مجھے کچھ کہنا ہے
السلام علیکم
آج کل ہر جانب انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں ، مگر یہ انقلاب ہے کیا ؟ کیا
تیونس کا عوامی ردعمل اور اُس کے نتیجے میں تیونسی غاصب اور اُس کے بیوی
بچوں کا ملک سے بھاگ جانا انقلاب تھا ؟ کیا مصر کی موجودہ حالات کسی انقلاب
کا پیش خیمہ ہیں ؟ اور کیا حسن مبارک کے چلے جانے اور امر موسیٰ ، عمر
سلیمان اور محمد البرادی میں سے کسی ایک کا اُس کی جگہ صدارت سنبھالنا کسی
ممکنہ انقلاب کا حصہ ہو سکتا ہے؟ اگر محض یہ انقلاب ہے تو ہم پاکستانی تو
تین سال پہلے ہی انقلاب لا چکے ہیں ، ہم تین سال پہلے ہی ایک غاصب کو
اقتدار کے ایوانوں سے اُٹھا کر باہر پھینک چکے ہیں ، اور وہ آج بھی لندن کی
سب سے بہترین اور مہنگے علاقے کی ایک خوبصورت عمارت کے لگژری فلیٹ میں
بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا ہے ، لیکن اگر وہ سچ مچ کا انقلاب تھا تو اُس کے
ثمرات کیا ہوئے ؟ ہمارے غاصب کے لندن بدر ہونے سے ہمیں کیا ملا ؟
مصر و تیونس کی طرح ہم لوگ بھی سڑکوں پر آئے تھے ، ہماری سڑکیں بھی ہمارے
اپنوں کے لہو سے رنگین ہوئی تھی ، احتجاج کے دوران جلائے جانے والے مکانوں
، دکانوں اور گاڑیوں کا دھواں کتنے دنوں تک ہمارے آسمانوں پر بھی چھایا رہا
تھا ، اور پھر جب موقع ملا تو ہم نے اپنے ووٹ کی مہر سے بھی اپنے انقلابی
ہونے کی تصدیق کر دی ، مگر اِس کے ثمرات کہاں ہیں ؟ آج ہمارے ملک کا اقتدار
ہمارے احتجاج اور ووٹوں کے انقلاب کے بعد بننے والی عوامی حکومت کے ہاتھ
میں ہے ، آج ایوان صدر میں کوئی غاصب نہیں بلکہ ایک منتخب صدر ہے ، آج
پرائم منسٹر ہاؤس میں کسی غاصب کا کٹ پتلی کوئی شوٹ کٹ عزیز نہیں بلکہ عام
عوام کا نمائندہ اور منتخب کیا ہوا وزیر اعظم ہے ، اور شوٹ کٹ عزیز کہیں
پردیس میں اپنا بریف کیس اُٹھائے عالمی مالیاتی اداروں میں ’’ یس سر ‘‘
کرتا جمع نفی کی ڈھیریاں لگا رہا ہے ، مگر اِس کے ثمرات کہاں ہیں ؟ ایک
کامیاب انقلاب کے ثمرات ؟ کیا آج تین سال بعد بھی ہمارے ووٹوں سے منتخب
ہونے والے ہمارے نمائندے ایک بزدل غاصب کے محض ایک فون پر ڈھیر ہونے والی
کسی ایک بھی پالیسی کو تبدیل کر سکے ہیں ؟ کیا ہماری منتخب پارلیمان امریکہ
کو ڈرون حملوں سے باز رکھ سکی ہے ؟ ایک منتخب حکومت کے وزیر داخلہ اور
اُسکے ماتحت ادارے ملک میں موجود انتشار کو کم کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں
؟ کیا ہماری منتخب حکومت ہمیں ایک آزاد عدلیہ دینے میں کامیاب ہوئی ہے ؟
ہمارے وزیر قانون و انصاف قانون کی بالا دستی کے قائل ہیں ؟کیا ملک میں بے
روز گاری میں کسی حد تک کمی آئی ہے ؟ کیا ہماری منتخب حکومت کے پاس لوڈ
شیڈنگ کو کم کرنے کا کوئی جامع پلان موجود ہے ؟کیا صنعتی بحران کم کرنے کی
کوئی ایک بھی مخلص کوشش ہوئی ہے ؟ کیا ہمارے پاس اِن تمام اور اِن جیسے اور
بہت سے سوالوں کا ’’ نہیں ‘‘ کے علاوہ اور کوئی جواب ہے ؟ سو یہ ثابت ہوا
کہ انقلاب محض چہرے بدل دینے کا نام نہیں ، نہ یہ فرمائشی ہوتے ہیں کہ جیسا
کہ کچھ لوگ اکثر اپنی باتوں میں اِس کا ذکر کرتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو
ڈراتے رہتے ہیں ، انقلاب سب کچھ چھوڑ دینے کا نام ہے ، سب کچھ بدل دینے کا
نام ہے ، یہ کبھی ممکن نہیں کہ ہم نظام تو وہی رکھیں مگر چہرے بدل دیں اور
سمجھیں کہ انقلاب آگیا ، یہ محض خوش خیالی ہی ہے ، آج ہماری پارلیمان میں
ایک غاصب مشرف ہی نہیں ورنہ باقی تو وہی سب لوگ ہیں ، وہی جو اُسے کے حاشیہ
بردار تھے اور وہی جو اُس سے معاہدے کرتے رہیے ہیں ، کچھ بھی تو نہیں بدلا
، سب کچھ ویسا ہی ہے ، انداز حکمرانی بھی وہی ، نظام بھی وہی اور ہم بھی
وہی کہ ’’ جو ظلم تو سہتے ہیں پر بغاوت نہیں کرتے ‘‘ تیونس میں بھی ایک
غاصب نہیں رہا ورنہ باقی سب کچھ تو ویسا ہی ہے وہی پارلیمان وہی اُس کے
ممبران ، وہی نظام اور وہی اُس کے کل پرزے، یہی حال مصر و باقی ممالک کا ہو
گا ، حسن مبارک نہ ہو گا کوئی محمد البرادی یا اُس جیسا ہی ہوگا ، وہی نظام
رہے گا ، وہی عوام ہو گی ، کچھ بھی تبدیل نہ ہو گا بس یہ دن تاریخ کا حصہ
بنا دیئے جائینگے ، جلتی لہو آشام تاریخ ، جس کے کچھ ثمرات نہیں ، جس سے
کچھ حاصل نہیں ، اِس سے پہلے کے بھی سارے انقلابات ، محض نظر کا دھوکہ تھے
، کوئی بھی انقلاب انقلاب نہ تھا یا کم از کم مکمل انقلاب نہ تھا ، نہ
فرانس کا ، نہ روس کا ، نہ چین کا اور نہ ہی ترکی کا ، یہ سارے انقلابات
نامکمل تھے اِن کے بعد کچھ تبدیلیاں تو آئی تھی مگر دیر پا کوئی بھی نہ تھی
، ساری معلوم انسانی تاریخ میں بس ایک ہی انقلاب مکمل اور کامیاب ہوا تھا ،
اور جس سے پہلے سالوں عام عوام کی شعوری تربیت کی گئی ، اور جب وہ انقلاب
لانے کے قابل ہوئے تو انقلاب آگیا ، کوئی گاڑی نہ جلی ، کسی کا گھر مکان یا
دُکان راکھ کا ڈھیر نہ بنی اور انقلاب آگیا ، پورا نظام تبدیل ہو گیا لہو
کا ایک قطرہ بھی نہ بہا اور مکہ کے سارے بت مٹی کا ڈھیر ہو گئے ، خود سب سے
سچی کتاب گواہی دیتی ہے ، ’’ اِذا جا نصر اللہ من فتح ‘‘ یہ ہے انقلاب ، جس
کے لیے سالوں شعوری تربیت دی جاتی ہے ، جب شعوری تربیت بالیدگی پا لیتی ہے
تو بغیر کسی نقصان کے انقلاب آجاتا ہے ، سب کچھ خود بخو ہی بدل جاتا ہے ،
انسان بدل جاتے ہیں ، نظام بدل جاتا ہے ، یہ ہے انقلاب ، تو پھر کون ہے جو
انقلاب لانا چاہتا ہے ؟ کون ہے جو خود کو بدلنا چاہتا ہے ؟ ہے کوئی ؟ |