لکھنے والے نے صحیح ہی لکھا ہے
کہ اگر امریکا واقعتا ً دباؤ ڈال دے تو ہمارے حکمرانوں میں اس کی آنکھوں سے
آنکھیں ملانے کا حوصلہ اور دم خم نہیں ہے ۔ یہ نہ صرف خصوصی طیارہ کا
انتظام کر کے اس کو فوراً سے پہلے امریکا روانہ کردیں ، بلکہ راستہ میں اس
کی خدمت اور خاطر تواضع کے لیے ایک عدد وزیرِ مہمان داری بھی ساتھ
کردیں۔مگر دعا دیجئے خطہ کے حالات کو،جنہوں نے امریکا بہادر کے ہوش وحواس
اڑا رکھے ہیں اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا ”سنجیدہ مطالبہ“ کرنے کی صورت میں
اس کو لینے کے دینے پڑسکتے ہیں ۔ اسکی مجبوری ہے کہ وہ خطہ کے موجودہ حالات
میں حکومت ِ پاکستان پر اس کی رہائی کے لیے ایک حد سے زیادہ دباؤ نہیں ڈال
سکتا ، لیکن سیاسی نوسرباز اس صورت ِ حال کو اپنا ووٹ بینک بڑھانے اور نمبر
بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ سوچ سوچ کر چوڑے ہورہے ہیں کہ
حالات سازگار ہیں اور اگر مجرم کو چھوٹی موٹی سزا سنا دی گئی تو عوام کو
پاکستان کی خودمختاری اور آزادی کا جھانسہ دینے کا موقع بھی مل جائے گا
جبکہ اس پر انکل سام کے بپھرنے کے امکانات بھی نسبتاً کم ہیں۔
ہر سو یہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ ملزم کو قرار واقعی سزادی جائے اور کسی
بھی قسم کی رعایت نہ برتی جائے ۔ فرض کیجئے کہ اگر اِ س ایک ریمنڈ ڈیوس کو
سزا ہو بھی جاتی ہے تو کیا ہوجائے گا؟کیا سب دکھوں کا مداوا ہوجائے گا ؟تمام
قومی مسائل حل ہوجائیں گے اور پاکستان کو اپنی منزل مل جائے گی؟ہمارے یہی
سطحی اور محدود اہداف ہی ہیں جن کی وجہ سے ہم ہر آئے روز کے ساتھ اپنی منزل
سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس پاکستان پر غیرملکی تسلط اور سرگر م
دہشت گرد تنظیموں کی محض ایک مثال اور نمونہ ہے جو حادثاتی طور پر شکنجہ
میں آگیا ہے ، ورنہ اس جیسے نہ جانے کتنے اور دہشت گر د پاکستان کی جڑوں
میں اترے بیٹھے ہیں اور مسلسل اس کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر امریکا ،برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں اس طرح کی سرِ
عام دہشت گردی میں ملوث کوئی پاکستانی پکڑا جاتا تو اس کا کیا حشر ہوتا؟صرف
اسی کا نہیں ، دنیا بھر میں کہیں بھی موجود پاکستانیوں کو اس کے نتیجہ میں
کیسے کیسے ابتلات سے دوچار ہونا پڑتا ؟ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لیجئے کہ جس کے
بارے میں خود امریکی اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ اس نے اقدامِ قتل کا صرف
ارادہ کیا تھا اور اس کی سزا اُ سے 86سال قید کی صورت میں ملی ہے ۔ فیصل
شہزاد کو لیجئے،آج امریکی ایئر پورٹس پر پاکستانیوں کو برہنہ تلاشی کے ذلت
آمیز سلوک کا سامنا اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ فیصل شہزاد جس پر ایک نہ پھٹ
سکنے والے بم کو چلانے کا الزام ہے ، کا تعلق پاکستان سے ثابت ہوگیا تھا ۔
دوسروں کو چھوڑیے ، اپنے ہی وطن ِ عزیز کو لیجئے ! اگر دہشت گردی کے کسی
واقعہ میں کوئی داڑھی والا ملوث نکل آئے تو اس علاقہ کے مدارس پر چھاپے
پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ، داڑھی اور ٹوپی سے انس رکھنے والے بے گناہ لوگوں کو
گرفتار اور ہراساں کیا جاتا ہے اور میڈیا بھی اِس موقع پر داڑھی اور پگڑی
کو بدنام کرنے کا کوئی دقیقہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر یہ خوش قسمت ریمنڈ
ڈیوس امریکی ہے جس کو محض سزا دلوانے کا مطالبہ کر کے بھی ہم بڑا کمال کر
رہے ہیں ۔ خداوند تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائیں تاکہ چھوٹی چھوٹی
خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ہم وسیع تر تناظر میں اصلاحِ احوال کے لیے
فکرمند اور کمر بند ہوسکیں۔اس اندوہ ناک واقعہ پر ہمیں جو شدید احتجاج
امریکی سفارت خانہ سے وابستہ غیر ملکی غنڈوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے کرنا
چاہئے تھا،وہ محض ایک ڈیوس کی سزا کے لیے ہورہا ہے ۔ ایسی بے بس ، نادان
اور ذلیل و رسوا قوم کیا کوئی اور بھی دنیا میں ہوگی ؟یقین جانئے کہ حو کچھ
لاہور میں ہوا ہے ، اگر اس کا عشرِ عشیر بھی ہم سے دس گنا کسی غریب ،مفلس
اور لاغر ملک میں پیش آجاتا تو وہاں کے عوام امریکی سفارت خانہ کی اینٹ سے
اینٹ بجا دیتے ، لیکن ہم....آہ! اے ہم ! کیا عوام نے بھی حکام کی طرح اپنی
غیرت امریکی سفارت خانہ کو گروی رکھوا چھوڑی ہے ؟اگر کل کلاں کو کو ئی اور
حادثہ اس طرح کا پیش آگیا تو اس پر بھی ہم صرف ایک ملزم کی سزا کا مطالبہ
کر کے دل بہلائیں گے ؟ریمنڈ ڈیوس نے صرف ہمیں آئینہ دکھا یا ہے اور خدا کرے
کہ ہم اس میں اپنی شکل دیکھ لیں!
ان صحافیوں اور تجزیہ نگاروں پر ہمیں تعجب ہے جو قوم کو ایک بار پھر لوریاں
سنا رہے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی معجزاتی طور پر ہونے والی گرفتاری حکومتی
پالیسیوں میں بہت سی خوش گوار تبدیلیاں لانے کا باعث بنے گی اور اس کے بعد
پاک امریکا تعلقا ت بھی کئی حوالوں سے متاثر ہوں گے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ
ہم لوگ اپنی خواہشات کو تجزیہ اور خبر کا نام دے دیتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ
ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور اس جیسے دیگر کئی واقعات ملکی خارحہ پالیسی پر
نظرِ ثانی کا ایک اہم سنگ ِ میل ثابت ہوسکتے ہیں اور ثابت ہوسکتے تھے
بشرطیکہ معجزاتی طور پر پیدا ہو جانے والی صورتِ حال کو اپنے حق اور مفاد
میں کیش کروانے کی استعداد بھی ہماری سیاسی قیادت میں ہوتی، لیکن حس طرح ہم
اور کئی سنہری مواقع اپنی بے حکمتی کی وجہ سے گنوا چکے ہیں ، اسی طرح قدرت
کی طرف سے عطیہ ہونے والے اس موقع کو بھی ضائع کردیں گے ۔ یقین نہ آئے تو
چند دن مزید انتظار کرلیں اور اپنی قیادت کی بصیرت اور ذہنی اپروچ کا منظر
اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ عین ممکن ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو چھوٹی موٹی سزا
ہونے کی عوامی حسرت بھی پوری نہ ہوسکے اور ہمارے سارے اندازے دھرے کے دھرے
رہ جائیں ۔ ہم جن جوکروں اور مسخروں کے ہاتھ میں اپنی عزت وآبرو اور مستقبل
کی باگ ڈور تھما چکے ہیں ، ان سے اس سے بھی زیادہ کی توقع رکھنی چاہئے ۔ |