ریاست کے نام پر ریاست سے مذاق

ریاست کے نام پر ریاست سے مذاق

آزاد جموں وکشمیر جس طر ح ایشیاء میں جغرافیائی اہمیت افادیت کے حوالے سے پاکستان کو خاص حیثیت حاصل ہے اِسی طرح اس خطہ میں اہمیت رکھتا ہے جس کا نظام جغرافیائی خاصیت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے تناظر میں قائم ہے ‘ یہاں صدارتی نظام رہا اور پھر پارلیمانی نظام خاص کے ساتھ عام آدمی کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے معرض وجود میں آیا ‘ جس کے ساتھ ہی متوسط اور غریب گھرانوں کے لوگ بھی کار حکمرانی یعنی سیاست سے منسلک ہوتے ہوئے صف اول میں آنا شروع ہوئے اور اپنا مقام بنایا جن کی جگہ بنانے سے مقابلے کی صحت مندانہ فضاء ہموار ہو گئی ‘ صدر ‘ وزیراعظم ‘ چیف جسٹس پورے صوبے جیسا نظام اپنے اندر وسعتوں کو پیدا کرتے ہوئے ایسا پھیلتا گیا کہ روزگار کا واحد ذریعہ سرکاری ملازمت کو بناتے ہوئے اس کے اخراجات چار ارب ماہانہ تک آ چکے ہیں اور باقی 85 فیصد آبادی روز گار کے حصول کے لیے اِسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے بڑے شہروں سے کسی نہ کسی ناطے بندھی ہوئی ہے ‘ بیرون ملک مقیم ہیں یا پھر یہاں تجارت (دکانداری) سے کام چلاتے ہیں ‘ ملک میں امن و امان کے حالات بہت خراب ہو جانے کے بعد چوہدری مجید حکومت میں طاہر کھوکھر کی وزارت سیاحت کے دوران سیاحوں کا رُخ اِس طرف آیا تو یہ دوسرا ذریعہ بن گیا ہے ‘ مشرف حکومت کے فیس سے زلزلے کے بعد تعمیرات کا ایک وسیع سرکاری و گھریلو شاہکار سلسلہ قائم ہو گیا مگر یہ سب حادثات یا از خود حالات کی برکات ہیں اگر قائم بڑے سارے نظام کو ٹٹولا جائے تو اس کے حصے میں اپنے اپنے گھروں کی پرورش ہی بڑا کریڈٹ ہے ‘ عملاً عوام کو کیا دیا ہے یہاں آ کر سوال جواب گم ہو جاتے ہیں ماسوائے اس کے فلر بازی کر کے اپنا اپنا وقت پاس کرتے ہوئے سب آتے جاتے رہے ہیں ایک طویل عرصے کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر بنے گا خود مختار کے نعروں کا از خود مقابلہ لگوانے کا تماشہ چلتا رہا جس کی آڑ میں اپنے اپنے مفادات کے پختہ قلعے بنائے رکھے گئے اور مخالفانہ فتوؤں ‘ الزامات کے بازار میں لوگوں کو اُلجھائے رکھا تاہم وہ سب جن کا مفادات سے لینا دینا نہ تھا ان کی محنت اخلاص جدوجہد سے یہاں کشمیر کاز کے حوالے سے جلسے جلوس ‘ مظاہرے تسلسل سے ہوتے تھے پھر لبریش سیل بنا کر یہ ٹھیکہ اس کے سپرد کرتے ہوئے مقامی آبادی کو اس سے الگ کر دیا گیا تو طریقہ کار میں ریاست اور تشخص کے ناموں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا ذریعہ بنا دیا گیا جب اپنی کارکردگی کی بات آئے توجہ ہٹانے کیلئے اسلام آباد کے سر پر نشانے لگا کر بری الذمہ ہونا بہترین حل ثابت ہوتا رہا ورنہ ستر سال میں میسر آنے والے بجٹ کا لانگ ٹائم پلاننگ کے ساتھ استعمال کیا جاتا تو لوگوں کے بیوقوف بننے کا سلسلہ ختم ہو چکا ہوتا اور ریاست کے نام پر ریاست اور ریاست کے عوام سے مذاق کا کھیل قصہ پارینہ ہو جاتا ‘ جو تعصبات اور ان کے اندر تعصبات کی بیساکھیوں پر پل بڑھ رہا ہے ‘ ورنہ اس خطے کے لوگ بیرون ممالک مثالی ‘ سازگار ‘ حوصلہ افزاء صلاحیتوں کو نکھارنے والے ماحول کو ملنے پر اسٹیٹ بنک امریکہ کے نائب صدر حمار گیلانی کی شکل میں بنتے ہیں تو حکومتوں اسمبلیوں میں مقام بناتے ہیں ‘ پاکستان کی سینٹ ‘ قومی اسمبلی ‘ چاروں اسمبلیوں سے لیکر ہر شعبہ زندگی میں کردار ادا کر رہے ہیں ‘ فیڈرل سروس کمیشن میں پاس ہو کر بیورو کریسی کے بڑے بڑے منصب پر براجمان ہیں‘ جس کے لیے ان کے پاس کوئی بڑا نام پس منظر ‘ سفارش یا دولت نہ تھی مگر جو یہاں کے نعروں ‘ دعوؤں ‘ تعصبات کے چکروں میں باہر نہ نکل سکے وہ آج بھی کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں ‘ اور نہ جانے کب تک بنے رہیں گے ‘ جن میں سے اونچی آواز والوں کو زکوٰۃ بلدیات کے مستقل سوالی بنا کر اعصابی اپاہج بنا دیا گیا ہے ‘ تو باقی کو فکر معاش سے فرصت نہیں ہے جس کے ذمہ دار ریاست ‘ ضلع ‘ حلقہ ‘ برادری اور کبھی کلرک کی آسامی تک پر نعرے اور لڑائیاں کرنے کے ڈرامے کرنے والے ہیں ‘ جن کے تماشے اُس وقت تک لگے رہیں گے جب تک ان سے ان کی کارکردگی کے سوال نہیں پوچھے جائیں گے ‘ جس کے لیے نئے پاکستان کو یہاں لانا ہو گا کہ یہاں صرف بدنام زمانہ پولیس کا محکمہ ایسا ہے جو اپنے وجود کا جواز پیش کر سکتا ہے ‘ باقی تعلیم صحت سمیت سب محکموں سے گریڈ ‘ مراعات ‘ سہولیات کے حقوق کے بدلے فرائض کا پوچھا جائے گا تو ماسوائے انفرادی لوگوں کے اجتماعی کارگزاری نااہلی بنتی ہے ‘ یعنی کارکردگی کے بغیر ترقی اور حقوق پر ہی سارا زور چل رہا ہے ؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149000 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.