میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!

ہم بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ، زبان گز بھر کی ہے، لیکن دماغ اور دل کو خورد بین سے ڈھونڈنا پڑتا ہے، میرا یہ نوحہ اور واویلا سمجھو۔ ہمارا جو سب سے بڑا اجتماعی مرض یا ام الامراض ہے ، وہ یہ کہ ہم بدتر بن کر رہ گئے ہیں، ذوق میں ، فہم میں اور دانش میں ۔ایک قوم جا رہی ہے اور موت اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔عدم برداشت ، استحقاق کی جنگ میں صرف تباہی ملتی ہے ، یہ عوامل زندہ قوموں کی نشانی نہیں ہیں۔ عام لوگوں کی خواہشات اور امیدیں ہوتی ہیں ، کامیاب لوگوں کے مقصد اور منصوبے ہوتے ہیں ۔ سانحہ ساہیوال پورے ملک کو سوگوار کر گیا ہے ،ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار ہے۔ ظلم یہ کہ حکومتی نمائندوں اور ادارو ں کے ذمہ داروں کی جانب سے جو بھونڈے بیانات اور حرکات کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک اور غیر انسانی ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون کہتے ہیں کہ ایک شخص دہشتگرد تھا باقی چھ افراد بے گناہ تھے اور وہ ایک شخص جس کے بارے میں ابھی تک فیصلہ ہی نہیں ہو پایا کہ وہ دہشت گرد تھا کہ نہیں! تو آپریشن درست کیسے ہو گیا؟ اور آپریشن کا وحشیانہ انداز اس سے بڑا سوال ہے۔

گزشتہ چند دنوں کے دوران یہ حقیقت تو الم نشرح ہو گئی کہ صوبہ پنجاب لاوارث ہے ۔ پنجاب حکومت کی قیادت میں کوئی مرد معقول نہیں، کوئی صاحب فہم و فراست نہیں، کسی کو یہ معلوم نہیں کہ موقع مناسبت سے کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں ، جو کہنا چاہئے اس کیلئے موزوں الفاظ کیا ہونے چاہئیں َ ۔راجہ بشارت نے اتوار کو نہایت ہی نامناسب پریس کانفرنس کی اور سی ٹی ڈی کے افسروں اور اہل کاروں کا دفاع کرنے کی نہایت بھونڈی کوشش کی۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا کہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہوتا ہے اور غلطی ہو ہی جاتی ہے ، اگر چار پانچ شریف لوگوں کو دن دیہاڑے قتل کر ہی دیا ہے تو کونسا اتنا بڑا جرم ہو گیا ہے؟ ۔ عجیب لوگ ہیں ! میں چوہدری سرور صاحب کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اسی طرح ان کے بیٹے کو دن دیہاڑے چاہے اس کے قصور پر بھی مار دیا جاتا تو پورے ملک کی بیوروکریسی کو بھاگ دوڑ لگ جاتی، وبال کھڑا کر دیتے ۔ جانے اس ملک سے یہ بدمعاشیہ کب جائے گی کہ ہر غریب کو سکھ کا سانس آئے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے روز اول سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ عمران خان نے جانے کس مصلحت کے تحت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو لاوارث چھوڑ دیا ہے؟ مجھے تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان کی خسروآنہ فیاضی ویسی ہی ہے جیسی مغل شہنشاہ کسی درباری سے ناراض ہو کر اسے سفید ہاتھی بخش دیتے تھے کہ وہ بیچارہ ہاتھی کی دیکھ بھال میں ہلکان ہوتا رہے۔ ایک طرف پنجاب حکومت کہتی ہے کہ ساہیوال سانحے پر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ ساتھ ہی پنجاب حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا آپریشن بالکل درست تھا۔ اب بوجھو تو جانیں کہ انصاف کے تقاضے کس کے حق میں پورے ہوں گے ؟جنہوں نے بالکل درست آپریشن کیا۔۔۔ ظاہر ہے انصاف انہی کو ملے گا، ظاہر ہے غلط تو وہی ہیں جو مارے گئے۔ عثمان بزدار نے تبادلوں والے اپنے شوق کو بھی بھرپور انداز میں پورا کیا ہے کیونکہ وہ پنجاب میں شہباز شریف لگے ہوئے ہیں۔ یہ تبادلے بھی مجرموں کو بچانے کا وسیلہ ہوا کرتے ہیں ۔ چھ پولیس اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کی خبر ہے اگرچہ ساتھ ہی یہ سوال بھی ہے کہ آپریشن سو فیصد درست تھا تو مقدمہ کس بات کا چلے گا؟ چلئے مقدمہ چلنے کی خبر کو سنجیدہ مان لیتے ہیں لیکن ان اہلکاروں کو قتل کا حکم تو کہیں اور سے آیا ہوگا؟ اس کہیں اور پر مقدمہ کون چلائے گا؟۔

مجھے خوشی ہے کہ ہماری بیوروکریسی میں بھی چند دانشور موجود ہیں جو اداروں کے دفاع میں انتہائی مثبت سوچ پھیلانے کیلئے کردار ادا کرتے ہیں ۔ جن کے اس عمل سے ان کے شہنشاہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس طرح انہیں انعام و کرام سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ دانش کس کام کی جو حق کیلئے استعمال نہ ہو؟ کہتے ہیں کہ ہماری قربانیوں کو صرف ایک غلطی پر اس طرح نظر انداز نہ کیا جائے ، اس پر میرا جواب ہے کہ آپ کے بیشتر پولیس افسران نے جعلی پولیس مقابلوں سے شہرت و ترقی پائی ہے جس کی مبینہ مثال راؤ انوار، عابد باکسر جیسے لوگ ہیں۔ صرف شہباز شریف دور میں دوہزار لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں شہید کر دیا گیا اور آج تک ان مجرموں کو سزا نہیں دی گئی۔ کہتے ہیں ہمیں اتنی تنخواہ نہیں ملتی کہ تین تین دن مسلسل ہم سے ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں، نہ عید کی چھٹی نہ شب رات کی نہ کسی اور ایونٹ کی! جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ کسی بھی ادارے میں ایسا نہیں ہے کہ آپ سے آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی لی جائے ، آپ کے ادارے میں تین شفٹوں میں ملازمین کی ڈیوٹیاں چلتی ہیں اور افسران اپنی ڈیوٹی وقت میں ملتے تو ہیں نہیں جو ہمیں یہ طعنہ دیتے ہیں؟ اہم دنوں میں چند افراد کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں اور اس کے بدلے انہیں بعد میں زیادہ چھٹیاں عنایت کی جاتی ہیں جبکہ عام دنوں میں آپ لوگ خود ایک دوسر ے کی ڈیوٹیاں کر تے ہیں۔اور اگر یہ حقیقت ہے کہ آپ سے تین دن مسلسل ڈیوٹی لی جاتی ہے بغیر آرام کے تو آپ کے مطابق یا تو ہمارا ملک انتہائی شدید قسم کی جنگ کا شکار ہے یا محکمہ پولیس بے حد غیر انسانی محکمہ ہے! پھر تو ایسے محکمے سے انسانی حقوق کی قطعاََ توقع نہیں کی جا سکتی۔محکمہ پولیس نے جتنے بھی گناہ کئے مجھے بتائیں کہ کب افسران نے اپنے ماتحت کو سزا دی ہے؟ 1860 میں برطانوی حکومت نے محکمہ پولیس جس آئین پر منظم کیا تھا اس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی اور ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ایس او پیز صرف عام لوگوں کو دبانا اور اشرافیہ و برطانوی حکومت کے سامنے ان کوجھکانے کیلئے بنائے گئے تھے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بھی آج تک ایک بھی صاحب بصیرت پیدا نہیں ہو سکا جو انہیں انسانیت کے حق میں بدل سکے۔ ہاں مگر سارے کام خوشامد پسندی اور چاپلوسی سے سر انجال پاتے ہیں۔لیکن میرا حال یہ ہے کہ :
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

Malik Shafqat Ullah
About the Author: Malik Shafqat Ullah Read More Articles by Malik Shafqat Ullah: 33 Articles with 24483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.