ارقم اور نواز علی بچپن کے دوست تھے۔ارقم بیوہ ماں کا
واحد سہارا تھا جب کہ نواز علی والدین کے پیار کی دولت سے مالا مال
تھا۔ جیسے جیسے دونوں دوست بڑے ہوتے گئے ،ویسے ویسے دونوں کے مزاجوں
میں فرق آتا گیا۔ نواز علی اپنی ماں باپ کو خوب تنگ کرتا،بات بے بات
والدین کی بے عزتی کرتا،انھیں خرچے کے پیسوں کے لئے تنگ کرتا،جب کہ اس
کے برعکس ارقم اپنی بیوہ ماں کی خوب خدمت کرتا ۔وہ نواز علی کو بھی
ہمیشہ قرآن و حدیث کے حوالے دے کر سمجھاتا کہ والدین کی خدمت بہت مستحب
عمل ہے خاص طور پر ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔نواز علی اس کی بات
سنی ان سنی کردیتا۔اکثر اس کا مذاق اڑاتا اور کہتا :
"یہ بوڑھے ماں باپ صرف جذباتی بلیک میلنگ کرنا جانتے ہیں ۔اگر میں نرمی
برتوں گا تو یہ روز مجھے نئی نئی فرمائشیں کر کے تنگ کریں گے۔"
ارقم اکثر کہتا :
"یاد کرو ! تمھارے بچپن میں تمھاری فرمائشوں یا ضد کا جواب وہ ڈانٹ ڈپٹ
سے نہیں دیتے تھے۔"
مگر نواز علی پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا،وقت گزرتا گیا ۔ایک
دن پتا چلا کہ ارقم کی والدہ کو کینسر ہوگیا ہے ،ارقم نے ان کی خدمت
میں دن رات ایک کردئے مگر وہ رضائے الہی سے ایک روز چل بسیں۔اتفاقا
ارقم کی موت بھی چند دن بعد ایک روڈ ایکسڈینٹ میں ہوگئی۔اس کا کفن دفن
نواز علی نے کیا۔نواز علی اپنے بچپن کے دوست کی موت پر بہت آزردہ
تھا،ایک رات وہ اسی فکر میں سویا کہ نہ جانے مرنے کے بعد میرے دوست پر
کیا بیت رہی ہوگی۔
نواز علی نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک خوبصورت باغ میں کھڑا ہے ،اس باغ
کی خوبصورتی اپنی مثال آپ تھی۔اس باغ میں ارقم ایک سونے کے تخت پر جلوہ
افروز تھا ،اس نے سبز ہوشاک زیب تن کی ہوئی تھی، اس کے چہرے کے گرد نور
کا ہالہ تھا۔اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے۔اس کے سامنے نعمتوں کا
ڈھیر تھا۔ نواز علی نے تعجب سے ارقم سے پوچھا:
"یہ تم کہاں ہو ؟
یہ مقام تمھیں کیسے میسر ہوا؟"
ارقم نے ہنس کر کہا:
"یہ میری قبر کا منظر ہے،اللہ تعالی نے میری قبر میری ماں کی دعاؤں کے
صدقے گل و گلزار کردی ہے۔مجھے یہ مرتبہ میری ماں کی خدمت کے نتیجے میں
ملا ہے۔"
نواز علی کی ہڑبڑا کر آنکھ کھل گئی۔اس کی آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو
تھے،اسے یاد آرہا تھا کہ وہ اپنے والدین خاص طور پر اپنی ماں پر کتنا
چیختا چلاتا تھا،اس نے طویل عرصے کے بعد وضو کر کے قرآن پاک کھولا اور
اس کی نظر اس آیت پر پڑی۔
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ
أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ
تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاO وَاخْفِضْ لَهُمَا
جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا
رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو
اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے
کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا
اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا
کروo اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو
اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا
کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘
الاسراء، 17 : 23 - 24
نواز علی کو یقین ہوگیا کہ اس نے سچا خواب دیکھا تھا اور اللہ تعالی
اسے اپنے آپ کو سدھارنے کا ایک اور موقع دینا چاہتا ہے۔اس نے عزم مصمم
کیا کہ وہ اپنے والدین کی خوب خدمت کرے گا اور پچھلی زیادتیوں کا ازالہ
کرے گا۔
سچ ہے دوستوں ماں کی دعا جنت کی ہوا کی نوید ہوتی ہے۔ |