پاکستان میں سانحہ ساہیوال کے طرز کے پہلے بھی سانحات
گزرے ہیں،مگر بڑے دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہر مرتبہ ہی قوم رودھو کر خاموش
ہوجاتی ہے، حکمران ہوں کہ سیاست دان سب ہی سینہ کوبی اور آہ فغان کرتے
ہیں اورپیش آئے سانحہ پر بھرپور مذمت کا اظہار کرتے ہیں، سانحہ کے شکار
افراد کے لئے ہاتھ اُٹھا کربخشش و مغفرت اور جنت الفردوس میں درجات کی
بلندی کے لئے اﷲ کے حضور دُعااور فاتحہ خوانی کرتے ہیں ، جبکہ آئندہ
ایسے واقعات کی تدارک کے لئے حقیقی معنوں میں بغیر کچھ کئے تیز اور
آہستہ قدموں کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں ۔پھربے حس عوام اور رنگ ریلیوں
میں مگن حکمران اگلے کسی بڑے قومی سانحے تک سب کچھ بھول کر قومی خزانہ
لوٹ کھانے میں لگ جاتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کبھی بھی کسی نے قومی سانحات کی اصل حقائق جاننے
اوراِن میں ملوث افراد کو کڑی سزا دینے اورآئندہ ایسے سانحات کے تدارک
سے متعلق قا نون سازی کا نہیں سوچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم ستر سال سے
سانحہ ساہیوال جیسے قومی سانحات سے دوچار ہورہی ہے ،اﷲ جانے کب تک یہ
سلسلہ جاری رہے ؟ کوئی کچھ نہیں بتا سکتا ہے کہ سرکاری اہلکاروں کے
ہاتھوں نہتے شہری کب تک گولیوں کا نشا نہ بنتے رہیں گے؟اور سرکار اِن
کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی پوری قوت کااستعمال اپنا حق سمجھ
کر کرتی رہے گی؟۔
اِس سے بھی کسی کو انکار نہیں ہوناچاہئے کہ دنیا کے جن ممالک اور
معاشروں میں پارلیمانی نظام ِحکومت قائم ہے۔ اُن کے ایوانوں کا کام تو
وقت اور زمانے کے لحاظ سے پولیس اصطلاحات سمیت دیگر ضروری معاملا ت میں
اصطلاحات کرناہوتا ہے۔ مگر ہمارے ایوانوں میں تو کسی قسم کی دائمی
قانون سازی کی بجائے ، یہاں تونصف صدی سے زائد عرصے سے ایوان نمائندگان
صرف سٹرکیں بنوانے ، گٹر صاف کروانے ، شہر شہراور گاؤں گاؤں گلی کوچوں
کوبرقی قمقموں سے سجانے ، اپنے مخالفین کے گھر گرانے اور اپنے حامیوں
اور ہم خیال افرادکے گھر بنانے کے احکاما ت جاری کرکے سمجھتے ہیں کہ
اُنہوں نے ٹٹوجتناکام کرکے اپنا قومی فریضہ ادا کردیاہے، اور قوم کی
خدمت کردی ہے ، عرض یہ کہ ہمارے ایوان تو جیسے چھوٹے موٹے سیاسی اور
ذاتی مسائل حل کرنے اور پیدا کرنے کی ذمہ داریاں اداکرنے کے لئے محدود
ہوگئے ہیں ،ایوان جہاں قانون سازی کی جانی چاہئے تھی۔ آج ہمارے ایوان
حکمرانوں اورسیاستدانوں کے ذاتی اور سیاسی نوعیت کے لڑائی جھگڑے حل
کرنے والے مچھلی بازار بن گئے ہیں ۔جہاں چیخ چلاکر مسائل پیداکئے جاتے
ہیں،پھراُنہیں حل کرنے کی کروڑوں ، اربوں اور کھربوں کی بولیاں لگائی
جاتی ہیں، جو جتنی بھاری بولی دیتا ہے، اُسے مسائل حل کرنے کی آڑ میں
مسائل پیدا کرنے کا ٹھیکہ دے دیاجاتا ہے ، کسی معاملے میں جس کی بولی
کم لگتی ہے وہ اپنا کام کمیشن اور پرسنٹیج سے نکال لیتا ہے ، ایسا
برسوں سے ہورہاہے ۔افسوس ہے کہ پاکستانی قوم ستر سال سے عام انتخابات
میں جنہیں ووٹ دے کر اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے قانون سازی کرنے
کی ذمہ داری سونپ کر ایوانوں میں پہنچاتی ہے۔ وہی قوم کے سوداگر ثابت
ہوتے آئے ہیں۔
معاف کیجئے گا ، آج عوام کو مہنگائی ، بھوک و افلاس ، کرپشن ، لوٹ مار
اور قومی لٹیروں کا خاتمہ کرکے نیا پاکستان بنانے اور عوامی توقعات کے
مطابق ریلیف دے کر تبدیلی کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والی رواں پی ٹی
آئی کی رواں حکومت بھی کوئی نیا کردِکھانے والی نہیں ہے۔ آج یہ بھی
اپنے پیش رو (سابق بے حس حکمرانوں نوازشریف اور آصف علی زرداری )کے
نقشہ قدم پر چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی مہنگا ئی بے لگام
ہوگئی ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ آزاد ہوگئی ہے۔ صبح مہنگائی کچھ ہوتی ہے۔
تو دوپہراور شام تک اِس کا رنگ ہی کچھ اور ہو کربے قبول ہوجاتاہے ،حکومت
بھی ہے کہ جو پہلے والوں کی طرح تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کے بوجھ تلے
دباکر قوم و مُلک کی ترقی کی راہ دیکھا کر اپنے گاڑی کا وزن کھینچ رہی
ہے۔ کیوں کہ اِس نے اپنے پہلے چھ ماہ میں دو بجٹ پیش کرکے ثابت کردیا
ہے کہ یہ عوام کے لئے اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ ا بھی تک
حکومت ایک بھی ایسی قانون سازی کرنے سے قاصر رہی ہے ۔جو مفاد عامہ کے
لئے ہو ،یہ قانون سازی سے قاصر کیوں نہ ہو؟اِس نے ابھی تک سنجیدگی کا
مظاہرہ ہی نہیں کیا ہے، نہ توسابق کرپٹ حکمرانوں نواز و زرداری اور اِن
کے چیلے چانٹوں کو ابھی تک کڑی سزادِلوانے کے لئے اپنے تئیں کچھ کیا
دکھایا ہے۔ اور نہ ہی عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں اور دعووں کے مطابق
مُلک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر سمیت بے لگام مہنگائی اور پولیس گردی کے
خاتمے کے لئے قانون سازی کی ہے۔ ابھی تک تو حکومت زبانی جمع خرچ کرکے
قوم کو سبزباغ اور سُنہرے خواب دکھانے میں ہی لگی ہوئی ہے اِسے سوچنا
چاہئے کہ بھلا گول مول باتوں سے حکومت نہیں چلاکرتی ہے۔
بہر کیف، آج سانحہ ساہیوال پر اپوزیشن اور عوام جس طرح واویلا کررہے
ہیں یہ بھی اپنی جگہہ ہے ،سانحہ ساہیوال تو ایک بہانہ ہے اصل میں
اپوزیشن بالخصوص ن لیگ اور پی پی پی والے سانحہ ساہیوال پر چیخ چلا کر
اپنی کرپشن پر پردہ ڈال رہے ہیں اور اپوزیشن والے نوازشریف، شہباز شریف
، زرداری ، مولانا فضل الرحمان سانحہ ساہیوال کے مرحومین کی لاشوں پر
سیاست کرکے اپنا سیاسی قد اُونچا کررہے ہیں حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن
اور دیگر قومی سانحات پلٹ پلٹ کر باریاں لینے والی دونوں جماعتوں پی پی
پی اور ن لیگ کے دورِ حکمرانی میں ہی رونما ہوئے ہیں۔ اِن سانحات کے
متاثرین کو تو ابھی تک ایک رتی کا بھی انصاف نہیں ملا ہے ۔مگر آج یہی
کرپٹ دونوں جماعتوں نے سانحہ ساہیوال کوچیل کی طرح چیخ چلاسر پر اُٹھا
رکھاہے۔جیسے یہ بڑے انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔
اِس موقع کا وزیراعظم عمران خان بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور تُرنت
ایوان میں قانون سازی کی ابتداء پولیس اصطلاحات سے کردیں،پھرخود لگ پتہ
جائے گاکہ کون سی جماعت ہے جو پولیس کو سیاسی اثررسوخ سے پاک رکھنا
چاہتی ہیں؟اور کون نہیں چاہتے کہ خالصتاََ عوامی مفادات اور تحفظات کے
لئے پولیس اصطلاحات کی جائیں ؟وزیراعظم عمران خان ساتھ ہی ایوان سے یہ
بل بھی پاس کروا دیں کہ کسی بھی علاقے میں پیش آئے سانحہ کا ذمہ دار
علاقے کا تھانہ انچارج ہوگا، اگر 72گھنٹوں میں کسی سانحہ یا واقعہ کے
مجرم گرفتار نہ کئے گئے تو متعلقہ تھانے کے انچارج سمیت تین اہلکاروں
کے ہاتھ کاٹے جا ئیں گے پھر دیکھیں مُلک کے کسی بھی تھانے کی حدود میں
کسی قسم کی کوئی چھوٹی موٹی واردات بھی ہوجائے ۔کیوں کہ قوی اور قومی
خیال یہی ہے کہ آج مُلک کے طول ارض میں جس قسم کے بھی جرائم رونماہورہے
ہیں۔ اِن کی پست پناہی متعلقہ تھانے کرتے ہیں۔آج وزیراعظم عمران خان کی
جتنے بھی دن کی حکومت باقی ہے۔ اگرآج یہ سخت نوعیت کی پولیس اصطلاحات
کرتے ہیں۔تو قوم کا اِن پر اعتماد بحال ہوجائے گا ورنہ ؟ قوم رواں
حکومت پر کئی سیاہ سوالیہ نشانات لگا نے میں حق بجانب ہوگی ۔
اگرچہ، اَب تک کی آنے والی اطلاعات کے مطابق سانحہ ساہیوال کی ابتدائی
رپورٹوں میں کئی سقم موجود ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ سا منے آرہے ہیں،
جن کی وجہ سے ایک عام شہری تذذب کا شکار ہے، کچھ کا یہ خیال ہے کہ
مقتولین بے قصور اور بے گناہ تھے۔ مگر بہت سے پاکستا نی اِس سے اتفاق
کرتے ہیں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ کاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)
نے کسی قسم کی نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اَب جیسا بھی ہے سانحہ ساہیوال
نے قوم کو دو حصوں میں بانٹ دیاہے۔ اصل حقائق سا منے آنے تک سارا مُلک
ایک کشمکش میں مبتلاہے۔جبکہ مرحومین کے لواحقین سمیت مُلک کا ایک طبقہ
ایسا بھی ہے جو سانحہ ساہیوال پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے کسی
نقطے اور فیصلے کو درست تسلیم کرنے سے صاف انکاری ہے ۔تاہم متاثرین
سانحہ ساہیوال سمیت ایسے کروڑوں پاکستانی شہری بھی ہیں ۔جن کا حکومت سے
یہ مطالبہ ہے کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے جن اشخاص پر مبنی جے آئی
ٹی بنا ئی گئی ہے۔ اِس میں اکثر سی ٹی ڈی کے افراد شامل ہیں۔بھلا کب یہ
چاہیں گے کہ اِن کے بیٹی بھائی اور اِن کے ساتھی مجرم قرار پائیں ۔اَب
اِس پس منظر میں لازمی ہے کہ سانحہ ساہیوال کے مقتولین اور اِن کے
لواحقین کو فوری انصاف کی فراہمی کے لئے حکومت جوڈیشل کمیشن بنائے جو
غیر جانبداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ،تحقیقات کرے اور دودھ کا دودھ پانی
کا پانی کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرے ۔ بس ایسا اِسی صورت میں ہی ممکن
ہوسکے گاکہ جب حکومت کی جانب سے سانحہ ساہیوال پر فی الفور جوڈیشل
کمیشن بنایاجائے گا اور ذمہ داران کو کڑی سزا دی جائے تاکہ پھر ایسا
کوئی قومی سانحہ قومی پولیس کے ہاتھوں نہ رونما ہونے پائے اور ایسی
سنگین صورتِ حال پیدا نہ ہو جیسی کہ آج تک سا نحہ ساہیوال ،سانحہ ماڈل
ٹاؤن اور دیگر قومی سانحات کے بعد پیدا ہونے والی سنگین صُورٹِ حال سے
نہیں نمٹا جا سکا ہے ۔ (ختم شُد ) |