امید سحر

امید سحر
انعام الرحمن کمبوہ
صدر پاکستان مرکزی مسلم لیگ
تحریر سیف علی عدیل

یہ اسلام آباد ہے خوبصورتی، شعور اور قیادت کا مرکز۔ یہاں کے بلند و بالا پہاڑوں کے سائے میں، جہاں سیاست اکثر صرف نعرے بن کر گونجتی ہے، ایک ایسی شخصیت اُبھری جس نے خاموشی سے کام کیا، عمل کی زبان میں بات کی، اور خدمت کو قیادت کا مرکز بنایا۔ انعام الرحمن کمبوہ، نوجوان قائد، پاکستان مرکزی مسلم لیگ اسلام آباد کے صدر اور ایک ایسے رہنما جنہوں نے اپنی جوانی صرف عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی شخصیت میں تدبر، عمل، دیانت اور اخلاص ایسے اجزاء کی طرح شامل ہیں جو ایک عظیم قوم کی تشکیل میں بنیاد بنتے ہیں۔
انعام الرحمن کی سیاسی جدوجہد محض اقتدار کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ عوامی خدمت کے عملی جذبے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کی قیادت میں مرکزی مسلم لیگ اسلام آباد نے ایک واضح، مربوط اور عوام دوست سیاسی حکمت عملی اپنائی۔ آج ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ پارٹی میں 38 ہزار سے زائد کارکنان باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں یہ تعداد صرف ایک تنظیمی کامیابی نہیں بلکہ اعتماد کا وہ سرمایہ ہے جو عوام نے انہیں دیا ہے۔
مگر ان کی اصل پہچان ووٹ کی سیاست سے کہیں آگے بڑھ کر ہے۔ وہ خدمت کی سیاست کے علمبردار ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست، مفادات کا کھیل نہیں بلکہ عوام کی امانت کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کو صرف انتخابی تنظیم نہیں بنایا بلکہ ایک تحریک میں ڈھالا ایک ایسی تحریک جو روٹی، صحت، تعلیم، پانی اور انصاف کی فراہمی کی ضامن بنے۔
یہ کتاب ان ہی خدمات، اس جذبے، اور ان عملی کوششوں کا تحریری مرقع ہے جو انعام الرحمن کمبوہ کی قیادت میں اسلام آباد کے عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کی گئیں۔ آئیے، ان صفحات کے ذریعے اُس بصیرت، اُس تحریک اور اُس درد کا احاطہ کریں جو ایک فرد کو ایک رہنما اور ایک رہنما کو قوم کا خادم بناتا ہے۔

*تنظیم، قیادت اور کارکنان کی اتحاد*

انعام الرحمن کمبوہ نے تنظیم سازی کو محض کاغذی کارروائی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے زمینی حقیقت میں بدل دیا۔ انہوں نے پاکستان مرکزی مسلم لیگ اسلام آباد کو از سر نو منظم کیا، ہر سیکٹر، یونین کونسل اور گلی تک تنظیمی ڈھانچہ قائم کیا۔ کارکنان کے ساتھ براہِ راست رابطے، کھلی کچہریاں، تربیتی نشستیں اور مسلسل مشورے یہ سب ان کی سیاسی حکمت اور مشقت کا مظہر ہیں۔

38000 سے زائد افراد کا منظم اندراج اور مسلسل فعال روابط اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صرف تعداد نہیں، ایک زندہ و فعال نظریاتی قوت ہے۔ انعام الرحمن کمبوہ نے کارکنان کو صرف جلسوں میں نعرے لگانے والے افراد نہیں رہنے دیا، بلکہ ان کی تربیت اس انداز سے کی کہ وہ خود اپنی بستیوں کے نمائندے، مسئلہ حل کرنے والے اور عوامی رابطے کے محور بنے۔

انہوں نے نوجوانوں کو تحریک کا ہر اول دستہ بنایا۔ سیاسی شعور کی بیداری کے لیے سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو قومی سوچ، نظریہ پاکستان اور جمہوری کردار سے آشنا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہزاروں نوجوان ان کی قیادت کو امید کا استعارہ سمجھتے ہیں۔

ان کی تنظیم میں ہر فرد کو ایک مشن کا سپاہی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "یہ قیادت نہیں، خدمت ہے۔" اور یہی سوچ ہے جو تنظیم کو ایک سیاسی پارٹی سے بڑھا کر ایک قومی تحریک میں بدل دیتی ہے۔

فلاحی ہسپتال صحت، عزت اور سہولت کا امتزاج

اسلام آباد جیسے جدید شہر میں بھی ایسے بے شمار علاقے ہیں جہاں معیاری علاج آج بھی ایک خواب ہے۔ انعام الرحمن کمبوہ نے اس خلا کو محسوس کیا، اور اسے پُر کرنے کے لیے نہ صرف عزم کیا بلکہ عملی اقدامات کیے۔ ان کی قیادت میں اسلام آباد میں تین فلاحی ہسپتال قائم کیے گئے جہاں روزانہ سیکڑوں مریض عزت و وقار کے ساتھ علاج کرواتے ہیں۔

ان ہسپتالوں کی سب سے بڑی خوبی ان کا سستا، باوقار اور معیاری ہونا ہے۔ یہاں نہ لمبی قطاریں، نہ فیس کا بوجھ، نہ ادویات کے نام پر لوٹ مار صرف خدمت، سہولت اور خلوص۔ یہ ہسپتال جدید میڈیکل سہولیات سے آراستہ ہیں اور ان میں تجربہ کار ڈاکٹر، نرسز اور عملہ دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔

یہ اقدام ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک بے آواز انقلاب ہے۔ ایک ایسا انقلاب جو صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کرتا ہے، اور اسے کسی جماعت یا فرد کی وابستگی سے آزاد کر کے صرف انسانیت کی بنیاد پر فراہم کرتا ہے۔

یہی وہ عمل ہے جو انعام الرحمن کو محض ایک سیاسی رہنما نہیں بلکہ عوام کا نجات دہندہ بناتا ہے — ایسا نجات دہندہ جو طب کے شعبے میں بھی علم و عمل کی روشنی سے اندھیرے مٹاتا ہے۔

میڈیکل کلینکس اور موبائل کیمپس کی تحریک

تین ہسپتال کافی نہیں تھے۔ انعام الرحمن نے محسوس کیا کہ ہر بستی تک رسائی ضروری ہے۔ یوں انہوں نے پندرہ میڈیکل کلینکس اور ڈسپنسریاں قائم کیں، جن میں سے اکثر اسلام آباد کے مضافات میں ہیں — وہ علاقے جہاں یا تو طبی سہولتیں ناپید تھیں یا انتہائی مہنگی۔

یہ کلینکس صرف علاج گاہیں نہیں بلکہ صحت کی تعلیم اور شعور کا مرکز بھی ہیں۔ یہاں نہ صرف بیماری کا علاج ہوتا ہے بلکہ لوگوں کو بیماری سے بچاؤ کے بنیادی اصول بھی سکھائے جاتے ہیں۔ انعام الرحمن نے ہر کلینک میں تربیت یافتہ عملہ، بنیادی ادویات اور ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم فراہم کی۔

اس کے ساتھ ساتھ "موبائل میڈیکل یونٹس" بھی متعارف کروائے گئے جو باقاعدہ شیڈول کے مطابق بستیوں، دیہات اور غریب علاقوں کا دورہ کرتے ہیں۔ مریضوں کا چیک اپ، مفت ادویات کی فراہمی، بلڈ پریشر و شوگر ٹیسٹ اور ماں بچہ صحت پروگرام ان یونٹس کا خاصہ ہیں۔
یہ سلسلہ رمضان، محرم اور دیگر مواقع پر خصوصی میڈیکل کیمپس کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جہاں ماہر سرجنز اور اسپیشلسٹس ہزاروں مریضوں کا علاج کرتے ہیں یہ سب کچھ بلا معاوضہ۔ یہ وہ "خاموش انقلاب" ہے جس کا ذکر تاریخ میں سنہری حروف سے کیا جائے گا۔

خواتین کے لیے خودمختاری کی روش عائشہ ووکیشنل سینٹرز

انعام الرحمن کمبوہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر قوم کو ترقی دینی ہے تو عورت کو بااختیار بنانا ہوگا۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے "عائشہ ووکیشنل سینٹرز" کی بنیاد رکھی۔ ان اداروں کا مقصد صرف ہنر سکھانا نہیں بلکہ خواتین کو عزت، خودمختاری اور باوقار روزگار دینا ہے۔

اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے ان 10 ووکیشنل سینٹرز میں ہزاروں خواتین کو مفت تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے۔ کورسز میں شامل ہیں: سلائی کڑھائی، بیوٹیشن، کمپیوٹر آئی ٹی، دستکاری، آن لائن کاروبار، اور دیگر ہنر جو خواتین کو روزگار دلانے کے قابل بناتے ہیں۔

یہ ادارے صرف ہنر گاہ نہیں بلکہ تربیت گاہ بھی ہیں۔ یہاں خواتین کو مذہبی، اخلاقی اور سماجی شعور بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ باکردار شہری بن کر اپنی نسلوں کی درست تربیت کر سکیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لیے اسکالرشپس، کوچنگ اور آن لائن ٹریننگ پروگرام بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔

انعام الرحمن کا یقین ہے کہ اگر ایک عورت تعلیم یافتہ اور باہنر ہو، تو وہ ایک پوری نسل کو سنوار سکتی ہے۔ ان کے یہ ووکیشنل سینٹرز محض ادارے نہیں بلکہ ایک سماجی تبدیلی کی بنیاد ہیں۔
صاف پانی کی فراہمی ایک بنیادی حق کی تکمیل

اسلام آباد جیسے جدید شہر میں بھی پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جو اکثر نظرانداز ہوتا آیا ہے۔ مگر انعام الرحمن کمبوہ نے اس مسئلے کو سیاست کا نہیں، انسانیت کا مسئلہ سمجھا۔ ان کی قیادت میں خدمت کمیٹی نے ایک جامع پالیسی کے تحت اسلام آباد کے 200 سے زائد علاقوں میں صاف پانی کی سہولیات مہیا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے فلٹریشن پلانٹس، واٹر بورنگ پراجیکٹس، اور سولر واٹر پمپ کی تنصیب کو اولین ترجیح دی۔

اس مشن کا مقصد صرف پانی کی فراہمی نہیں تھا، بلکہ یہ عوام کے اعتماد کی بازیافت بھی تھا۔ جہاں لوگ گندے پانی سے بیماریوں کا شکار تھے، وہاں اب صاف اور ٹھنڈا پانی میسر ہے۔ پانی کی قلت کے شکار دیہی علاقوں میں سولر بورنگ سسٹم نے زندگیاں بدل دیں۔ لوگوں کو میلوں کا سفر کر کے پانی لانے کی اذیت سے نجات ملی۔ یہ صرف ایک منصوبہ نہیں بلکہ انعام الرحمن کمبوہ کے وژن کی جھلک ہے وہ وژن جو خدمت کو عبادت سمجھتا ہے۔

انہوں نے ہر یونین کونسل، ہر کچی آبادی، ہر بے سہارا بستی کو نظر میں رکھا۔ چندہ جمع کیا، انجینئرز کے مشورے لیے، مقامی رضا کاروں کو ساتھ ملایا اور مرحلہ وار پلانٹس نصب کیے۔ نہ صرف تنصیب بلکہ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کا مستقل نظام بھی قائم کیا۔ اس نظام کے تحت کمیونٹی کے افراد کو تربیت دے کر ان کو خود کفیل بنایا گیا۔

ان کی ٹیم کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں خاندان جو کبھی پانی کی بوند بوند کو ترستے تھے، اب عزت اور وقار سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ ایک قطرہ پانی زندگی ہے، اور انعام الرحمن نے اس زندگی کو عوام تک پہنچا دیا۔

عزت کا دسترخوان بھوک سے نجات کی تحریک

اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں روزانہ 33 سے زائد مقامات پر مفت کھانے کے دسترخوان چلانا معمولی بات نہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر تحریک ہے جس کے پیچھے صرف ایک فرد کی قیادت نہیں بلکہ درجنوں کارکنوں، رضاکاروں، اور اہل خیر کا عزم کارفرما ہے اور اس قافلے کے سالار ہیں: انعام الرحمن کمبوہ۔

یہ دسترخوان صرف کھانے کی جگہ نہیں، عزت و وقار کی علامت ہیں۔ یہاں لائنوں میں لگ کر کھانے کی ذلت نہیں، بلکہ عزت سے بیٹھ کر کھانے کا رواج ہے۔ بے گھروں، مزدوروں، طالب علموں، بیواؤں، اور تنہا بزرگوں کو یہ سہولت فراہم کرنا صرف جسم کی غذا نہیں، بلکہ روح کی تسکین ہے۔

رمضان المبارک کے دوران تو یہ کار خیر اور بھی وسعت اختیار کر لیتا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں اجتماعی سحری و افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں سینکڑوں افراد دسترخوان پر بیٹھ کر ایک ہی وقت میں روزہ کھولتے ہیں۔ ان مواقع پر انعام الرحمن نہ صرف خود موجود ہوتے ہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے کھانا بانٹتے نظر آتے ہیں — یہی وہ عمل ہے جو انہیں ایک رہنما سے بڑھ کر ایک خادم بناتا ہے۔

عیدالاضحیٰ پر خدمت کمیٹی اجتماعی قربانی کا وسیع نظام چلاتی ہے۔ ہزاروں جانور قربان کیے جاتے ہیں، اور گوشت سفید پوش خاندانوں کے گھروں تک خاموشی سے پہنچا دیا جاتا ہے۔ انعام الرحمن کمبوہ کا پیغام واضح ہے: “خدمت کو دکھاوا نہ بناؤ، بلکہ ضرورت مند کی عزت کا خیال رکھو۔”

یہ سب کچھ کسی حکومتی بجٹ، این جی او فنڈ یا بین الاقوامی امداد سے نہیں، بلکہ مقامی افراد کے خلوص اور ٹیم کے جذبے سے ممکن ہوا۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں ان کی قیادت باقیوں سے ممتاز ہو جاتی ہے۔

قومی ہم آہنگی اور نظریہ پاکستان کی آبیاری

انعام الرحمن کمبوہ صرف فلاحی منصوبوں کے ماہر نہیں، بلکہ نظریاتی سیاست کے مضبوط ستون بھی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان کی بنیاد نظریہ اسلام پر ہے، اور اسی نظریے کے احیاء سے قوم دوبارہ متحد ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی تقریروں، ورکشاپس، اور تربیتی سیشنز میں نوجوانوں کو بار بار یہ پیغام دیتے ہیں کہ "ہماری شناخت ہمارے نظریے میں ہے، اور ہماری طاقت ہمارے اتحاد میں۔"

ان کی قیادت میں نوجوانوں کے لیے خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں انہیں بانیانِ پاکستان کی جدوجہد، اسلامی اقدار، اور پاکستان کی نظریاتی اساس سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیمینار، ڈائیلاگ، اور فکری نشستیں انعام الرحمن کے منصوبوں کا مستقل حصہ ہیں۔

وہ سوشل میڈیا پر بھی ایک فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز، بیانات اور پیغامات ہزاروں نوجوانوں تک پہنچتے ہیں، جو بدظنی، مایوسی اور بے عملی کی دلدل سے نکل کر خدمت اور نظریاتی شعور کی جانب آ رہے ہیں۔ ان کے سادہ، پُراثر الفاظ اور عمل سے بھرپور پیغام دلوں پر اثر کرتے ہیں۔

انعام الرحمن کی نظر میں سیاسی قیادت محض ووٹ لینے کا نام نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک کا عنوان ہے۔ ان کی سوچ قیادت کو خدمت، اتحاد، تعلیم اور نظریاتی بیداری سے جوڑتی ہے۔

مظلوم امت کی آواز فلسطین و کشمیر کے لیے درد

انعام الرحمن کمبوہ کی قیادت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف مقامی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اُمتِ مسلمہ کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل ان کی گفتگو، تقریروں، بیانات، اور حتیٰ کہ عملی اقدامات کا مستقل حصہ رہے ہیں۔

انہوں نے بارہا عوامی اجتماعات میں فلسطینی مظلومین کے لیے دعائیہ تقریبات، امدادی مہمات، اور آگاہی مہمات کا انعقاد کیا۔ جمعۃ الوداع کو "یوم القدس" کے طور پر منانے کی روایت کو از سر نو زندہ کیا۔ ان کی قیادت میں فلسطینیوں کے لیے خصوصی جمع فنڈز کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے خوراک، ادویات، اور بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے ہر سال یکجہتی کشمیر واکس، سیمینارز اور قراردادیں منظور کی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا مہمات کے ذریعے بین الاقوامی فورمز کو جگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انعام الرحمن کا یہ بیانیہ واضح ہے کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ جب فلسطین یا کشمیر پر ظلم ہوتا ہے تو وہ صرف وہاں کے مسلمان نہیں، بلکہ ہم سب مجروح ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز صرف سیاستدانوں کی نہیں، بلکہ امت کے ضمیر کی صدا محسوس ہوتی ہے۔

دعوتِ خدمت آپ کا کردار، آپ کی تحریک

یہ کتاب کسی ایک فرد کی مدح نہیں، بلکہ ایک تحریک کا بیان ہے۔ انعام الرحمن کمبوہ کی قیادت صرف قابلِ تقلید نہیں، قابلِ شرکت بھی ہے۔ ان کی خدمت کی تحریک، صدقہ جاریہ کا تسلسل ہے، جو ہر پاکستانی کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے حصے کا چراغ جلائے۔

چاہے آپ طالب علم ہیں، تاجر ہیں، پروفیشنل ہیں یا گھریلو خاتون، آپ ان کی خدمت مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دسترخوان میں ایک وقت کا کھانا دینا، ہسپتال کے لیے ایک دوائی مہیا کرنا، یا ووکیشنل سینٹر کے لیے ایک مشین عطیہ کرنا یہ سب صدقہ جاریہ ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم قیادت کے پرانے تصور کو بدلیں۔ ہمیں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو صرف تقریریں نہیں کرتے، بلکہ میدانِ عمل میں موجود ہوں۔ انعام الرحمن کمبوہ نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو، وژن واضح ہو، اور ٹیم مضبوط ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
آئیں! ہم سب اس خدمت کے کارواں کا حصہ بنیں۔ اپنے مال، وقت، علم اور دعاؤں سے اس تحریک کو تقویت دیں۔ کیونکہ قومیں نعرے سے نہیں، عمل سے بنتی ہیں اور عمل وہی ہے جو خلقِ خدا کی خدمت میں نظر آئے

 

Saif Ali adeel
About the Author: Saif Ali adeel Read More Articles by Saif Ali adeel: 23 Articles with 30004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.