وچولا

ادھوری محبت

ہمارا گھرانہ چار بھائی اور دو بہنوں پر مشتمل تھا جن میں سے میں سب سے چھوٹا تھا اور میرے بچپنے میں ہی میری بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی اور اوپر سے غریبی کو تو جیسے ہم سے عشق تھا ہمارے بردکس ہمارے چاچا کا گھر بہتر تھا جس میں دو بھائی اور تین بہنیں تھیں یوں تو ایک ہی گھر میں رہتے تھے مگر ان کے پاس وقت کے مطابق ہر چیز تھی ان کے حالات تو اچھے تھے مگر تیور خراب تھے ہمارے چچا جان کی تو اتنی نہی چلتی تھی جتنی چچی اور چچا زار بہنوں کی چلتی تھی اور ہم ان کو ایک نظر نہی بھاتے تھے اور اکثر ہم کو طنزیہ الفاظ کا سامنا رہتا جیسے
“ہمیں تو شرم آتی ہے کسی کو بتاتے کہ یہ ہمارے رشتے دار ہیں”
ہمارے حالات ایسے کہ صبح کا کھانا اگر مل گیا تو باقی کا کوئی علم نہی کہ کیا بنے گا خیر وقت اپنی تیزی سے گزرتا رہا اور ہمارے والد کو کسی نہ کسی طرح عرب ملک کا ویزا مل گیا اس طرح وہ میری دو تین سال کی عمر میں ہی دیارِ غیر چلے گئے حالات بہتر ہونے کی امید ہوئی اور رَبَّ نے اپنا کرم کیا پھر ایک بھائی بھی چلا گیا اور پھر دوسرا غرض یہ کہ جو پہلے ہم پر ہنستے تھے اب ہم کو دیکھ کر مسکرانا شروع ہو گئے تھے۰
وقت اپنی تیزی کے ساتھ گزرتا رہا اور میں سب سے چھوٹا ہونے ہی وجہ سے وقت کی تلخیوں سے بچا رہا کیونکہ مجھ سے سب بڑے میرا خیال رکھتے اور جو ان کی بساط میں ہوتا اس سے زیادہ ہی میرے لئےکرتے تھے۰
میرے ایک بھائی کو عرب ملک سے ہی یورپ کا ویزا مل گیا اور وہ وہاں چلا گیا اور اسی دوران ابو کو بھی بھائیوں نے واپس گھر بھیج دیا کہ اب آپ کے آرام کے دن ہیں اور اس دن سے جو تقریباً پچیس سال بنتے ہیں ابو نے کوئی کام نہی کیا بھائیوں نے سب سنبھال لیا۰
ہم حالات کی وجہ سے اپنے رشتے داروں میں کم ہی جاتے تھے اور شاید اسی لئے وہ بھی ہمارے پاس نہی آتے تھے
لیکن جب وقت بدلا تو ان کا بھی اصرار بڑھا کہ اپ آیا کریں اور بچوں کو بھی لایا کریں۰
ایک خالہ سے تو ہم کو بہت پیار تھا اور وہ بھی ہم سے بہت بہت پیار کرتی تھیں ان کا نام بشرٰی تھا ان کے بچے اور خالو کا کوئی ثانی نہی ہے ہم اگر کبھی جاتے تو ادھر ہی رہتے تھے اور ہماری دوسری خالہ صغرٰی بھی کچھ ہی دوری پر تھی مگر ہم وہاں نہی جاتے کیونکہ وہ بڑا گھر ہونے کی وجہ سے خود کو سب سے اونچا سمجھتی تھی اور اوپر سے اس کا بیٹا تھوڑا خبطی تھا
مجھے یاد ہے گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو میری خالہ بشرٰی کا بیٹا مجھکو لینے آ گیا کہ تم ہمارے پاس چھٹیاں گزارو۰
میں چلا گیا ہفتہ گزر گیا اور ایک دن خالہ بشرٰی دوسری خالہ کے گھر جا رہی تھی کسی کام سے تو مجھ کو بھی ساتھ ہے لیا پہلے دفعہ میں ان کے گھر گیا تو سب ملے سب کزنیں اور کزن بھی پاس تھے مگر ان گھر ایک اور لڑکی کام کر رہی تھی جس نے اپنی عینک کے اوپر سے دیکھ کر سرسری سا سلام کیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی مجھے وہ بہت اچھی لگی میں نے سوچا کام والی ہے خیر ہم کچھ گھنٹے رکے اور پھر واپس گھر آ گئے لیکن گھر آ کر بھی میرا دھیان اسی طرف تھا اس کے چہرے کی معصومیت اور بڑے بڑے ہونٹ اور ان ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نہی بھول رہی تھی ایک دو دفعہ پھر ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو جب بھی گئے وہ صفائی ہی کر رہی ہوتی بلکل اُسی انداز سے سلام کر کے اپنے کام میں لگی رہتی۰ گھر آ کر میں نے خالہ سے کہا کہ وہ کام کرنے والی کون ہے خالہ نے جواب دیا کہ اُلو کام کرنے والی بھی تیری کزن ہی ہے نوشی اس کا نام تھا مگر زیادہ بولتی نہی بس چپ چپ سی رہتی ہے بس پھر کیا پھر تو میرا دل کرتا کہ خالہ مجھے کسی آنے بہانے سے ادھر بھیجتی رہے میرا کزن ہر وقت گھر میں رہتا اس لئے کبھی بھی اس سے سلام کے علاوہ بات نہی ہوئی تھی میں نے سوچا کہ اس کو ایک خط لکھتا ہوں اور حالِ دل سنا ڈالتا ہوں ہمت کر کے ایک لمبا سا خط لکھا اور اپنی خالہ بشرٰی کے چھوٹے بیٹے نوید کو دے دیا کہ دے آؤ ہم سب ہم عمر ہی تھے مگر نوید کا ان کے گھر آنا جانا زیادہ تھا۰
خط پہنچ گیا اب وقت ایسے تھا کہ جیسے رک گیا ہے ایک دو دن بہت مشکل سے گزارے وہ پھر کسی کام سے ان کے گھر گیا تو جواب لے آیا اتنا مثبت تو نہی تھا مگر اچھا لگا قصہ مختصر کے سلسلہ چل پڑا میں واپس اپنے گھر آ گیا اور اب خط لکھ کر میں اپنے کزن نوید کو بھیجتا وہ آگے پہنچا دیتا اور جب جواب آتا تو وہ مجھکو پوسٹ کر دیتا تھا پھر آہستہ آہستہ جوابات کا سلسلہ رُک گیا۰ میں نے کسی نہ کسی طرح اپنی امی کو ان سے بات کرنے پر راضی کیا میری امی سب بہنوں میں بڑی تھیں امی نے ان سے بات کی اور اُدھر سے صاف جواب ملا کہ ہم ان کی حیثیت کے نہی وغیرہ وغیرہ اس کے بعد ہمارا رابطہ ختم ہو گیا وقت گزرتا رہا اور اسی دوران میری شادی ملک سے باہر ہو گئی اور وہ اپنے کام کی وجہ سے لاہور شفٹ ہو گئی نوشی کی شادی ابھی تک نہی ہوئی تھی تقریباً دس سال بعد اس سے فون پر رابطہ ہوا اور میں نے اس کو بتایا کہ پاکستان آ رہا ہوں ایک ماہ کے لئے تو اس نے اصرار کیا اس سے ضرور ملوں جب میں پاکستان پہنچا تو ائیرپورٹ سے نکلتے ہی اس سے ملاقات ہوئی بلکہ میں اس کو گھر ہی لے گیا کہ کچھ دن ہمارے پاس رہو گھر پہنچے اور شام کو میں اور وہ چھت پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا مجھے آج تک تم نہی بھولی تمہاری مسکراہٹ اور شرمانہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا دس سال پہلے تھا بولی تم کو پاکستان میں کوئی نہی ملی شادی کے لئے میں نے کہا ملی تو تھی مگر شادی پر راضی نہی ہوئی تھی پھر میں نے اس کو بتایا تمہارے خط آج بھی میرے پاس ہیں کاش تم نے شادی کے لئے ہاں کر دی ہوتی تو وہ یکدم چونک گئی اور بولی کون سے خط میں نے اس کو بتایا کیسے میں خط لکھ کر نوید کو بھیجتا تھا اور یہ جواب آتے تھے اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں بولی تمہارا ایک بھی خط مجھکو نہی ملا اور نہ ہی میں نے کبھی جواب لکھا تھا بلکہ میں تو تمہارا ہر روز انتظار کرتی تھی کہ کب آؤ یہ سن کر مجھکو خود پر غصہ بھی آ رہا تھا اور حیرانگی بھی ہو رہی تھی کہ نوید ایسا کیوں کرے گا جب میں نے اس سے پوچھا کہ نوید نے ایسا کیوں ہو گا تو بولی کیونکہ اس نے مجھ کو خود کئی بار خط لکھے اور میں نے جواب دے دیا تھا شاید اس کےدل میں میل ہو کہ اگر اس کو نہی ملی تو تم کو کیوں!!!!
اس نے میرے ہاتھ کو پکڑا ہوا تھا اور سردی میں بھی اُس کی ہتھیلی سے پسینہ نکل رہا تھا اس نے میرا ہاتھ دبایا میری آنکھیں بھی بھری ہوئی تھیں مگر اس کے آنسو اُس کے رخسار سے ہوتے ہوئے نیچے گِر رہے تھے۰

کاش اُس وچولے پر اعتماد نہ کیا ہوتا اور وہ ایک خط میں نے خود دیا ہوتا تو آج اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Mian Ahmed
About the Author: Mian Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.