����� کشمیر


کشمیر — تین طرفہ تنازع اور عالمی امن کی آزمائش
کشمیر ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر ابھر چکا ہے — ایک ایسا خطہ جو اب صرف پاکستان اور بھارت کا تنازعہ نہیں رہا، بلکہ چین کی شراکت اور عالمی طاقتوں کی مداخلت نے اسے کثیر الجہتی
بنا دیا ہے۔ مئی 2025 میں ہونے والی بھارت اور پاکستان کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپ نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن محض دو ممالک کی مرضی سے مشروط نہیں رہا۔

پہلگام میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد، بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر لگایا، اور سرحد پار کارروائیوں کا آغاز کیا۔ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی کی، اور چند دنوں میں دونوں جانب درجنوں فوجی اور سویلین جانیں ضائع ہو گئیں۔ عالمی برادری کی فوری مداخلت کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی تو ہو گئی، مگر کشیدگی اب بھی فضا میں ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو 2024 میں دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، اس بار کشمیر کے مسئلے پر زیادہ واضح، متوازن اور امن پر مبنی موقف کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق:
“کشمیر اب صرف ایک سرحدی جھگڑا نہیں رہا، یہ دنیا کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک خطرناک بارود کا ڈھیر ہے۔ میں دونوں فریقوں کو امن کی میز پر لانے کے لیے تیار ہوں۔”
ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی امن مذاکرات کی تجویز بھی دی ہے اور چین، روس، یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اس عمل کو تقویت دیں۔

بھارت نے حسبِ روایت کشمیر کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کی پیشکش اور عالمی ثالثی کو مسترد کر دیا ہے۔ مگر اب حالات 2019 جیسے نہیں۔ دنیا اب دیکھ رہی ہے کہ:
بھارت جموں و کشمیر پر سخت کنٹرول رکھ کر بنیادی انسانی حقوق کو محدود کر رہا ہے۔
نئی دہلی کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی کشیدگی کو بڑھا رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ چین اب کشمیر تنازعے کا فعال فریق بن چکا ہے۔


لداخ اور اکسائی چن کے علاقوں میں چین کی فوجی موجودگی، اور چین-پاکستان اکنامک کاریڈور
کی کشمیر سے گزرنے والی راہداری نے چین کو عملاً ایک اسٹیک ہولڈر بنا دیا ہے۔ بھارت چاہے جتنا بھی انکار کرے، اب کشمیر پر چین کی جیو اسٹریٹیجک شمولیت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

چین نے ٹرمپ کی امن پیشکش کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ "کشمیر کا پرامن حل پورے ایشیا کے مفاد میں ہے"۔
پاکستان ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا حامی ہے، اور کئی بار اقوامِ متحدہ سے اپیل کر چکا ہے کہ کشمیر پر حقِ خود ارادیت کی قراردادوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔

روس اور یورپی یونین نے بھی اس خطے میں امن کو عالمی استحکام سے جوڑتے ہوئے سفارتی مداخلت پر زور دیا ہے۔

گو کہ ٹرمپ کو اکثر ایک منفعت پسند سیاست دان سمجھا جاتا ہے، مگر کشمیر کے مسئلے پر ان کا حالیہ موقف ایک نئے چہرے کو ظاہر کرتا ہے — ایک ثالث، ایک مصلح۔ اگر وہ چین، روس، پاکستان اور یورپی یونین کو ساتھ لے کر بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد کروا سکیں، تو نہ صرف کشمیر، بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک نئے سیاسی توازن کا آغاز ممکن ہے۔

بھارت کی انکاری پالیسی اب سفارتی تنہائی کا باعث بن رہی ہے۔ ایک طرف وہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو "دہشت گردی" قرار دیتا ہے، دوسری جانب چین کی فوجی پیش رفت، عالمی ثالثی کی اپیلیں اور مقامی کشمیریوں کے حقوق کا سوال اُس کے موقف کو غیرمتوازن بنا رہا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت حقیقت کا سامنا کرے:
کشمیر تین ممالک کے بیچ ایک تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی حقیقت بن چکا ہے۔
عالمی برادری اب مزید خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔
اگر بھارت امن مذاکرات سے انکار کرتا رہا، تو کشمیر کا مسئلہ مزید بین الاقوامی رنگ اختیار کرے گا۔
کیا ٹرمپ واقعی امن کا دروازہ کھول سکتے ہیں؟ یا وہ بھی ماضی کی طرح صرف بیانات اور تصاویر تک محدود رہیں گے؟
فی الحال دنیا دیکھ رہی ہے، اور کشمیری انتظار کر رہے ہیں۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 220 Articles with 200960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.