کوئی متبادل رہنما سامنے نہیں آیا اس لئے 9 جون کو استعفی واپس لینے کےلیے قاہرہ میں مظاہرے کئے گئے اور صدر ناصر نے استعفی واپس لے لیا۔ اس طرح صدر ناصر کا اقتدار تو قائم رہا لیکن 1967ء کی شکست کی وجہ سے مصری فوج کی عزت خاک میں مل گئی۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر فقرے چست کرنے لگے جس کی وجہ سے فوجیوں کو عام اوقات میں وردی پہن کر سڑکوں پر نکلنے سے روک دیا گیا۔

1967ء کی جنگ نے مصر کی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ مصر کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ نہر سوئز تھی جس کی وجہ سے مصر کو ہر سال ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ نہر کے مشرقی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہوجانے کے بعد نہر سوئز میں جہاز رانی بند ہوگئی۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ مصر کو اسرائیل کی جارحانہ کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی نہر سوئز کی آمدنی کا بند ہونا بڑا تباہ کن ثابت ہوتا لیکن سعودی عرب، کویت اور لیبیا آڑے آئے اور تینوں نے مل کر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کر کے نہر سوئز کی بندش سے ہونے والے نقصان کی تلافی کردی۔

جولائی 1968ء میں صدر ناصر نے روس کا دورہ کیا جس کے بعد روس نے مصر کو از سر نو مسلح کرنا شروع کیا۔ روس نے پہلی مرتبہ زمین سے ہوا میں چلائے جانے والے کم فاصلے کے میزائل مصر کو دیئے۔ آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا تیز چلنے والے جیٹ طیارے اور 500 ٹینک دینے کا وعدہ کیا۔ تین ہزار فوجی مشیر اور فنی ماہر بھی فراہم کئے۔ عرب ملکوں میں سعودی عرب، کویت اور لیبیا نے وسیع پیمانے پر مالی امداد فراہم کی۔ روس اور عرب ملکوں کی اس امداد سے مصر کے فوجی نقصانات کی ایک حد تک تلافی بھی ہوگئی اور اقتصادی حالت بھی سنبھل گئی۔ 1968ء کے آخر میں اسوان بند نے بھی کام شروع کردیا۔

صدر نے اگرچہ 1968ء میں ایک استصواب رائے کے ذریعے عوام کا اعتماد بھی حاصل کرلیا تھا لیکن ان کی پالیسی کے خلاف اندرونی بے چینی میں برابر اضافہ ہورہا تھا لیکن اس کا اظہار استبدادی نظام کی وجہ سے کھل کر نہیں ہوسکتا تھا لیکن جنوری 1968ءمیں طلبہ نے پولیس راج کے خلاف جو مظاہرہ کیا اس سے اس بے چینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ روس کی پالیسی سے عوام غیر مطمئن تھے لیکن اب صدر ناصر کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ روس صرف دفاع کی حد تک اسلحہ دینا چاہتا تھا اور وہ مصر کو اتنا مضبوط نہیں بنانا چاہتا تھا کہ اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔ اس کے بر خلاف امریکہ نے اسرائیل کو اتنا مسلح کردیا تھا کہ وہ اپنے پڑوس کے تمام عرب ملکوں کے خلاف بیک وقت جارحانہ کارروائی کر سکتا تھا۔ صدر ناصر کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ روس فوجی اور اقتصادی امداد کے ذریعے مصر میں کمیونزم کا فروغ چاہتا ہے اور فلسطین سے متعلق عربوں کی پالیسی کو اپنے مفاد کے تحت تشکیل دینا چاہتا ہے۔ آخر کار صدر ناصر نے طے کیا کہ اسلحہ اور اقتصادیات کے معاملے میں صرف ایک ملک پر انحصار مصر کے لیے مفید نہیں ہوسکتا اور 1969ء میں انہوں نے اس مقصد کے لیے مغرب خصوصاً فرانس کی طرف رخ کیا لیکن صدر ناصر کی یہ پالیسی ابھی واضح شکل بھی اختیار نہ کر پائی کہ 28 ستمبر 1970ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔

اخوان المسلمون پر مظالم
ناصر اور اخوان ناصر نے اپنے دور اقتدار میں 13 جنوری 1954ء کو اخوان المسلمون پر پابندی عائد کر کے اسے خلاف قانون قرار دے دیا اور حسن الہضیبی سمیت بہت سے اخوانی گرفتار کرلئے گئے۔ اخوان کی سرگرمیاں پابندی کے بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔ 7 جولائی 1954ء کو مصری حکومت نے جب انگریزوں سے معاہدہ کیا تو اخوان نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اس معاہدے کو مصر کو برطانیہ کے ہاتھوں فروخت کر دینے کے مترادف قرار دیا۔ اس معاہدے کی مخالفت کی وجہ سے حکومت نے روزنامہ اخوان المسلمون پر 10 ستمبر 1954ء کو پابندی لگادی۔ 26 اکتوبر کو ناصر پر قاتلانہ حملہ ہوا جس نے ناصر کو اخوان کے خلاف کاروائی کرنے کا موقع فراہم کردیا اور اخوان کی تردید کے باوجود کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ مصر کے مشہور اخبار "المصری" کے ایڈیٹر احمد ابو الفتح کے مطابق چند ہفتوں کے اندر گرفتار ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ گئی جن میں سید قطب اور عبدالقادر عودہ جیسے مفکر اور ادیب بھی شامل تھے۔ 7 نومبر 1954ء کو فوجی عدالت نے 6 ممتاز اخوان رہنماؤں کو صفائی کی سہولتیں فراہم کئے بغیر سزائے موت سنادی۔ حسن ہضیبی کی سزائے موت بڑھاپے کی وجہ سے عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔

مارچ 1964ء میں جب مصر میں ہنگامی حالت کا خاتمہ ہوا تو تمام سیاسی قیدی رہا کردیئے گئے جن میں اخوان بھی تھے لیکن ایک سال بعد ہی اخوان پر ابتلا اور آزمائش میں مبتلا ہوگئے۔ جولائی 1965ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں پکڑ دھکڑ کی نئی مہم شروع ہوگئی جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6 ہزار اخوان گرفتارکر لئے گئے جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق یہ تعداد 20 سے 50 ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔جن میں تقریبا 800 خواتین بھی شامل تھیں۔ حسن ہضیبی بھی دوبارہ گرفتار کر لئے گئے اور ان کو تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی جس کی تاب نہ لاکر وہ 8 نومبر 1965ء کو شہید ہوگئے۔

اس مرتبہ کو جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سب سے ممتاز شخصیت استاد سید قطب (1906ء تا 1966ء) کی تھی جو نہ صرف اخوان کے حلقے بلکہ اپنے زمانے میں مصر کے سب سے بڑے مفکر اور ادیب تھے۔ انہیں 13 جولائی 1955ء کو عوامی عدالت کی طرف سے 15 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ تاہم ان کی علمی عظمت سے واقفیت کے بعد ناصر نے انہیں ایک سال بعد معافی کی شرط پر رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن سید قطب نے معافی مانگنے سے انکار کردیا۔ انہیں وزارت تعلیم کی بھی پیشکش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرادی۔ حکومتی پیشکشیں قبول نہ کرنے پر سید قطب کی رہائی عمل میں نہ آسکی۔ مارچ 1964ء میں ہنگامی حالت کے خاتمے کے بعد رہا ہونے والے سیاسی قیدیوں میں وہ بھی شامل تھے لیکن ایک سال بعد اخوان کے تیسرے دور ابتلاء و آزمائش میں وہ پھر گرفتار کرلئے گئے۔ اس مرتبہ ان کے بھائی محمد قطب اور دو بہنیں حمیدہ قطب اور امینہ قطب بھی گرفتار ہوئیں۔ 25 اگست 1966ء کو حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں پر بند کمرے میں مقدمہ چلایا گیا۔ ملزمان کی طرف سے پیروی کرنے والا کوئی وکیل نہ تھا، باہر کے لوگوں نے پیروی کرنا چاہی لیکن انہیں اس کی اجازت نہ دی گئی۔ بالآخر 25 اگست 1966ء کو سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح وہ حق کی خاطر جان لٹانے والے شہداء کے قافلے کے ہم سفر بن گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینا، زرعی و صنعتی اصلاحات اور مغرب کی سامراجی قوتوں کے مقابلے میں جرات مندانہ اقدامات صدر ناصر کے ایسے کارنامے ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے روشن کارناموں کو ان کے استبدادی مزاج اور مخالف عناصر پر ہولناک مظالم نے داغدار کردیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ تاریخ میں صدر ناصر کا نام اسلامی تحریک کو کچلنے، اسلامی اقدار اور پیغام کو دبانے اور غیر اسلامی اقدار کو فروغ دینے والوں میں سر فہرست ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے شخص کے دور میں ہوا جس نے مصر سے باہر افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کےلیے قابل قدر کوششیں کیں۔ ناصر کی طبیعت کا یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ اسلام سے زیادہ ان کو اپنا اقتدار عزیز تھا۔

نہر سوئز
نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گذرگاہ ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔ اس کے بحیرہ روم کے کنارے پر پورٹ سعید اور بحیرہ قلزم کے کنارے پر سوئز شہر موجود ہے۔ یہ نہر 163 کلومیٹر (101 میل) طویل اور کم از کم 300 میٹر چوڑی ہے۔اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ 1869ء میں نہر کی تعمیر سے قبل اس علاقے سے بحری جہاز ایک جانب سامان اتارتے تھے اور بحیرہ قلزم تک اسے بذریعہ سڑک لے جایا جاتا تھا۔

بحیرہ احمر یا بحیرہ قلزم بحر ہند کی ایک خلیج ہے۔ یہ آبنائے باب المندب اور خلیج عدن کے ذریعے بحر ہند سے منسلک ہے۔ اس کے شمال میں جزیرہ نمائے سینا، خلیج عقبہ اور خلیج سوئز واقع ہیں جو نہر سوئز سے ملی ہوئی ہے۔ 19 ویں صدی تک یورپی اسے خلیج عرب بھی کہتے تھے۔تاریخ میں پہلی بار بحیرہ احمر میں سفر کی کوشش مصریوں نے کی۔ بائبل میں موسیٰ کی کہانی میں ایک کنیز کے بیٹے کی جانب سے اسرائیلیوں کو آزادی دلانے کے لئے بحیرہ احمر کو عبور کرنے کی کوششوں کا ذکر ہے۔ یورپیوں نے15 ویں صدی میں بحیرہ احمر میں پہلی بار دلچسپی کا اظہار کیا۔ 1798ء میں فرانسیسی جنرل نپولین بوناپارٹ نے مصر پر حملہ کر کے بحیرہ احمر پر قبضہ کرلیا۔ انجینئر جےپی لیپیر نے بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کو ملانےکے لئے نہر کی تعمیر کی, جس کا منصوبہ عثمانیوں نے بنایا تھا مگر اسے بنا نہ سکے تھے۔ نہر سوئز کو نومبر 1869ء میں کھولا گیا۔ اس وقت برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے مشترکہ طور پر نہر میں تجارتی مقامات سنبھالے۔ جنگ عظیم اول کے بعد یہ مقامات بتدریج ختم ہوگئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین نےاپنا اثر و رسوخ بڑھانےکی کوشش کی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان 6 روزہ جنگ کے باعث نہر سوئز 1967ء سے 1975ء تک بند رہی۔

سوئز کی اہمیت کے پیش نظر اسرائیل اب سوئز پر گرفت رکھتا ہے۔ اس کی میرین بھی یہاں آتی جاتی ہیں اور یہاں ایک سرنگ بھی بنانے کی اطلاعات ہیں۔ گذشتہ سال اسرائیل کی ایک سب میرین نے نہر سوئز سے بحر اسود کے درمیان بحریہ کی ایک فوجی مشق میں حصہ لیا تھا.اس بات کا انکشاف دفاعی ذرائع نے کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ''اسرائیلی بحریہ نے ایلات کے ساحلی علاقے میں فوجی مشق کی تھی اور اس دوران اسرائیل کی ایک ڈالفن کلاس کی سب میرین نے بحراسود سے نہرسوئیز تک چکر لگایا تھا اور یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ایک اسرائیلی کے مطابق''اس فوجی مشق کی کئی ماہ قبل منصوبہ بندی کی گئی تھی.بحری تجربہ رکھنے والے ایک اور اسرائیلی ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بحری مشق سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہم پہلے کی نسبت زیادہ سرعت اور آسانی کے ساتھ بحرہند اور خلیج فارس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں'' مصری ذرائع اس بات سے آگاہ ہیں کہ اسرائیل نے سوئز میں خفیہ گزر گاہ بنالی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں نے نہر میں اگر کوئی ایسا راستہ بنالیا ہے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ مصراوراسرائیل حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ اسرائیلی روزنامہ یدیعوت احرنوت نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ایک اسرائیلی سب میرین نے پہلی مرتبہ میں نہر سوئز کو بحیرہ احمر میں فوجی مشق میں حصہ لینے کے لئے استعمال کیا تھا.اس سے پہلے اسرائیلی بحری جہاز بحیرہ احمر میں پہنچنے کے لئے افریقہ کا ایک ہفتے کا لمبا سمندری چکر کاٹتے تھے.

اس اخبارکی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈالفن سب میرین کے ساتھ مصر کے بحری جہاز بھی سفر کررہے تھے اور یہ اسرائیل کے دشمن ملک ایران کے لئے ایک واضح پیغام تھا اور اسرائیل اورمصرکی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کے خطرے کے پیش نظر آپس کے باہمی رابطے کا اظہار تھا.اسرائیل کو شبہ ہے کہ ایران اپنے سویلین نیوکلئیر پروگرام کے پردے میں جوہری بم تیار کررہا ہے اور اسے اس بم سے خطرہ ہے.لیکن ایران اس الزام کی مسلسل تردید کرتا چلا آرہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے.واضح رہے کہ اسرائیل کومشرق وسطیٰ کی واحد جوہری طاقت سمجھا جاتا ہے ۔نہر سوئز شمال مشرقی افریقہ میں واقع ہے اور یہ دنیا کے تین براعظموں کے مختلف ممالک کو ملانے کا نزدیک ترین بحری راستہ ہے۔مصر کی ترقی کا استحکام اور اس کے خرچ کا دار و مدار زیادہ تر بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کے اعتماد پر منحصر ہے جو بڑی تعداد میں سیاح کے روپ میں آتے ہیں یا پھر وہ کمپنیاں جو حکمت عملی کے اعتبار بہت ہی اہم سوئز کینال کے ذریعے اپنے مال بردار بحری جہاز بھیجتی ہیں۔موجودہ حکومت مخالف مظاہروں کے پیش نظر بحران سے بچنے کے لیے بیشتر بیرونی کمپنیوں نے بچاؤ کی تدابیر اپنائی ہیں۔ ادھر اس خدشے کے پیش نظر کہ اس بحران سے تیل کی آمد و رفت متاثر ہوگی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ائر لائنز اور سیاحتی کمپنیوں میں شیئرز گرنے لگے ہیں اور سیاحوں کو یا تو ملک چھوڑ کر جانے کے لیے کہا جا رہا ہے یا پھر اہم شہروں میں جانے سے باز رہنے کو کہا جا رہا ہے۔مصر کودو ہزار نو میں شعبہ سیاحت سے ساڑھے گیارہ کروڑ ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی کمائی ہوئی تھی۔ اگرچہ دو ہزار دس کے حتمی نتائج نہیں آئے ہیں لیکن سال کے پہلے نصف میں مصر جانے والوں میں تقریباً اکیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔مصر میں تقریباً بارہ فیصد محنت کش لوگ شعبہ سیاحت سے جڑے ہیں اور اکتوبر سے مئی تک کے درمیان سیاحت کے لیے سب سے اہم وقت ہوتا ہے۔مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کی طرف سے مستقل یہ بات دہرانے کے باوجود کہ سوئز کنال میں آمد و رفت متاثر نہیں ہوگی۔سنہ انیس سو ستانوے میں لگزر میں اٹھاون سیاحوں کے قتل کے بعد سے آنے والوں میں کمی دیکھی گئی تھی۔ گیارہ ستمبر کو امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر حملے اور دو ہزار چار اور چھ میں سینائی میں حملے کے بعد سے بھی سیاحوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مجموعی سطح پر اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سنہ دو ہزار میں تقریباً پچپن لاکھ لوگ مصر گئے تھے جس سے سوا چار ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی آمدنی ہوئی تھی۔مصر کے موجودہ بحران سے ایک بات تو صاف ہے کہ عالمی معیشت باہم مربوط ہے لیکن یہاں اس کا واضح ثبوت سوئز کنال کے روپ میں ہی دکھتا ہے۔سرمایہ کاروں اور بیرونی کمپنیوں میں سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ کہیں اس سے سوئز کنال کو تو خطرہ لاحق نہیں ہے کیونکہ ان مظاہروں کا ایک اہم مرکز سوئز شہر بھی رہا ہے۔مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کی طرف سے مستقل یہ بات دہرانے کے باوجود کہ سوئز کنال میں آمد و رفت متاثر نہیں ہوگی، تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔عالمی سطح پر تیل کی پیداوار کا تقریبا ایک فیصد تیل ٹینکرز یا پائپ لائن سے نہر سوئز سے ہی گزرتا ہے۔ اس نہر سے ہر برس تقریباً پینتیس ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں اور دنیا میں مال بردار جہازوں کی آمد ورفت کے لیے یہ سب سے اہم راستوں میں ایک ہے۔

بی این پی کے ٹام بینٹز کہتے ہیں کہ '' سپلائی کے حوالے سے پر اب کچھ پریشانی ہے۔ ان کے مطابق نہر سوئز میں کسی بھی طرح کی رخنہ اندازی سے امریکہ سے زیادہ یوروپ کو پریشانی ہوگی۔

تیل اور سیاحت کے بعد سوئز کینال مصر کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس ماہ حکام نے سوئز کنال سے دو ہزار دس میں حاصل ہونے والے محصولات پونے پانچ ارب امریکی ڈالر بتایا ہے۔

اگرچہ مصری حکام اس بات پر مصر رہے ہیں کہ وہ سوئز کینال میں کسی بھی طرح کی رخنہ اندازی کی کوششوں سے سختی سے نمٹیں گے۔

ایک حالیہ رپورٹ میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف، جس نے دو ہزار آٹھ میں مصر میں تقریباً تئیس لاکھ لوگوں کو بے روزگار بتایا تھا، کا کہنا ہے کہ دو ہزار بیس تک یہ تعداد ستّر لاکھ سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ڈنمارک کی شپنگ اور تیل کمپنی اے پی مولیر میئرزک کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے ان کی تجارتی اور آپریشنل سروسز متاثر ہوئی ہیں۔

اس کمپنی کے کینال میں پچپن فیصد کنٹینرو ہیں لیکن کپمنی کے ایک ترجمان نے موجودہ صورت حال سے ہونے والے نقصانات کے متعلق قیاس آرائی کرنے سے انکار کر دیا۔

اس موجودہ صورت حال کے اثرات سے پنپنے والے ایک اس امکان پر بھی غور ہورہا ہے کہ کہیں اس سے عالمی سطح پر ایسی تبدیلیاں تو رونما نہیں ہوں گی جس سے مزید بحران جنم لیں ۔

ایک حالیہ رپورٹ میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف، جس نے دو ہزار آٹھ میں مصر میں تقریباً تئیس لاکھ لوگوں کو بے روزگار بتایا تھا، کا کہنا ہے کہ دو ہزار بیس تک یہ تعداد ستّر لاکھ سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔کچھ عرصے پہلے غزہ میں محصور افراد کو امدادی سامان پہنچانے پر نہر سوئز سے گزرنے پر بھی ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ اورمصر میں نہر سوئز انتظامیہ کے ایک سرکاری عہدیدار نے کہا تھا کہ انتظامیہ کو ایران سمیت کسی ملک کی جانب سے نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت کے لیے درخواست موصول نہیں ہوئی ہے تاہم ہماری جانب سے امدادی سامان لیکر غزہ آنے والے کسی بھی ایرانی جہاز کا راستہ روکا نہیں جائے گا۔

معروف مصری اخبار ”اھرام“ نے نہر سوئز کے امور کے ذمہ دار کے حوالے سے کہا ہے کہ ” نہر سوئز انتظامیہ ایرانی جہازوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ معاہدہ قسطنطنیہ کے مطابق کسی بھی ملک کے بحری جہاز کو نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت ہے۔ ایران میں موجود ہلال احمر تنظیم نے غزہ کی پٹی کا چار سال سے جاری اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے لیے امدادی سامان پر مشتمل بحری جہاز غزہ کی پٹی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 3 فروری سنہ 1915 عیسوی کو پہلی جنگ عظیم کے دوران نہر سوئز پر پہلی بار حملہ کیا گیا۔ نہر سوئز وہ آبی راستہ ہے جوبحیرہ روم کو بحیرہ احمر سے ملاتا ہے۔اس دن جرمنی اور عثمانی سلطنت کی فوجوں نے مشترکہ طور پر نہر سوئز پر حملہ کیا جو انگریزوں کے قبضے میں تھی۔لیکن انہیں شکست ہوئی اور وہ پیچھے ہٹ گئیں۔نہر سوئز پر انگریزوں کا قبضہ باقی رہا۔ 1956 میں مصری رہنما جمال عبدالناصر کے ذریعے نہر سوئز کو قومیانے کے اعلان تک اس پر انگریزوں کا ہی قبضہ تھا ۔نہر سوئز سے گزرنے کے لئے جہازوں کو کتنا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے اس کا انحصار جہاز پر لدے سامان پر ہوتا ہے۔ اہم وجہ صومالی قزاقوں کا خطرہ ہے۔ اگرچہ افریقہ کا چکر کاٹ کر منزل تک پہنچنے میں 10 دن زیادہ لگتے ہیں لیکن اس روٹ پربحری قزاقی کا خطرہ کم ہے۔ سوئز میں داخل ہونے کا منظر ایک سیاح نے یوںبیان کیا ہے۔

رنگین خانوں میں بٹی دیوار کی طرح ایک عظیم Containership آہستہ آہستہ اسماعیلیہ کےساحلی علاقے سے گزر کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ یہ جہاز ساحل سے صرف پچاس میٹر دور ہے لیکن اس کے انجنوں کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مغرب کی جانب کھجور اور آم کے پیڑ دکھائی دیتے ہیں جبکہ مشرق کی جانب صحرائے سینائی پھیلا ہے۔ درمیان میں نہر سوئز ہے جس کا پانی گہرا نیلا ہے۔نہر کے کنارے ایک اونچی عمارت کھڑی ہے جہاں سے بحری جہازوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جہاز رانی شعبے کے انچارج Mohammad Abdelkader نے نیوی گیشن سنٹر میں نصب ایک بڑی سکرین دکھاتے ہوئے کہا۔:” اس سکرین پر ہم راڈار تصویروں کی مدد سے نہر کے کسی بھی حصے کو چیک کر سکتے ہیں۔ شمال کی طرف سے آنے والے بحری جہازوں کو Bitter Lake میں اس وقت تک رکنا پڑتا ہے جب تک کہ جنوب سے آنے والا جہازوں کا قافلہ گزر نہیں جاتا۔“جنوب کی پورٹ سعید سے شمال کی سوئز بندرگاہ تک پہنچنے میں جہازوں کو اوسطا ً 14 گھنٹے لگتے ہیں۔ اس کے الٹ سفر میں اس قدر وقت نہیں لگتا۔ کیونکہ جہازوں کو انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ ہر روز تین قافلے نہرسے گزرتے ہیں۔ تقریبا ً 60 جہاز روزانہ نہرسوئز سے گزر کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ سوئزکینال انتظامیہ کے ڈائریکٹر Ahmad Ali Fadel نے بتایا:”ایک جہاز جو نہرسوئزسے گزرتا ہے،اسے منزل تک پہنچنے میں کم وقت لگتا ہے، اس کا ایندھن بھی کم خرچ ہوتا ہے اور اب اسے کرایہ بھی پہلے کے مقابلے میں کم ادا کرنا پڑتا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں سستی ہونے کی وجہ سے بہت سے جہاز اب کیپ ٹاؤن کے متبادل روٹ سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ایک طرح سے کاروباری مقابلے کا سامنا ہے جو پہلے نہیں تھا۔“اس کی سب سے بڑی وجہ بحری قزاقی کے واقعات ہیں Ahmad Ali Fadel نے کہا کہ بحری قزاق دلیر ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ صومالیہ کے ساحلی علاقوں تک ہی کاروائیاں کرتے تھے، اب ساحل سے 50 سمندری میل دور تک مار کرنا ان کے لئے ایک عام سی بات ہے۔ نہر سوئز کو گہرا اور چوڑا کرنے کا کام جاری ہے۔ جس کے بعد یہاں سے 22 میٹر گہرائی تک پانی میں ڈوبے Containership بھی گزر سکیں گے۔ مصر میں غیر یقینی سیاسی صورت حال اور پرتشدد واقعات کی وجہ سے نہر سوئز کے راستے تیل بردار بحری جہازوں کی آمد و رفت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ لندن میں مارچ کے سودوں کے لئے برینٹ نارتھ سی کروڈ آئل کی قیمت ایک سو دو ڈالرز فی بیرل سے تجاوز کرگئی۔ یہ ستمبر دو ہزار آٹھ کے بعد فی بیرل تیل کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ نیویارک کی مارکیٹ میں بھی مارچ کے سودوں کے لئے فی بیرل تیل کی قیمت 9 سینٹس اضافے کے ساتھ 90 ڈالرز 86 سینٹس پر بند ہوئی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہودیوں کا تیسرا ہدف کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں ہیں جو خطے میں نہر سوئز سے زیادہ معاشی اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں۔ مسلم امہ کی تاریخ قوم پرستی اور غداری سے داغدار ہے۔دیکھئے تاریخ میں سوئز نہر کیا گل کھلاتی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 390380 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More