�معاشی اشاریوں سے عوامی ریلیف تک
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore, Pakistan)
|
غلام مرتضیٰ باجوہ |
|
بین الاقوامی سطح پر معیشت کی سمت اور صحت کا اندازہ لگانے کے لیے ”کریڈٹ ریٹنگ“ ایک بنیادی اشاریہ سمجھی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے ایک خوش آئند خبر یہ سامنے آئی کہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ”سٹینڈرڈ اینڈ پور“(S&P Global Ratings) نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو ٹرپل سی پلس (CCC+) سے بڑھا کر بی مائنس (B-) کر دیا ہے۔ یہ پیش رفت اس امر کی علامت ہے کہ پاکستان کی معیشت اب غیر یقینی، دباؤ، اور خطرے کی کیفیت سے نکل کر استحکام اور بحالی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ بہتری صرف ایک تکنیکی اپ گریڈ نہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں، سرمایہ کاروں، اور معاشی ماہرین کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ اس کے پس منظر میں کئی اہم عوامل کارفرما ہیں، جن میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مالی خسارے میں کمی، مہنگائی کی شرح میں کمی، اور شرح سود میں بتدریج استحکام جیسے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے درمیان حالیہ معاہدے نے پاکستان کی معیشت کو وقتی سہارے سے آگے بڑھا کر ایک دیرپا مالی نظم کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد فراہم کی۔ سٹاف لیول ایگریمنٹ کے تحت حکومت نے بجٹ خسارہ محدود رکھنے، محصولات میں اضافے، اور سبسڈی کو ہدفی بنانے کے وعدے کیے۔ ان اقدامات نے بیرونی دنیا، خاص طور پر ریٹنگ ایجنسیوں کو قائل کیا کہ پاکستان اصلاحات کے ذریعے پائیدار معاشی فریم ورک قائم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گرتے چلے جا رہے تھے جو بیرونی ادائیگیوں اور درآمدی بلوں کے لیے بڑا خطرہ بن چکے تھے۔ تاہم، آئی ایم ایف سے قرض کی قسط ملنے، دوست ممالک جیسے سعودی عرب، چین اور یو اے ای کی جانب سے سپورٹ، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی کے باعث ذخائر میں قدرے بہتری آئی ہے۔ یہ بہتری ملک کی ادائیگیوں کی صلاحیت میں اعتماد کا ذریعہ بنی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پچھلے دو سال میں شرح سود میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کیا تاکہ افراط زر کو قابو میں لایا جا سکے۔ اب، جب کہ ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں داخل ہو چکی ہے، توقع ہے کہ آئندہ دنوں میں شرح سود میں بھی نرمی آ سکتی ہے۔ اس کا براہِ راست فائدہ کاروباری طبقے کو ہو گا جس سے قرض لینا آسان اور سستا ہو گا، صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ سٹینڈرڈ اینڈ پور کی طرح دیگر کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز، جیسے موڈیز اور فچ، بھی پاکستان کی معاشی کارکردگی میں بہتری کا اعتراف کر چکی ہیں۔ موڈیز نے حالیہ رپورٹس میں پاکستانی معیشت کے استحکام کی نشاندہی کی، جبکہ فچ نے بجٹ نظم و ضبط اور مالیاتی اصلاحات کو سراہا۔ یہ مجموعی رجحان اس بات کا غماز ہے کہ عالمی مالیاتی حلقے پاکستان کے مستقبل کو اب کم خطرناک تصور کر رہے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کو عالمی مالیاتی منڈیوں سے قرض حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اور قرض کی شرح سود کم ہو جاتی ہے۔ اس سے حکومت کو بیرونی قرضوں کی واپسی میں سہولت ملتی ہے اور نجی شعبہ بھی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ ریٹنگ نہ صرف حکومتی مالیاتی نظم کا اعتراف ہے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک سگنل بھی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری پر غور کریں۔ تاہم، کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری تبھی ثمر آور ہو سکتی ہے جب اس کا اثر حقیقی معیشت پر بھی پڑے۔ اس وقت پاکستان کا صنعتی شعبہ توانائی کے نرخ، خام مال کی قیمت، اور مالی سہولتوں کی کمی جیسے مسائل کا شکار ہے۔ عالمی مسابقت کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صنعتی یونٹس کو توانائی کی قیمتوں میں رعایت، مالی قرضوں کی دستیابی، اور برآمدی مارکیٹس تک رسائی میں آسانی فراہم کرے۔ اگرچہ معاشی اشاریے بہتری کی خبر دے رہے ہیں، لیکن عام پاکستانی آج بھی مہنگائی، بیروزگاری، اور یوٹیلیٹی بلوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں، ٹرانسپورٹ، ادویات، تعلیمی اخراجات، اور رہائش کی لاگت عام شہری کی استطاعت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ یہ مثبت اشاریے عوام کی زندگی میں بہتری کے طور پر ظاہر ہوں، صرف اخباری سرخیوں یا بین الاقوامی رپورٹس تک محدود نہ رہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ وقتی بہتری دیرپا اقتصادی استحکام میں بدل جائے، تو اسے چند بنیادی اصلاحات پر توجہ دینی ہو گی۔ٹیکس نظام میں شفافیت: ٹیکس نیٹ کو وسیع کیے بغیر ملکی آمدن بڑھانا ممکن نہیں۔صنعتی زونز کی بحالی: بند ہونے والی صنعتوں کو بحال کرنا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا انحصار زراعت پر ہے، اس میں جدید ٹیکنالوجی اور سستے قرض کی فراہمی ضروری ہے۔احساس اور بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں کو موثر اور شفاف بنانا ہو گا تاکہ امداد مستحقین تک پہنچے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری ایک اہم علامت ہے کہ ہم معیشت کے گہرے اندھیروں سے بتدریج نکل رہے ہیں۔ یہ پیش رفت امید کو جنم دیتی ہے لیکن یہ امید اُس وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب حکومت اسے عوامی بہبود میں بدلنے کے اقدامات کرے گی۔ اگر عام آدمی کی زندگی میں سہولت، روزگار، اور استحکام محسوس نہ ہو تو عالمی سطح پر حاصل کی گئی ریٹنگ صرف فائلوں میں لکھی جائے گی، زمین پر اس کا اثر نہ ہو گا۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت، پارلیمنٹ، اپوزیشن، اور تمام معاشی اسٹیک ہولڈرز مل کر ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو معاشی استحکام کو پائیدار ترقی میں بدل سکیں۔ پاکستان کو صرف درجہ بندی کی بہتری نہیں، بلکہ معیشت میں اصل بہتری کی ضرورت ہے۔
|
|