ہمارے معزز ارکانِ پارلیمنٹ نے
ایک مرتبہ پھر اپنے حقوق کی سربلندی کے لئے آواز بلند کی ہے ،ہوا یوں کہ
قومی اسمبلی کی ایک رکن کشمالہ طارق نے احتجاج کیا کہ معزز ارکان ِ
پارلیمنٹ کے والدین کی طبی سہولیات بند کردی گئی ہیں،انھوں نے کہا کہ ایسا
کرنے سے قبل ارکان کو نوٹس ملنا چاہیئے اور یہ بھی کہ اسلام آباد کلب کی
ممبر شپ کے لئے افسر شاہی سے 50ہزار روپے لئے جاتے ہیں جبکہ ارکان اسمبلی
سے 10لاکھ طلب کئے جاتے ہیں۔موصوفہ کی زبان سے ان جذبات کا اظہار ہونا تھا
کہ دیگر معزز ارکان پھٹ پڑے ،کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ گزرے کہ شمائلہ پر
ناراض ہوئے بلکہ ان کی حمایت میں سب یک زبان و یکجان ہو گئے،ایسے کاموں میں
ہمیشہ سے ہی یہ برادری اسی طرح یکجہتی کا اظہار کرتی آئی ہے۔
معزز ارکان نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی میڈیا،افسر شاہی اور جرنیلوں کے
برابر مراعات دی جائیں، ہمیں بھی پلاٹ اسی طرح الاٹ کئے جائیں جس طرح ان
طبقوں کو کئے جاتے ہیں۔ن لیگ کے ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے
ملازمین ارکان کے ساتھ منسلک کر دیئے جائیں۔ اس معاملہ میں سپیکر نے بھی
اپنا فرض نبھایا اور اپنے ارکان کی حمایت کر کے ثواب ِ دارین میں سے اپنا
حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں، انھوں نے کہا کہ ارکانِ پارلیمنٹ پر
گندگی اچھالی جاتی ہے ، جبکہ پاکستان کے ممبران ِ اسمبلی دنیا بھر میں سب
سے کم تنخواہ لیتے ہیں۔مراعات میں اضافہ کے لئے بھی ترامیم لائی جارہی ہیں
۔اس موقع پر ماروی میمن نے ان مطالبات کی مخالفت کی ، اس کا نتیجہ وہی ہوا
جو اس قسم کے مواقع پر ہوا کرتا ہے ،معزز ارکان سیخ پا ہوگئے، یوں ماروی کو
سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کے سیاسی کلچر میں کون غریب یا عام آدمی الیکشن لڑنے کا تصور
کرسکتا ہے؟الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اب لاکھ نہیں کروڑ پتی ہونا ضروری
ہے،کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کر کے مراعات اور پلاٹوں کی بھیک مانگنا عجیب
سا لگتا ہے ، شاید جتنا خرچ کیا جاتا ہے ، بعد میں اتنی ریکوری بھی تو کرنی
ہوتی ہے۔ بہت سے عوامی نمائندے کافی کاروباری ہوتے ہیں ، اگر یہ کہا جائے
تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کل کاروباری لوگ ہی زیادہ تر نمائندگی کے حقدار
قرار پاتے ہیں۔ وہ سرمایہ خرچ کرتے وقت یہ حساب کتا ب ضرور لگاتے ہیں ،کہ
یہ خسارہ کب اور کیسے پورا ہوگا۔بہت سے معزز ارکان تو بہت کچھ کرلیتے ہیں،
مگر بہت سے ممبران صرف تنخواہ اور دیگر مراعات پر ہی تکیہ کرتے ہیں، یا
ذاتی کاروبار پر۔ اس صورت میں بھی بعض معزز ارکان مزید آمدنی کی کوئی سبیل
نکال لیتے ہیں ، ان میں اسمبلی میں حاضری کے معاملے میں جعل سازی بھی شامل
ہے۔
معزز ارکان ِ اسمبلی کی طرف سے مراعات میں اضافے کا مطالبہ کوئی نئی بات
نہیں،انہیں ایسا کرنا چاہیئے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مراعات یافتہ
طبقہ میں میڈیا کا نام بھی شامل ہے، یقیناً میڈیا میں بھی کچھ لوگ بھی
مراعات یافتہ ضرور ہوں گے، مگر اکثریت کا معاملہ سب کے سامنے ہے ، بنیادی
طور پر یہ لوگ بیگار کیمپ کے قیدی ہیں، جنہوں نے سارا دن محنت کر کے اپنے
مالکان کے لئے مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے اور شام کو اپنے بیوی بچوں میں
لڑائی جھگڑے کی داستان دہراتے ہیں،اور صبح پھر اخباروں اور چینلوں کا پیٹ
بھرنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ رہا معاملہ افسر شاہی اور جرنیلوں کی
مراعات کا تو وہاں تک جانے کے لئے تو پر جلتے ہیں،ان کی مراعات کو کم کرنے
کی کسی میں ہمت نہیں، کوئی طاقت ور سے طاقت ور حکمران بھی ان دونوں طبقوں
کے خلا ف کوئی اقدام نہیں کرسکا۔حکومتوں کے بڑے بڑے فیصلے بیورو کریسی کی
مرضی کے خلاف کامیاب نہیں ہوسکتے۔
بیورو کریسی کی مراعات ہمیں انگریز ورثے میں دے گئے تھے ،ہم ان کی وراثتوں
کے صحیح امین ہیں،ان میں خیانت کی تو ممکن ہے گناہگار قرار پائیں۔ہم بیورو
کریسی کی شان و شوکت اور جاہ و جلال دیکھتے ہیں تو حد درجے مرعوب ہوتے ہیں،
بیورو کریسی کو بھی تما م ناز نخرے آتے ہیں ، اسے معلوم ہے کہ اس عوام
نمامخلوق سے کس طرح نمٹنا ہے، اس کو کتنی اور کب اہمیت دینی ہے ، اس کو کس
مقام پر رکھنا ہے ۔ نتیجہ یہی ہے کہ بیورو کریسی ہماری آقا اور ہماری قوم
ان کی حقیقی غلام ہے۔ غلاموں کے نمائندے معزز ارکان پارلیمنٹ بھی بیورو
کریسی کی مراعات کو دیکھتے ہیں تو ان کے منہ میں بھی پانی آتا ہے ، کاش ہم
بھی اسی بیورو کریسی جیسی مراعات پا سکیں ۔ یہی عالم فوجی جرنیلوں کا ہے،کہ
کس کی مجال ہے جو ان کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات کرسکے اور ان کی مراعات کو
چیلنج کرسکے ؟
جن لوگوں نے پورے ملک کے لئے قانون سازی کرنی ہے ، سترہ کروڑ عوام کے چند
سو نمائندے جو اپنے عوام کے مقدر کے فیصلے کرنے میں بااختیار ہوتے ہیں
،اپنی ماتحت بیورو کریسی اور اپنی ہی فوج کے برابر مراعات مانگتے ہوئے
انہیں پریشانی تو ہونی چاہیئے، کون عقلمند ہے جو اپنے نوکر کے برابر مراعات
مانگے۔اگر یہ سوچ بھی لیا جائے کہ ان کو بیورو کریسی اور جرنیلوں کے برابر
مراعات مل جائیں گی توملک کی رگوں میں بچا کھچا خون یہ چوس لیں گے۔ لیکن
ایک بات دلچسپ ہے کہ عوامی نمائندے ہوں یا بیورو کریسی یا جرنیل، یہ سب تو
مراعات یافتہ ہوں گے، عوام کا کیا ہوگا ؟ عوام کے زندہ رہنے کے لئے کیا بچے
گا؟ اس کے بارے میں بھی ہمارے نمائندے یا ”پبلک سرونٹ“ کیا فرماتے ہیں؟ |