امریکا17سال بعدافغانستان میں شکست کے دہانے پرپہنچنے
کے بعداپنی روایتی قلابازی کھاتے ہوئے ویتنام کی تاریخ کودہرارہاہے
اورایک معاہدے کے تحت افغانوں کوچھوڑ کر بھاگنے کی تیاریاں کررہاہے۔ اس
نے جس طرح ویت نام میں شکست کے بعدجنوبی ویتنام کی حکومت
کوتنہاچھوڑدیاتھااسی طرح امریکا افغانستان میں بدترین شکست کے بعدکٹھ
پتلی افغان حکومت کوبھی اس کارِ زارمیں بے یارومددگارچھوڑکرراہِ
فراراختیارکررہاہے اور امریکی مختلف ممالک سے رابطے کررہے ہیں۔اس حوالے
سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زادنے افغانستان ،
پاکستان، روس اوربھارت کے دورے شروع کردیئے ہیں اورقطرمیں ایک
اورمذاکراتی راؤنڈسے قبل تمام ممالک کواعتمادمیں لینے کی کوشش کررہے
ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی بھی تیزترین
سفارتکاری کے سلسلے میں افغانستان ،چین،روس اور ایران کے دورے میں ان
ممالک کے اہم رہنماؤں سے افغانستان کے سیاسی مستقبل اورامریکاوطالبان
کے درمیان آئندہ ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے پرمشاورت مکمل کرکے واپس
وطن لوٹ چکے ہیں جہاں انہوں نے متعلقہ ممالک کوپاکستان کی پوزیشن واضح
کرتے ہوئے گاہ کیاہے کہ افغانستان اوراس سے جڑے خطے میں مکمل امن کیلئے
پاکستان اپنے تمام وسائل بروئے کارلانے کیلئے تیارہے تاہم امریکاکی
جانب سے سات ہزارفوجی نکالنے کے اعلان نے نہ صرف امریکی وفوجی
حکام،امریکی اتحادیوں کو حیران کردیاہے بلکہ خودافغان کٹھ پتلی حکومت
بھی اس اعلان پرششدراورلاعلم ہے کہ اس فیصلے سے پہلے انہیں قطعاً
اعتمادمیں نہیں لیاگیااوران کیلئے بھی یہ حیران کن خبرہے۔
طالبان ذرائع سے پتہ چلاہے کہ انہیں امریکاکے اس عمل پرکوئی حیرت نہیں
کیونکہ افغانستان میں اب امریکی فوجیوں کی خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا
ہے اورانہیں ان سائیڈر حملوں کابھی سامنا ہے ۔سترہ سال سے مسلسل وہ جس
بے مقصدجنگ کی آگ میں جھونک دیئے گئے ہیں،ابھی تک وہ خود بھی اس
کامقصدسمجھنے سے قاصرہیں اوروہ اس جنگ میں اپنے بھرپورجنگی وسائل کے
باوجود انہیں بدترین شکست کاسامناہے اورچندمفادپرست امریکی ٹولے کے
مفادات کی تکمیل کی خواہش پروہ مسلسل قربانی کابکرابنے ہوئے ہیں جبکہ
افغان طالبان اورافغان قوم کاجومقصدہے وہ سوسال بعد بھی رہے گاکہ افغان
اپنی سرزمین پرکسی بھی جارح کوبرداشت نہیں کریں گے،دنیاکی کوئی بھی
غیرت منداورباشعورقوم کو اپنی سرزمین پرغیروں کاتسلط ہرگز قبول نہیں،اس
لئے افغان طالبان کی جدوجہداللہ اوراللہ کے رسول کے نہ صرف احکامات کے
مطابق ہے بلکہ ہم اس سرزمین پراللہ کی حاکمیت کیلئے سربکف ہیں۔افغان
طالبان اپنے جاری جہاد میں اس لئے کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہم اس
جدوجہدکاثمرصرف اپنے ربّ ِ کریم سے طلب کرتے ہیں اورہمارابنیادی مقصد
صرف اپنے رب کی رضاہے،اسی لئے ہم مزیدسوسال کیلئے بھی لڑنے کیلئے میدان
میں تازہ دم موجودرہیں گے اور کوئی بھی کفارکی طاقت ہمیں نہ تواس
مقصدمیں تھکاسکتی ہے اورنہ ہی ذرہ بھرہمارے عزم میں کمی آسکتی ہے۔
طالبان ذرائع کامزیدیہ کہناہے کہ جب تک افغانستان کی سرزمین سے آخری
امریکی اوراس کے کسی بھی اتحادی کاایک بھی فوجی یہاں موجودہے اس وقت
طالبان کاامریکاسے کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔شروع دن سے ہمارابنیادی
مطالبہ ہے کہ امریکااوراس کے تمام اتحادی مکمل طورپرافغانستان سے
انخلاء کااعلان کریںتوپھرہم کامیاب مذاکرات کی طرف لوٹ سکتے ہیں ۔ہمارابنیادی
مطالبہ اب بھی وہی ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کی افواج افغانستان
کی سرزمین سے نکل جائیں،ہمارے قیدیوں کوبھی رہاکیاجائے تواس کے بعد
مذاکرات میں پیش رفت بھی ہوسکتی ہے اور جنگ بندی بھی ہوسکتی
ہے۔امریکیوں نے اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کوبتائے بغیراپنی آدھی فوج
کے انخلاء کااعلان توکردیاہے مگرہم اس کاانتظار پرعملدرآمدکا کریں گے
کیونکہ اس سے پہلے بھی سابقہ امریکی حکومت نے بھی ایسے اعلان کئے تھے
لیکن نہ تواس پرعمل درآمدہوابلکہ ٹرمپ نے مزید امریکی فوج کو بھیج کر
یہ ثات کیاکہ امریکاکسی بھی وقت اپنے مفاد کیلئے کسی بھی بین الاقوامی
معاہدوں کے پرزے اڑادینے میں کوئی ندامت محسوس نہیں کرتا۔
تاہم طالبان ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزنی میں امریکی فوج کے
کمانڈرسکاٹ ملر نے اپنے فوجیوں کوآئندہ چندہفتوں میں یہاں سے واپس
بگرام جانے کیلئے تیار رہنے کاحکم دے دیا ہے اورانہوں نے غزنی میں
قبائلی مشران کوبتایاہے کہ افغانستان کے مسئلے کاحل اب جنگ نہیں بلکہ
امن مذاکرات ہیں جس کے بعدان افغان قبائلی مشران جنہوں نے افغان حکومت
اورطالبان کے درمیان غزنی پرطالبان کاقبضہ نہ کرنے کی ضمانت دی ہے ،انہوں
نے امریکی حکام سے صاف صاف کہہ دیاہے کہ وہ مزیدیہ ضمانت جاری نہیں
رکھیں گے جس کے بعد غزنی پربھی طالبان کا قبضہ ہونے کاخدشہ ہے اورغزنی
کے باشندے بھی طالبان کے منتظرہیںتاہم فی الحال قبائلی مشران کی ضمانت
کی وجہ سے طاالبان نے غزنی پرقبضہ کرنے کاارادہ ترک کردیاہے۔امریکانے
افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ معاہدے منسوخ کرنے کی دہمکی
پربھی افغان حکومت کوآڑے ہاتھوں لیاہے اورزلمے خلیل زادنے افغان
صدرڈاکٹر اشرف غنی کومتنبہ کیاہے کہ پاکستان نے بھرپور کوشش کی لیکن
طالبان ملنانہیں چاہتے تھے تواس میں پاکستان کاکیاقصورہے، پاکستان نے
توطالبان کی بہت منت کی لیکن طالبان نے کہاکہ ہم اپنے اصولی مؤقف پراب
بھی قائم ہیں کہ ہم امریکا کی کٹھ پتلی حکومت سے کسی بھی قسم کے
مذاکرات میں وقت ضائع نہیں کرناچاہتے کیونکہ اس جنگ میں اصل فریق
امریکاہے ،اس لئے مذاکرات صرف امریکاسے بھی ہماری شرائط پرہوں گے۔
افغان طالبان کایہ بھی مؤقف تھاکہ یہ افغانوں کااندرونی معاملہ ہے ،امریکاکے
ساتھ اگرہمارے معاملات طے ہوجا ئیں توہم افغان آپس میں مل بیٹھ کراپنی
بات حل کرسکتے ہیں ، وہ ہمارے گھرکی بات اورآسان ہے تاہم پہلے افغان
طالبان اورامریکاکے درمیان بات چیت کوکامیاب بناناضروری ہے۔ امریکانے
افغان حکومت کودہمکی دی ہے کہ اگراس نے پاکستان کے ساتھ معاہدے منسوخ
کئے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کوسبوتاژ کرنے کی کوشش کی توان کی فوری
طورپرفوجی واقتصادی امدادبند کردی جائے گی کیونکہ افغان فوج کوجتنی
امداددی گئی ہے اس کے مطابق افغان فوج کو 2015ء میں تمام سیکورٹی
معاملات اپنے ہاتھ میں لینے چاہئے تھے۔2014ء میں جومعاہدہ طے پایا
تھاکہ 2015ء میں سیکورٹی کے تمام معاملات افغان فوج کے ہاتھوں میں ہوں
گے اور2016ء کے آخرتک تمام آپریشنزکے معاملات بھی افغان فوج کے ہاتھوں
منتقل کرکے تمام امریکی افغانستان سے نکل جائیں گے لیکن افغان حکومت ان
تمام معاملات میں مکمل طورپرناکام رہی ہے لہندااب معاملات کوسبوتاژکرنے
سے باز رہے۔
افغان حکومت چنددن پہلے پاکستان سے اپنے تمام معاہدے منسوخ کرنے
کااعلان کیاتھاتاہم امریکی دہمکی کے بعدفوری طورپرمکرگئی اورمختلف
ذرائع سے نشرہونے والے اپنی حکومت کے احکامات کی تردیدکردی کہ پاکستان
کے ساتھ بارڈرکے سیکورٹی معاملات ،دہشتگردی کے حوالے سے معلومات کے
تبادلے،ڈیورنڈلائن پرہونے والے معاہدوں کو ختم کیاجارہاہے مگربعدمیں
افغان حکومت نے بیان جاری کردیاکہ اس بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے
حالانکہ افغان صدراس کاحکم دے چکے تھے کیونکہ افغان صدرنے مذاکرات
کوسبوتاژکرنے کیلئے افغان طالبان مخالف امراللہ صالح اوراسداللہ خالد
جوسابق انٹیلی جنس چیف رہے ہیں،کووزیرداخلہ اوروزیردفاع تعینات کیاہے
جن کی بھارت نوازی، پاکستان دشمنی بڑی واضح ہے اوروہ اپنے ہندومربی کے
کہنے پرافغان طالبان کے مذاکرات کے بھی شدیدمخالف ہیں۔
|