ہر نئے دن کے ساتھ زندگی کی نئی شروعات ہوتی ہے جو
کسی کیلئے اچھائی تو کسی کیلئے بدقسمتی لاتی ہے لیکن اﷲ کی طرف سے جو
بھی پیش آتا ہے اس میں انسانوں کیلئے بھلائی کا سبق ہوتا ہے لیکن کاش
انسان یہ سبق حاصل کرلیں۔پاکستان میں بعض ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں
جس کا اس جدید دور میں تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ساہیوال میں پیش آنے
والا واقع پہلی دفعہ ہمارے ملک میں رونما نہیں ہوا ۔اس سے پہلے کئی
واقعات ایسے ہیں جس کا تصور بھی انسان نہیں کرسکتااور یہ واقعات کسی
غلط فہمی یا غلطی سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیے جاتے ہیں ۔ ساہیوال میں
پیش آنے والے واقعے پر ہر انسان دکھی اور پریشان ہے کہ آخر پاکستان میں
ایسے واقعات کی روک تھام کب ممکن ہوگی ۔ ملوث عناصر کو سزا کب ملے گی
جو دوسروں کیلئے عبرت کا نشانہ بنیں۔ اﷲ تعالٰی نے اس لئے فرمایا اور
اسلام کی بنیادی تعلیمات بھی ہے کہ مجرم کو سزا ملنی چاہیے اس میں
زندگی پوشیدہ ہے یعنی سزا وجزا کا قانون پاکستان میں ہویا نہ ہولیکن اﷲ
نے یہ قانون اپنے تمام مخلوقات کیلئے بنایا ہے تاکہ ہر انسان اپنے آپ
کو جوابدے سمجھے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے ہیں لیکن
ملوث افراد کو سزا نہیں ملتی اسلئے کچھ عرصے بعد پھر وہی بے گناہوں کا
خون بہادیا جاتا ہے۔ہمارے سیاست دان اور حکمران جن کا کام عوام کو
انصاف دینا ، قانون کے مطابق سزا وجزا دینا ،ملوث افراد کو بے نقاب
کرنا ، غفلت اور گوتاہی کو تسلیم کرکے آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کرنا
ہے ۔ اس کی بجائے ہمارے سیاست دان ایسے واقعات پر سیاست کرتے ہیں اور
اپنے بیانات سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ ساہیوال میں پیش آنے والے
واقعے کو کوئی بھی فرد یا سیاست دان اچھا نہیں کہتا لیکن اس کے باوجود
اس واقعے پرسیاست ہورہی ہے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں اور انتظامیہ نے بہت
کوشش کی کہ حقائق عوام کے سامنے نہ آئے لیکن جب ویڈیو سوشل میڈیا اور
پھر نیشنل میڈیا پر نشر ہونا شروع ہوئی۔ حقائق آنا شروع ہوئے تو سی ٹی
ڈی کے پاس اس جھوٹ کو چھپانے کا موقع بھی کم ہوگیا ۔ جس پرپنجاب حکومت
اور وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا اور حقائق عوام کے سامنے لانے اور
ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دینے کا کہا کیا تو پنجاب حکومت کی
ڈیڈلائن کے مطابق جے آئی ٹی نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سب سے کم
وقت میں رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس واقعے میں دہشت گردوں کو نہیں
بلکہ بے گناہوں کو ٹارگٹ کیا گیاجس کی وجہ سے سی ٹی ڈی سربراہ کو بھی
فارغ کیا گیا اور آپریشن کرنے والے افراد کو پہلے ہی سے گرفتار کیا
جاچکا ہے جبکہ کمانڈ کرنے والے کو بھی عہدے سے ہٹا دیا کیا جو کہ قابل
تحسین عمل ہے کہ ماضی کے برعکس حکومت نے ان کی پشت پناہی نہیں کی لیکن
حکومت ملوث پولیس اہلکاروں کو صرف معطل نہ کرے بلکہ ان کوسخت سے سخت
سزا بھی دے تاکہ آئندہ کسی کی جرات نہ ہوکہ بے گناہ لوگوں پر ایسے
گولیا ں چلا دے ۔یہ واقع پی ٹی آئی حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس ہے جس میں اب
تک حکومت کامیاب ہوئی ہے لیکن آئندہ حکومت کیا اقدامات کرتی ہے؟ پولیس
اصلاحات کب تک کرتی ہے؟ تاکہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہواور ان
افراد کو سزا سے بچانے کی کوشش نہ ہوجائے جس طرح ماضی میں ہوتا رہاہے۔
آج اس واقعے پر وہ لوگ بھی حکومت پر تنقید کرتے ہیں جن کے ہاتھ ایسے
واقعات میں خود شامل رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اور حکمران حالات و
واقعات سے سبق حاصل نہیں کرتے کہ جو غلطی ہوجائے اس کو ٹھیک کرکے تاکہ
آئندہ رونمانہ ہوبلکہ ان پر سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں
حکومت خود ملوث تھی جس میں بے گناہوں کو پو لیس کے ذریعے قتل کیا گیا
اج تک ان ملوث افراد کو کوئی سزا نہ ہوئی ہے جبکہ یہ واقع ماڈل ٹاؤن
واقعے سے بالکل مختلف ہے ۔وہ حکومتی سطح پر ن لیگ نے پلاننگ سے کیا جب
کہ اس میں صرف سی ٹی ڈی کے متعلق لوگ شامل ر ہے ہیں ۔ ن لیگ اور پیپلز
پارٹی آج بھی روایاتی سیاست کررہی ہے۔ اسی سیاست نے تمام اداروں خاص کر
پولیس کو ذاتی جاگیر بنایا جس کی وجہ سے ایسے واقعات رونماہورہے ہیں ۔
اگر پولیس کو آزاد اور جوابدہ بنایا جاتا تو ایسے واقعات رونما نہ ہوتے
اور معصوم لوگوں کے گھر نہ اجاڑے جاتے۔ وہ لوگ تو خوش نصیب ہوتے ہیں جس
پر ظلم وزیادتی کے وقت کوئی موبائل کیمرے سے ویڈیو بنا دے جس پر عوام
کے ساتھ حکومت وقت بھی ایکشن لینے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن جن کا کوئی
ویڈیو نہیں وہ ظلم وزیادتی کا نشانہ ہر روز بنتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تھانوں میں اور پولیس کے جھوٹے مقابلوں میں ہر
روز ایسے واقعات ہوتے ہیں ۔ معصوم اور بے گناہوں کو گرفتار کرکے ان پر
ناصرف جھوٹے کیسس بنائے جاتے ہیں بلکہ ان پر ظلم وزیادتی کی بھی انتہا
کی جاتی ہے ۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ خواتین کی عزاتیں جتنی تھانوں میں
پولیس کے ہاتھوں لوٹی جاتی ہے اس کی مثال دوسری جہگوں پر نہیں ملتی ۔
پولیس کے نظام کو ایسا بنایا کیا ہے جس میں غریب عوام ہمیشہ خوار وذلیل
ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے سابق حکمرانوں نے
ٹھیک نہیں کیابلکہ اپنے مفاد کیلئے اس کو مزید تباہ کیا گیا ۔موجودہ
حکومت سے امید ہے کہ وہ پولیس کے نظام کو ایسا بنا دے جس میں عوام
کیلئے آسان اور ریلیف ہو ، کسی پر گولی چلانے کی اجازت نہ ہو۔ جنگوں
میں بھی خواتین اور بچوں سمیت بوڑھوں کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے
ہاں الٹ گنگا بہا رہی ہے ۔ یہاں پر پولیس قاتل بن چکی ہے۔
اب وقت کا تقاضا بھی ہے اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت کا عوام سے وعدہ
بھی تھا کہ ہم پولیس نظام کو نہ صرف بہتر اور پروفیسنل بنائیں گے بلکہ
پو لیس کو عوام کی خادم اور ہمدرد بنایا جائے گا تاکہ عام لوگوں کا پو
لیس پر اعتماد بحال ہوجائے ۔ صر ف رونے دھونے سے کام نہیں چلتا بلکہ
اپوزیشن اور حکومت سیاست کی بجائے پولیس اصلاحات میں اپنا رول ادا کریں
۔ پولیس کو جدید دور سے ہمکنار بنانے کے ساتھ ساتھ ، پولیس نفری میں
اضافہ تمام صوبوں میں کی جائے ۔ پولیس میں جرائم پیشہ افراد کو نکال کر
پڑھ لکھے افراد کو برتی کیا جائے ،پولیس کی تنخواہ فوج کے تنخواہ کے
برابر نہ صرف کی جائے بلکہ وہ تمام سہولیا ت بھی دی جائے جو ایک عام
فوجی اور افسر کو حاصل ہو، دور جدید کے مطابق آلات اور ٹرنینگ دی جائے
۔تب پولیس پروفیسنل ہوگی اور رشوت کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا اور ایسے
واقعات کی روک تھام ممکن ہوگی جس کا رونا بعد میں ہر کوئی کرتا ہے۔
|